Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الطهارة وسننها
کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل
31. بَابُ : غَسْلِ الإِنَاءِ مِنْ وُلُوغِ الْكَلْبِ
باب: جس برتن میں کتا منہ ڈال دے اس کے دھونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 363
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي رَزِينٍ ، قَالَ: رَأَيْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَضْرِبُ جَبْهَتَهُ بِيَدِهِ، وَيَقُولُ: يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ، أَنْتُمْ تَزْعُمُونَ أَنِّي أَكْذِبُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لِيَكُونَ لَكُمُ الْمَهْنَأُ وَعَلَيَّ الْإِثْمُ، أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِذَا وَلَغَ الْكَلْبُ فِي إِنَاءِ أَحَدِكُمْ فَلْيَغْسِلْهُ سَبْعَ مَرَّاتٍ".
ابورزین کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے اپنی پیشانی پہ ہاتھ مارتے ہوئے کہا: اے عراق والو! تم یہ سمجھتے ہو کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتا ہوں تاکہ تم فائدے میں رہو اور میرے اوپر گناہ ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ یقیناً میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جب کتا تم میں سے کسی کے برتن میں منہ ڈال دے تو اسے سات مرتبہ دھوئے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطہارة 27 (279)، سنن النسائی/الطہارة 52 (66)، المیاہ 6 (336)، 7 (339، 340)، (تحفة الأشراف: 12441، 14607)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الوضوء 34 (172)، سنن ابی داود/الطہارة 37 (71)، سنن الترمذی/الطہارة 68 (91)، موطا امام مالک/الطہارة 6 (35)، مسند احمد (2/245، 265، 271، 314، 360، 358، 424، 427، 440، 480، 482، 508) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: صحیح احادیث سے سات بار دھونا ہی ثابت ہے، تین بار دھونے کی روایت معتبر نہیں ہے، بعض لوگوں نے اسے بھی دیگر نجاستوں پر قیاس کیا ہے، اور کہا ہے کہ کتے کے برتن میں منہ ڈال دینے پر برتن تین بار دھونے سے پاک ہو جائے گا، لیکن اس قیاس سے نص کی یا ضعیف حدیث سے صحیح حدیث کی مخالفت ہے جو درست نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
أبو معاوية مدلس وعنعن
وكذا شيخه الأعمش عنعن
والمرفوع صحيح انظر صحيح مسلم (279)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 390

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 363 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث363  
اردو حاشہ:
(1)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کتے کا منہ اور اس کا لعاب ناپاک ہے جس سے پانی بھی ناپاک ہوجاتا ہے اوربرتن بھی، اس لیے حکم ہے کہ جس پانی میں کتا منہ ڈالے اسے گرا دیا جائے۔ دیکھیے: (صحيح مسلم، الطهارة، باب حكم ولوغ الكلب، حديث: 279)

(2)
جس برتن میں کتا منه ڈالے اسے سات بار دھونا ضروری ہے
(3)
اس کےعلاوہ اس برتن کو ایک مرتبہ مٹی سے مانجھنا بھی ضروری ہے۔
جیسے کہ صحیح حدیث کے مذکورہ بالا باب میں مذکور احادیث میں صراحت ہے۔
مٹی کا استعمال شروع میں بھی ہوسکتا ہے اور آخر میں بھی کونکہ ایک روایت میں ہے کہ (اُوْلَاهُنَّ بِالتُّرَابِ)
پہلی بار مٹی سے مل کر دھوؤ۔
اور ایک روایت میں ہے:
(عَفِّرُوْهُ الثَّامِنَةَ بِالتُّرَابِ)
اس کو آٹھویں بار مٹی سے مل کر دھوؤ۔
سات بار پانی سے دھونے کے ساتھ جب ایک بار مٹی استعمال کی جائے گی تو یہ مٹی کا استعمال گویا آٹھویں بار دھونا ہے۔

(4)
کتے کے لعاب میں باؤلا پن کے جراثیم ہوتے ہیں جو ایک بار دھونے سے ختم نہیں ہوتے۔
اس کے علاوہ مٹی میں جراثیم کش خاصیت پائی جاتی ہے، اس لیے شریعت نے کتے کے جوٹھے کے بارے میں خاص طور پر یہ حکم دیا ہے دوسرے جانوروں کے بارے میں نہیں دیا۔

(5)
حضرت ابو ہریرہ کا پیشانی میں ہاتھ مارنا افسوس اور تعجب کے لیے ہے کہ تم لوگوں کو میری بات پر یقین کیوں نہیں آتا؟ معلوم ہوتا ہے کہ اہل عراق میں شروع سے قابل احترام ہستیوں کا احترام کم تھا، اس لیے وہ مدینہ سے مقرر ہو کر جانے والے گورنروں پر بھی بے جا تنقید کرتے رہتے تھےاور جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ کو دارالحکومت بنایا تو انھیں بھی پریشان کرتے رہے۔
عراق ہی سے خوارج کا فتنہ شروع ہوا اور یہیں معتزلہ فرقہ پیدا ہوا۔

