سنن ابن ماجه
كتاب الطهارة وسننها
کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل
37. بَابُ : الْوُضُوءِ بِالنَّبِيذِ
باب: نبیذ سے وضو کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 385
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ الْحَجَّاجِ ، عَنْ حَنَشٍ الصَّنْعَانِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِابْنِ مَسْعُودٍ لَيْلَةَ الْجِنِّ:" مَعَكَ مَاءٌ"؟ قَالَ: لَا، إِلَّا نَبِيذًا فِي سَطِيحَةٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَمْرَةٌ طَيِّبَةٌ، وَمَاءٌ طَهُورٌ صُبَّ عَلَيَّ"، قَالَ: فَصَبَبْتُ عَلَيْهِ فَتَوَضَّأَ بِهِ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے «لیلۃالجن» میں فرمایا: ”کیا تمہارے پاس پانی ہے“؟ انہوں نے کہا: نہیں، چھاگل (مشک) میں نبیذ کے سوا کچھ نہیں ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ پاک کھجور اور پاک پانی ہے، میرے اوپر ڈالو“، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے انڈیلا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5416، ومصباح الزجاجة: 158) (ضعیف)» (سند میں ”حنش ابن لہیعہ“ دونوں ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎: ”نبیذ“ وہ پانی ہے جس میں کھجور ڈال کر رات بھر بھگو یا جائے، جس کی وجہ سے پانی قدرے میٹھا ہو جائے، اور اس کا رنگ بھی بدل جائے، وہ نبیذ کہلاتا ہے۔ '' «لیلۃ الجن»: وہ رات ہے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنوں کو ہدایت کے لئے مکہ سے باہر تشریف لے گئے تھے، اور ان سے ملاقات کی، اور ان کو دعوت اسلام دی، اور وہ مشرف بہ اسلام ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جنوں کے پاس جانا چھ مرتبہ ثابت ہے، پہلی بار کا واقعہ مکہ میں پیش آیا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نہیں تھے جیسا کہ صحیح مسلم اور سنن ترمذی کے اندر سورۃ احقاف کی تفسیر میں مذکور ہے، دوسری مرتبہ کا واقعہ مکہ ہی میں جبل حجون پر پیش آیا، تیسرا واقعہ اعلی مکہ میں پیش آیا، جب کہ چوتھا مدینہ میں بقیع غرقد کا ہے، ان تینوں راتوں میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، پانچواں واقعہ مدنی زندگی میں مدینہ سے باہر پیش آیا، اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ تھے، چھٹا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی سفر کا ہے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلال بن حارث رضی اللہ عنہ تھے (ملاحظہ ہو: الکوکب الدری شرح الترمذی)۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
قال الدار قطني: ”تفردبه ابن لھيعة وھو ضعيف الحديث“ (76/1) يعني أنه حدث به بعد اختلاطه
والحديث ضعفه البوصيري
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 391
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 385 کے فوائد و مسائل
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابن ماجه 385
نبیذ کے ساتھ وضو کا حکم
(امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ) نبیذ کے ساتھ وضو کرنا جائز و درست ہے۔ [بداية المجتهد 66/1]
ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”شب جن“ (جس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنوں کے ساتھ ملاقات کی) مجھ سے دریافت کیا کہ کیا تمہارے پاس پانی ہے، میں نے عرض کیا: میرے پاس پانی نہیں ہے البتہ میرے پاس ایک برتن ہے جس میں نبیذ ہے یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«فَصَبَبْتُ عَلَيْهِ فَتَوَضَّأَ بِهِ»
”اسے انڈیل کر اس کے ساتھ وضو کرو“ اور یہ بھی فرمایا: ”یہ پینے کی چیز اور پاک کرنے والا ہے۔“ [ضعيف: سنن ابن ماجه/ ح: 385] ۱؎
↰ اس کی سند میں ابن لھیعہ راوی ضعیف ہے۔ [الضعفاء والمتروكين 192/1] ۲؎
➋ اس معنی کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
«تَمْرَةٌ طَيِّبَةٌ، وَمَاءٌ طَهُورٌ»
” (یہ تو) عمدہ کھجور اور پاک کرنے والا پانی ہے۔“ [ضعيف: سنن ابن ماجه/ ح: 384] ۳؎
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ علمائے سلف نے اس حدیث کے ضعیف ہونے پر اتفاق کیا ہے۔ [فتح الباري 471/1]
◈ امام طحاوی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث مختلف اسناد سے مروی ہے لیکن کوئی بھی قابل حجت نہیں۔ [شرح معاني الآثار 94/1]
◈ ملا على قاری رحمہ اللہ نے سید جمال کا قول نقل کیا ہے کہ اس حدیث کے ضعیف ہونے پر محدثین نے اجماع کیا ہے۔ [مرقاة المفاتيح 182/2]
◈ امام ابوزرعہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابوفزار کی نبیذ والی حدیث صحیح نہیں ہے۔ [العلل لابن أبى حاتم 17/1]