(6)
یہ روایت ہمارے محقق کے نزدیک سنداً ضعیف ہے جبکہ دیگر بہت سے محققین کے نزدیک صحیح ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 363   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 72  
´بلی کے منہ مارنے سے ایک بار دھونا`
«. . . وإذا ولغ الهر غسل مرة . . .»
. . . جب بلی کسی برتن میں منہ ڈال دے تو ایک بار دھویا جائے گا . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 72]
فوائد و مسائل:
برتن میں منہ مارنے سے مراد یہ ہے کہ کتا زبان سے کچھ پئیے یا چاٹے۔
➋ کتے کے لعاب کے نجس ہونے پر سب کا اتفاق ہے اور اس سے امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے یہ استنباط کیا ہے کہ اس کے جوٹھے سے وضو نہیں ہو سکتا۔
➌ معلومہ ہوا کہ تھوڑا پانی «ماء قليل» نجس ہو جاتا ہے خواہ ظاہر میں اس کی کوئی صفت تبدیل ہوئی ہو یا نہ ہو۔
بلی کے منہ مارنے سے ایک بار دھونے کا جملہ اس روایت میں مدرج ہے اور صحیح یہ ہے کہ اس کا جوٹھا پاک ہے جیسے کہ اگلے باب میں ذکر آ رہا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 72   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 172  
´جب کتا برتن میں پی لے (تو کیا کرنا چاہیے)`
«. . . إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا شَرِبَ الْكَلْبُ فِي إِنَاءِ أَحَدِكُمْ فَلْيَغْسِلْهُ سَبْعًا . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کتا تم میں سے کسی کے برتن میں سے (کچھ) پی لے تو اس کو سات مرتبہ دھو لو (تو پاک ہو جائے گا) . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ: 172]
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
پہلی حدیث جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں واضح طور پر اس کا حل ہے کہ جس برتن میں کتا منہ ڈال دے اسے سات مرتبہ پانی سے دھوئیں. [صحيح بخاري 172]
مگر دوسری حدیث میں صاف طور پر اس کا انکار ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جہاں کتا بیٹھتا تھا اس جگہ کو نہیں دھوتے تھے۔ [صحيح بخاري 174]
اس میں تطبیق یہ ہو گی کہ:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں:
یہ معاملہ اسلام کے ابتدائی دور میں تھا جب کہ مسجد کے کواڑ وغیرہ بھی نہ تھے۔ اس کے بعد جب مساجد کے بارے میں احترام و اہتمام کا حکم نازل ہوا تو اس طرح کی باتوں سے منع کر دیا گیا کہ جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بلند آواز سے فرمایا: لوگو! مسجد میں بیہودہ بات کرنے سے پرہیز کرو تو جب لغو بات سے روکا گیا تو دوسرے امور کا بھی یہی حال ہو گا۔ اس لئے اس سے پہلے حدیث میں کتے کے جھوٹھے برتن کے بارے میں سات مرتبہ دھونے کا حکم آیا تھا اب وہی حکم باقی ہے جس کی تائید کئی احادیث سے ہوتی ہے۔ بلکہ بعض احادیث میں کتے کے جھوٹھے برتن کو سات مرتبہ دھونے کے بعد آٹھویں مرتبہ مٹی سے دھونے کا بھی حکم آیا ہے۔ مٹی سے اول مرتبہ پھر سات مرتبہ پانی سے۔ [فتح الباري ج1 ص219۔ 220]

لہٰذا باب اور حدیث میں مناسبت یوں ہے کہ باب میں دھونے کے بارے میں یا کتنی مرتبہ کتے کے جھوٹھے کو دھویا جائے۔ متعین نہیں مگر حدیث میں سات مرتبہ کا ذکر ہے اور دوسری حدیث جس میں مطلق نہ دھونے کا ذکر ہے وہ منسوخ ہے لہٰذا نہ دھونا منسوخ ہوا تو دھونا بالاولی درست ٹھہرا یہیں سے ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔

فائدہ:
مذکورہ حدیث کا تعلق (Zoology) حیوانات کے ساتھ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال قبل ایک ایسی تحقیق کی وضاحت کی جسے آج سائنسدان مانتے ہوئے نظر آتے ہیں جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی روشن دلیل ہے۔ دو میڈیکل ڈاکٹر باپ اور بیٹی مصر میں مقیم تھے اور یہ دونوں فرانسیسی تھے۔ جب باپ نے یہ حدیث پڑھی تو فوری طور پر کتے کے سامنے ایک برتن میں پانی رکھ دیا جب وہ اس کو پی چکا تو انہوں نے خردبین میں سے دیکھا کہ اس میں جراثیم موجو د تھے۔ پانی گرا کر کئی بار دھویا گیا. ہر بار جراثیم برتن میں تھے حتیٰ کہ جب مٹی سے مانجھا گیا اور اس کے بعد چیک کیا گیا تو جراثیم نہ صرف مر چکے تھے بلکہ برتن پاک ہو گیا تھا. اس پر دونوں ڈاکٹر باپ اور بیٹی مسلمان ہو گئے۔

سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور جدید سائنسی تحقیقات کے مصنف رقمطراز ہیں:
موجودہ دور کی تحقیقات نے ثابت کیا ہے کہ کتے کے تھوک میں وہ جراثیم پاتے جاتے ہیں جو کتے کو پاگل بناتے ہیں۔ جنہیں انگریزی میں ریبیز وائرس (Rabies Virus) کہتے ہیں۔ کتا جب کسی برتن کو چاٹے گا تو اگر وہ جراثیم اس برتن کے ساتھ لگ گئے تو وہ جراثیم بغیر مٹی سے مانجھے برتن سے علیحدہ نہیں ہو سکتے ہیں نہ ہی فنا ہو سکتے ہیں۔ خاک میں یہ خاصیت ہے کہ ان جراثیم کو فنا کر دیتی ہے۔ اسی بناء پر اسلام نے مٹی سے مانجھنے کا حکم دیا ہے۔۔۔

طویل تجربات و مشاہدات اور طبی تحقیقات نے دونوں حقیقتوں کا واشگاف کر دیا ہے۔ طبی تحقیقات نے ثابت کر دیا ہے کتے کے لعاب دہن میں ایک مخصوص قسم کے جراثیم ہوتے ہیں جنہیں ریبی وائرس کہتے ہیں، ان سے ایک انتہائی مہلک اور موذی مرض پیدا ہوتا ہے۔ جس کے اثرات ظاہر ہونے کے بعد کوئی مریض بچ نہیں سکتا۔ اسی طرح تحقیقات نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ مٹی میں دیگر اجزاء کے علاوہ کثیر مقدار میں نوشادر، شورہ، امونیم اور کیلشیم آکسائیڈ ہوتے ہیں، جن سے اس قسم کے وائرس کی تطہیر ہو جاتی ہے۔ [سنت نبوي صلى الله عليه وسلم اور جديد سائنسي تحقيقات، ج2، ص291]

فائدہ نمبر 2:
کتےکے جھوٹھے برتن کو پاک کرنے کے لیے احادیث میں مختلف الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ کسی حدیث میں تین مرتبہ دھونے کا ذکر ہے تو کسی میں پانچ مرتبہ تو کسی میں سات مرتبہ۔

ابن الملقن رحمہ اللہ ان مختلف روایات پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«انه روي من طريق ابي هريرة رضى الله عنه مرفوعاً التخيير بين الثلاث الخمس والسبع، فل كان السبع واجباً لم يخير بينه و بين الباقي لكنه ضعيف كمانبه الدار قطني فى سننه والبهقي فى خلافيات» [التوضيح الشرح الجامع الصحيح، ج4 ص2455]
یعنی وہ روایت بطریق سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہیں۔ تین، پانچ اور سات مرتبہ دھونے میں اخیتار ہے۔ پس اگر سات مرتبہ واجب ہوتا تو ان میں اختیار نہ ہوتا۔ لیکن (تین اور پانچ کی روایات) وہ ضعیف ہیں جس کا ذکر امام دارقطنی نے سنن میں اور امام بیہقی نے خلافیات میں فرمایا ہے۔
سنن دارقطنی میں تین مرتبہ دھونے کا ذکر ہے مگر امام دارقطنی فرماتے ہیں اس کی سند موقوف ہے۔
دوسری روایت میں تین پانچ اور سات مرتبہ کا ذکر ہے اس روایت کے بعد امام دارقطنی فرماتے ہیں عبدالوہاب نے تفرد کیا ہے اسماعیل سے اور وہ متروک الحدیث ہے۔
تیسری روایات بھی اسی سے ملتی جلتی ہے اس کی سند میں عبدالوہاب بن الضحاک ہے۔ امام نسائی وغیرہ نے فرمایا متروک۔ تفصیل کے لیے دیکھیے:
① التعلیق المغنی على سنن الدارقطنی، ج92 تا 96
② التحقیق لابن الجوزی، ج1، ص74
③ مشکل الآثار للطحاوی، ج1، ص 23
④ الخلاقیات للبیھقی، ج1 صح379 تا 382