◈ نیز اس کی سند میں ابوزید راوی مجہول ہے جیسا کہ امام زیلعی، امام ابن حبان، امام بخاری اور امام ترمذی رحمها اللہ نے اسے مجہول قرار دیا ہے۔ [نصب الراية 147/1، المجروحين لابن حبان 198/3، تحفة الأحوذي 307/1، سنن ترمذي 88]
➌ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
«كان لا يرى باسا بالوضوء من النبيذ»
”وہ نبیذ سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ [ضعيف: دارقطني 78/1]
◈ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے دو سندوں سے روایت کیا ہے ایک میں حجاج ابن أرطاۃ راوی ضعیف ہے۔ [تقريب التهذيب 1119]
◈ اور دوسری سند میں ابو لیلیٰ خراسانی راوی مجہول ہے۔ [التقريب 8333]
➍ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إذا لم يجد أحدكم ماء ووجد النبيذ فليتوضا به»
” جب تم میں سے کسی کو پانی میسر نہ ہو لیکن اسے نبید مل جائے تو وہ اسی کے ساتھ وضو کرے۔ [ضعيف: دارقطني 76/1]
◈ امام دارقطنی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ اس کی سند میں ابان بن ابی عیاش راوی متروک الحدیث ہے اور مجاعہ ضعیف ہے۔
(جمہور، اہلحدیث، امام شافعی رحمہ اللہ، امام احمد رحمہ اللہ) نبیذ کے ساتھ وضو کرنا جائز نہیں۔ [بداية المجتهد 66/1]
ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ نبیذ پانی نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے صرف مطلق پانی کے ساتھ طہارت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے اور پانی کے دستیاب نہ ہونے کی صورت میں نبیذ نہیں بلکہ مٹی سے تیمم کا حکم دیا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے کہ:
«فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا» [4-النساء:43]، [5-المائدة:6]
اور حدیث میں ہے کہ
”مٹی مومن کا وضو ہے خواہ دس سال تک اسے پانی میسر نہ آئے مگر جب پانی دستیاب ہو جائے تو پھر اللہ سے ڈرنا چاہیے اور اپنے جسم پر پانی پہنچانا چاہیے۔“ [صحيح: ابوداود 332] ۴؎
➋ گذشتہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی روایت جس میں نیبذ سے وضو کا جواز موجود ہے ”شب جن والی“۔ وہ ضعیف ہے۔ [ضعيف: سنن ابن ماجه/ ح: 385] ۱؎
➌ بلکہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس کے خلاف حدیث مروی ہے کہ
«لَمْ أَكُنْ لَيْلَةَ الْجِنِّ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ مَعَهُ»
”میں شب جن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود نہیں تھا حالانکہ میری خواہش تھی کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتا۔ [صحيح مسلم/ فواد: 450، دارالسلام: 1010] ۵؎
(امام نووی رحمہ اللہ) یہ حدیث سنن ابی داود میں مروی حدیث ”کہ جس میں نبیذ سے وضو اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا شب جن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر ہونا مذکور ہے“ کے بطلان میں واضح (ثبوت) ہے کیونکہ یہ حدیث صحیح ہے اور روایت نبیذ محدثین کے اتفاق کے ساتھ ضعیف ہے۔ [شرح مسلم 307/2]
➍ ابوعبیدہ رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا کہ کیا آپ کے والد شب جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھے؟ تو انہوں نے کہا: ”نہیں۔“ [دارقطني 77/1] ۶؎
➎ امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی اسی موقف کو ترجیح دی ہے۔ [ترمذي بعد الحديث 77]
(راجح) جمہور اہلحدیث کا موقف راجح ہے جیسا کہ گذشتہ بحث اسی کی متقاضی ہے اور اس لیے بھی کہ پانی میں پاک چیز ملنے کی وجہ سے اگر اس پر مائے مطلق (یعنی سادے پانی) کا نام نہ بولا جا سکتا ہو تو وہ پانی طاہر تو ہوتا ہے لیکن مطہر نہیں ہوتا۔ [بداية المجتهد 54/1] ۷؎
------------------
۱؎ [ضعيف: ضعيف ابن ماجة 85، كتاب الطهارة وسننها: باب الوضوء بالنبيذ ابن ماجة 385، أحمد 398/1، دارقطني 76/11، المعجم الكبير 65/10]
۲؎ اس کی سند میں ابن لھیعہ راوی ضعیف ہے۔
[الضعفاء والمتروكين 192/1، ميزان الاعتدال 65/2، المغني 266/1]
۳؎ [ضعيف: ضعيف ابن ماجه 84، أيضا، ابن ماجة 384، ابوداود 84، ترمذي 88، أحمد 402/1، المعه الكبير 95/10، دارقطني 77/1]
۴؎ [صحيح: إرواء الغليل 153، ابوداود 332، كتاب الطهارة: باب الحنب يتيمم، ترمذي 164، نسائي 171/1، ابن حبان 1311/4، دارقطني 186/1، بيهقي 212/1]
۵؎ [صحيح: بداية المجتهد 66/1، مسلم 450 كتاب الصلاة: باب الجهر بالقراءة من الصبح . . . . فواد: 688، دارالسلام: 1010، ترمذي 3258، ابوداود 85، أحمد 436/1، ابن خزيمة 82]
۶؎ [دارقطني 77/1، كتاب الطهارة: باب الوضوء بالنبيذ، بيهقي 10/1]
۷؎ [المجموع 90/1، بداية المجتهد 54/1، المغني 25/1، السيل الجرار 56/1، المحلى بالآثار 193/1، فقه السنة 141]
* * * * * * * * * * * * * *
فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 138