بعض اہل علم نے تین مرتبہ اور پانچ مرتبہ دھونے کے حکم کو منسوخ خیال کیا ہے۔ مگر منسوخ بغیر دلیل کے ثابت نہیں ہوتا جب روایات ضعیف ہیں تو پھر منسوخ کے تکلف میں پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
[التحرير للكمال بن الهمام ص 229]
[امير بادشاه فى تيسيرالتحرير ج3، ص72]
[التقرير والتحبير لابن امير الحاج، ج2، ص266]
مگر احتمال سے نسخ ثابت نہیں ہوا کرتا بلکہ منسوخیت کے کئی ایک دلائل علماء نے ذکر فرمائے ہیں۔ مزید تحقیق کے لیے ان کتب کی طرف مراجعت مفید رہے گی۔
① نیل الاوطار 42/1
② الام6/1
③ نصب الرایۃ ج1، ص131
④ مغنی المحتاج 83/1
⑤ المھذب، ج1، ص 55
⑥ شرح النوی علی مسلم185/3
④ التنبیہ ص17
⑦ الشرح الصغیر 85/1
⑧ المجموع، ج2، ص585
⑨ حاشیۃ الدسوقی 84/1
⑩ المغنی73/1
⑪ مقدمات ابن ارشد 21/1
⑫ شرح منتھی الارادات97/1
⑬ قوانین احکام الشریعۃ، ص35
⑭ المحرر4/1
⑮ فتح باب العنایۃ 149/1
⑯ الشرح الکبیر128/1
⑰ کشاف القناع 208/1
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 135   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 31  
´کتے کا جوٹھا نجس ہے`
«. . . 322- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا شرب الكلب فى إناء أحدكم فليغسله سبع مرات . . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کے برتن میں سے کتا پی لے تو اسے سات مرتبہ دھوئے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 31]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 172، ومسلم 279، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ سیدنا عبداللہ بن مغفل المزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إِذَا وَلَغَ الْكَلْبُ فِي الإِنَاءِ، فَاغْسِلُوهُ سَبْعَ مَرَّاتٍ، وَعَفِّرُوهُ الثَّامِنَةَ فِي التُّرَابِ» جب برتن میں کتا منہ ڈال دے تو اسے سات دفعہ دھو لو اور آٹھویں دفعہ مٹی سے مانجھو [صحيح مسلم: 280، دارالسلام:653]
➋ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب کسی برتن میں کتا منہ ڈالے تو برتن میں جو کچھ ہے اسے بہادو پھر اسے تین دفعہ دھولو۔ [سنن الدارقطني 66/1 ح 193، وسنده صحيح، شرح معاني الآثار للطحاوي 23/1]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے دوسری مشہور روایت میں ہے: اسے بہادو اور اس برتن کو سات دفعہ دھولو۔ [سنن الدارقطني 64/1 ح 180، وقال: صحیح موقوف وسنده صحيح]
◄ معلوم ہوا کہ تین دفعہ دھونے والا فتویٰ منسوخ ہے۔
➌ سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ جس برتن میں کتا منہ ڈالے تو اسے سات دفعہ دھونا چاہئے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 173/1 ح 183، وسنده حسن لذاته، عبدالله العمري عن نافع: حسن الحديث]
➍ جدید دور کی سائنس سے ثابت ہوچکا ہے کہ برتن کو سات دفعہ دھونے اور مٹی سے مانجھنے سے کتے کے جراثیم بالکل ختم ہوجاتے ہیں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 322   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 8  
´کتے کے جوٹھے کو سات مرتبہ دھونا`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏طهور إناء احدكم إذا ولغ فيه الكلب ان يغسله سبع مرات،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اولاهن بالتراب . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم میں سے کسی کے برتن میں جب کتا منہ ڈال جائے تو اسے سات مرتبہ دھویا جائے، سب سے پہلے اسے مٹی مل کر . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 8]
لغوی تشریح:
«طَهُورُ» طا کے ضمہ کے ساتھ۔ یہ مصدر ہے اور ترکیب میں مبتدا واقع ہو رہا ہے اور لفظ «إِنَاءِ» (برتن) کی طرف مضاف ہے۔
«وَلَغَ» «ولوغ الکلب» کے معنی ہیں: کتے کا زبان کے کنارے کے ساتھ پینا (چاٹنا)۔
«وَلَغَ» باب «فَتَحَ يَفْتَحُ»، «حَسِبَ يَحْسِبُ» اور «سَمِعَ يَسْمَعُ» سے آتا ہے۔
«أَنْيَّغْسِلْهُ» یہ خبر واقع ہو رہی ہے جو جزائے شرط پر دلالت کرتی ہے۔
«أُولَاهُنَّ» کا مطلب یہ ہے کہ سات مرتبہ دھونے کی صورت میں سب سے پہلی مرتبہ۔
«فَليُرِقهُ» یہ «اِرَاقةٌ» سے ماخوذ ہے جس کے معنیٰ ہیں: برتن میں خورد و نوش کی جو چیز ہوا سے انڈیل کر برتن کو خالی کر دینا۔ اس میں مفعول کی ضمیر کا مرجع مفہوم سے معلوم ہو رہا ہے، یعنی «ما وقع فيه الكتب»

فوائد ومسائل:
➊ ترمذی کے لفظ «أُخْرَاهُنَّأَ وْأُولَاهُنَّ» کے متعلق غالب گمان یہ ہے کہ یہ راوی کا شک ہے، «أَوْ» تخییر کے لیے نہیں کہ دھونے والے کو اختیار ہو۔ اور «أُولَاهُنَّ» کا لفظ بکثرت روایات میں آنے کی وجہ سے اور خاص طور پر بخاری و مسلم کے روایت کرنے کی وجہ سے راجح ہے، یعنی اس بات کو ترجیح ہے کہ پہلی مرتبہ مٹی سے صاف کرنا چاہیے۔
➋ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کتے کا منہ، اس کا لعاب دہن اور اس کا جوٹھا نجس و ناپاک ہے۔ اور یہی اس کے سارے بدن کے نجس و ناپاک ہونے پر دلالت کرتی ہے اور برتن کے سات مرتبہ دھونے کو واجب ٹھہراتی ہے۔ اور مٹی کے ساتھ صاف کرنا بھی واجب ہے۔ محققین کی رائے یہی ہے۔ اور بعض نے کہا ہے کہ سات مرتبہ دھونا اور ایک مرتبہ مٹی سے صاف کرنا مستجب ہے، واجب نہیں۔ اور بعض کا یہ بھی قول ہے کہ تین مرتبہ دھویا جائے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دلیل ان دونوں اقوال کی تائید نہیں کرتی۔ اور معلوم رہے کہ جب محض نجاست، خواہ وہ کسی قسم کی ہو، اس کے ازالے کے لیے سات مرتبہ دھونے کی شرط نہیں ہے تو پھر ضروری ہے کہ سات مرتبہ دھونے کے حکم کی کوئی اور حکمت ہو۔
➌ دورِ حاضر کے کچھ اطباء نے واضح کیا ہے کہ اکثر کتوں کی آنتوں میں بہت چھوٹے چھوٹے جرثومے پائے جاتے ہیں۔ یہ چار ملی میٹر لمبے ہوتے ہیں۔ جب کتا اپنا فضلہ خارج کرتا ہے تو اس فضلے سے بکثرت انڈے خارج ہوتے ہیں اور فضلہ خارج ہونے کی جگہ (دبر) کے ارد گرد بالوں میں کثرت سے چمٹ جاتے ہیں۔ پھر جب کتا اپنی زبان سے اپنا جسم صاف کرتا ہے تو یہ انڈے اس کی زبان اور منہ کے ساتھ لگ جاتے ہیں۔ پھر جب کتا کسی برتن میں منہ ڈالتا ہے یا پانی پیتا ہے یا انسان اس کا منہ چومتا ہے (جیسا کہ غیر مسلم اور ان کی نقالی کرنے والے ایسا کرتے ہیں) تو یہ انڈے ان اشیاء کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں اور خورد و نوش کے وقت آسانی سے انسان کے منہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ منہ میں رسائی حاصل کرنے کے بعد اس کے معدہ میں پہنچ جاتے ہیں۔ پھر معدے کی دیواروں میں سوراخ کر کے خون کی نالیوں میں داخل ہو جاتے ہیں اور اس طرح دل، دماغ اور پھیپھڑوں کی بےشمار بیماریاں پیدا کرتے ہیں۔ مذکورہ بالا تمام چیزوں کا یورپین اطباء اپنے شہروں میں مشاہدہ کر چکے ہیں۔ ان جراثیم زدہ کتوں کی پہچان اور امتیاز چونکہ بڑا مشکل کام ہے، اس کے لیے کافی وقت درکار ہے اور ایسے آلات کے ذریعے سے انتہائی دقیق بحث مطلوب ہے جن کا استعمال بہت کم لوگ جانتے ہیں، اس لیے شریعت نے عوام کو ان بکھیڑوں میں ڈالنے کی بجائے اس کو ناپاک قرار دے کر برتن کو سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا ہے تاکہ برتنوں کی صفائی اور نظافت ہو سکے اور مذکورہ بالا کوئی چیز برتن کے ساتھ لگی نہ رہ جائے۔ یہ سراسر حکمت ہے اور قرین صواب ہے۔ حقیقت حال اللہ کے علم میں ہے۔ [حاشية إحكام الأحكام شرح عمدة الأحكام لابن دقيق العبد: 1؍27]
➍ خورد و نوش کی جس چیز میں کتا منہ ڈال جائے اسے استعمال میں نہیں لانا چاہیے بلکہ اسے گرا دینا چاہیے اور حدیث کی رو سے اس برتن کو سات مرتبہ دھونا چاہیے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کتا خود بھی ناپاک ہے اور جس چیز کو منہ لگائے وہ بھی ناپاک ہو جاتی ہے۔ اگر برتن ہو تو اسے سات مرتبہ دھونا چاہیے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ساتویں بار کی بجائے آٹھویں مرتبہ مٹی سے دھونے کا ذکر ہے۔ [صحيح مسلم، الطهارة، باب حكم ولوغ الكلب، حديث: 280] یعنی پہلی بار مٹی سے صاف کیا جائے پھر سات بار پانی سے دھویا جائے۔ اس طرح کرنے سے مزید صفائی اور پاکیزگی حاصل ہو جاتی ہے۔
➎ احناف تین مرتبہ دھونے سے برتن کے پاک ہونے کے قائل ہیں۔ ان کی دلیل دارقطنی اور طحاوی میں منقول سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا فتویٰ ہے کہ اگر کتا کسی برتن میں منہ ڈال دے تو اسے تین مرتبہ دھونا چاہیے، حالانکہ صحیح سند کے ساتھ ان کا یہ فتویٰ بھی منقول ہے کہ ایسے برتن کو سات بار دھویا جائے۔ [سنن الدارقطني، الطهارة، باب ولوغ الكلب فى الإناء، حديث: 180] لہٰذا جو فتویٰ روایت کے موافق ہے، وہی راجح ہے اور وہ اسناد کے اعتبار سے بھی تین بار دھونے کے فتوی سے زیادہ صحیح ہے۔ [فتح الباري: 277/1] تعجب ہے کہ عموماً فقہائے حنفیہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو غیر فقیہ کہتے ہیں، معاذ اللہ! مگر یہاں حدیث مرفوع اور صحیح فتویٰ کے مقابلے میں ان کے مرجوح فتویٰ اور رائے کو ترجیح بھی دیتے ہیں۔ مولانا عبدالحی لکھنوی نے اس سلسلے میں علامہ عینی اور علامہ ابن ہمام رحمہما اللہ کے اعتراضات باردہ کا کافی وشافی قابل دید جواب دیا ہے۔ [السعاية: 1؍449۔ 454]
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 8   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 172  
´کتے کا لعاب نجس و پلید ہے`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا شَرِبَ الْكَلْبُ فِي إِنَاءِ أَحَدِكُمْ فَلْيَغْسِلْهُ سَبْعًا " . . . .»
. . . وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کتا تم میں سے کسی کے برتن میں سے (کچھ) پی لے تو اس کو سات مرتبہ دھو لو (تو پاک ہو جائے گا) . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ إِذَا شَرِبَ الْكَلْبُ فِي إِنَاءِ أَحَدِكُمْ فَلْيَغْسِلْهُ سَبْعًا: 172]
تخريج الحديث:
[160۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 33 باب الماء الذى يغسل به شعر الإنسان 172، مسلم 279، ابوداود 71]
فھم الحدیث: ایک روایت میں ہے کہ سات مرتبہ دھوتے ہوئے ایک مرتبہ برتن کو مٹی کے ساتھ بھی دھو لو، خواہ ابتدا میں دھو لو یا آخر میں۔ [صحيح: صحيح أبوداود 64 66، ترمذي: كتاب الطهارة 91]
اس روایت سے معلوم ہوا کہ جس برتن میں کتا منہ ڈال جائے اسے سات مرتبہ دھونا ضروری ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کتے کا لعاب نجس و پلید ہے، اسی وجہ سے اسے دھونے کا حکم دیا گیا ہے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 160   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح البخاري 172  
«ولعاب كلب»
اور کتے کا لعاب (نجس ہے)۔
➊ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إذا ولغ الكلب فى إناء أحدكم فليرقه ثم ليغسله سبع مرات أولاهن بالتراب»
جب تم میں سے کسی کے برتن میں کتا منہ ڈال جائے تو اسے (یعنی پانی کو) بہا دینا چاہیے اور برتن کو سات مرتبہ دھونا چاہیے البتہ پہلی مرتبہ مٹی کے ساتھ دھویا جائے۔ [بخاري 172]
اور جامع ترمذی میں یہ لفظ ہیں «وأخراهن أو أولاهنه» آخری مرتبہ یا پہلی مرتبہ (مٹی کے ساتھ دھویا جائے)۔ [ترمذي 91] ۱؎

کتا بذات خود اور اس کا لعاب نجس ہے یا نہیں اس میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔
(شافعیہ، حنابلہ) کتا اور اس سے خارج ہونے والی ہر چیز مثلاًً اس کا لعاب اور پسینہ وغیرہ سب نجس ہے (ان کی دلیل گزشتہ حدیث ہے)۔ [المغني 52/1] ۲؎
(مالکیہ) نہ تو کتا بذات خود نجس ہے اور نہ ہی اس کا لعاب۔ اور جس برتن میں کتا منہ ڈال جائے اسے دھونے کا حکم تعبدی ہے نہ کہ نجاست کی وجہ ہے۔ [المغني 52/1] ۳؎
(احناف) صرف کتے کا منہ، اس کا لعاب اور اس کا پاخانہ وغیرہ نجس ہے، کتا بذات خود نجس نہیں کیونکہ اس سے پہرے اور شکار کا کام لیا جاتا ہے۔ [بدائع الصنائع 63/1] ۴؎
(جمہور فقہاء) کتے کا لعاب گزشتہ حدیث کی بنا پر نجس ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اس کا منہ بھی نجس ہے کیونکہ لعاب منہ کا ایک جز ہے اور جب جسم کا سب سے اشرف جز (منہ) نجس ہے تو بقیہ جسم کا نجس ہونا تو بالاولیٰ ضروری ہے۔ [المحموع للنووي 567/2] ۵؎
(ابن تیمیہ اللہ رحمہ اللہ) کتے کا لعاب نص کی وجہ سے نجس ہے اور اس کے بقیہ تمام اجزا قیاس کی وجہ سے نجس ہیں البتہ اس کے بال پاک ہیں۔ [مجموع الفتاوي 216/21 -220]
(شوکانی رحمہ اللہ) حدیث کی وجہ سے صرف کتے کا لعاب نجس ہے۔ علاوہ ازیں اس کی بقیہ مکمل ذات (یعنی گوشت، ہڈیاں، خون، بال اور پسینہ وغیرہ) پاک ہے کیونکہ اصل طہارت ہے اور اس کی ذات کی نجاست کے متعلق کوئی دلیل موجود نہیں۔ [السيل الحرار 37/1] ۶؎
(راجح) امام شوکانی رحمہ اللہ کا موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔ (واللہ اعلم)

جس برتن میں کتا منہ ڈال جائے اسے سات مرتبہ دھونا
جس برتن میں کتا منہ ڈال جائے اسے سات مرتبہ دھونا واجب ہے جیسا کہ گزشتہ حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم موجود ہے۔ [بخاري 172]
(احمد رحمہ اللہ، شافعی رحمہ اللہ، ما لک رحمہ اللہ) اسی کے قائل ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما، حضرت عروہ رضی اللہ عنہ، امام ابن سیرین، امام طاوس، امام عمرو بن دینار، امام اوزاعی، امام اسحاق، امام ابوثور، امام ابوعبید، امام داود وغیرہ رحمہم اللہ اجمعین سب کا اسی طرف میلان و رجحان ہے۔
(احناف) سات مرتبہ دھونا مستحب ہے اور اگر تین مرتبہ ہی دھو لیا جائے تو کافی ہے۔ [الدر المختار 303/1] ۷؎
➊ ان کی دلیل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول ہے:
«ثم اغسله ثلاث مرات»
پھر برتن کو تین مرتبہ دھو لو۔ [دارقطني 83/1، كتاب الطهارة: بأب و لوغ الكلب فى الإناء]
یعنی راوی حدیث کا عمل اپنی ہی روایت کردہ مرفوع حدیث کے مخالف ہے لہٰذا اس پر عمل کرنا واجب نہیں۔
اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مقابلے میں کسی کی بات قبول نہیں کی جائے گی، نیز ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سات مرتبہ دھونے کا فتوی بھی منقول ہے۔ [نيل الأوطار 76/1] ۸؎
➋ احناف کا مستدل یہ بھی ہے کہ پاخانہ کتے کے جوٹھے سے زیادہ نجس ہے لیکن جب اسے سات مرتبہ دھونے کی قید نہیں لگائی گئی تو اس میں بالاولیٰ ضروری نہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قیاس صریح نص کے مقابلے میں ہے لہٰذا اس کا اعتبار فاسد ہے۔ [تحفة الأحوذي 317/1] ۹؎
(علامیہ عینی رحمہ اللہ) انہوں نے بھی اس قیاس کو فاسد قرار دیا ہے۔ [عمدة القاري 340/2] ۹؎
خلاصہ کلام یہ ہے کہ برتن کو سات مرتبہ دھونا ہی واجب ہے جیسا کہ ابتدا میں حدیث بیان کر دی گئی ہے۔
------------------
۱؎ [بخاري 172، كتاب الوضوء: باب الماء الذى يغسل به شعر الإنسان . . .، مسلم 279، نسائي 63، شرح السنة 378/1، أحمد 427/2، أبو داود 71، ترمذي 91، شرح معاني الآثار 21/1، دارقطني 64/1، بيهقي 240/1، عبدالرزاق 330، ابن أبى شيبة 173/1، ابن خزيمة 90، ابن حبان 1297، مؤطا 34/1]
۲؎ [المغني 52/1، مغني المحتاج 78/1، كشاف القناع 208/1]
۳؎ [المنتقى للباحي 73/1، الشرح الصغير 43/1، الترح الكبير 83/1]
۴؎ [فتح القدير 64/1، رد المحتار لابن عابدين 192/1، بدائع الصنائع 63/1]
۵؎ [المحموع للنووي 567/2، الروض النضير 244/1]
۶؎ [المنتقى للباجي 73/1، السيل الحرار 37/1]
۷؎ [المغني 52/1، كشاف القناع 208/1، المجموع 188/1، بداية المجتهد 83/1، بدائع الصنائع 87/1، الدر المختار 303/1]
۸؎ [نيل الأوطار 76/1، سبل السلام 28/1]
۹؎ [فتح الباري 371/1، تحفة الأحوذي 317/1]
* * * * * * * * * * * * * *

   فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 146   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 63  
´کتے کے جھوٹے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کتا تم میں سے کسی کے برتن سے پی لے، تو وہ اسے سات مرتبہ دھوئے ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 63]
63۔ اردو حاشیہ: حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر برتن میں کتا منہ ڈال دے تو برتن اور مشروب دونوں پلید ہو جائیں گے۔ مشروب کو گرا دیا جائے اور برتن سات دفعہ دھویا جائے۔ جب برتن پلید ہو گا تو مشروب بدرجۂ اولیٰ پلید ہو گا کیونکہ کتے کی زبان تو مشروب کو لگتی ہے۔ بہرحال حدیث میں بھی اس کی صراحت موجود ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فلیرقه» چاہیے کہ اسے انڈیل دے۔ [صحيح مسلم، الطهارة۔ حديث: 279]
نیز یہ حدیث آگے بھی آرہی ہے۔ احناف سات دفعہ کی بجائے تین دفعہ دھونا ضروری سمجھتے ہیں، مگر یہ صریح نص کے خلاف ہے۔ جس طرح شریعت نے بعض چیزوں کی طہارت میں تخفیف رکھی ہے، اسی طرح بعض چیزوں کی طہارت میں تشدید بھی رکھی ہے، اس لیے دونوں کو تسلیم کرنا یکساں ضروری ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 63   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 66  
´کتا برتن میں منہ ڈال دے تو اس میں موجود چیز کے بہانے کا حکم۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کتا تم میں سے کسی کے برتن میں منہ ڈال دے، تو وہ (جو کچھ اس برتن میں ہو) اسے بہا دے، پھر سات مرتبہ اسے دھوئے۔‏‏‏‏ ابوعبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ مجھے اس بات کا علم نہیں کہ کسی شخص نے علی بن مسہر کی ان کے قول «فليرقه» پر متابعت کی ہو۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 66]
66۔ اردو حاشیہ: گویا اس حدیث میں مشروب کو گرانے کے الفاظ کو امام نسائی رحمہ اللہ نے شاذ قرار دیا ہے، یعنی یہ الفاظ صرف ایک راوی ذکر کرتا ہے۔ اس کے باقی ساتھی ذکر نہیں کرتے جس سے شبہ پڑتا ہے کہ شاید اس راوی کو غلطی لگی ہے۔ راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ الفاظ شاذ نہیں ہیں کیونکہ کسی راوی کی زیادتی صرف اس وقت مردود ہوتی ہے جب وہ دوسروں کی مخالفت کر رہا ہو اور یہاں کوئی وجۂ مخالفت نہیں۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 66   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 336  
´کتے کے جھوٹے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کے برتن میں کتا منہ ڈال دے تو (جو اس میں ہے) اسے بہا دے، پھر اسے سات مرتبہ دھو ڈالے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المياه/حدیث: 336]
336۔ اردو حاشیہ: دیکھیے سنن نسائی حدیث: 63، 66 اور ان کے فوائد و مسائل، مزید تفصیل کے لیے اسی کتاب کا ابتدائیہ دیکھیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 336   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 340  
´کتا کے منہ ڈالنے سے برتن کو مٹی سے مانجھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کے برتن میں کتا منہ ڈال دے تو اسے سات مرتبہ دھوئے، ان میں سے پہلی مرتبہ مٹی سے (مانجھے)۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المياه/حدیث: 340]
340۔ اردو حاشیہ: فوائدومسائل۔۔۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 340   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 91  
´کتے کے جھوٹے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: برتن میں جب کتا منہ ڈال دے تو اسے سات بار دھویا جائے، پہلی بار یا آخری بار اسے مٹی سے دھویا جائے ۱؎، اور جب بلی منہ ڈالے تو اسے ایک بار دھویا جائے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 91]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ برتن میں کتا منہ ڈال دے تو اسے سات مرتبہ دھونا اور ایک بار مٹی سے دھونا واجب ہے یہی جمہور کا مسلک ہے،
احناف تین بار دھونے سے برتن کے پاک ہو نے کے قائل ہیں،
ان کی دلیل دارقطنی اور طحاوی میں منقول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا فتویٰ ہے کہ اگر کتا کسی برتن میں منہ ڈال دے تو اسے تین مرتبہ دھونا چاہئے،
حالانکہ ابوہریرہ سے سات بار دھونے کا بھی فتویٰ منقول ہے اور سند کے اعتبار سے یہ پہلے فتوے سے زیادہ صحیح ہے،
نیز یہ فتویٰ روایت کے موافق بھی ہے،
اس لیے یہ بات درست نہیں ہے کہ صحیح حدیث کے مقابلہ میں ان کے مرجوح فتوے اور رائے کو ترجیح دی جائے،
رہے وہ اعتراضات جو باب کی اس حدیث پر احناف کی طرف سے وارد کئے گئے ہیں تو ان سب کے تشفی بخش جوابات دیئے جا چکے ہیں،
تفصیل کے لیے دیکھئے (تحفۃ الاحوذی،
ج1ص93)

   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 91   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:997  
997- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: جب کتا کسی شخص کے برتن میں منہ ڈال دے تو آدمی اس برتن کو سات مرتبہ دھوئے۔‏‏‏‏ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:997]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کتے کا جوٹھا ناپاک ہے، نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ جس برتن میں کتا منہ مار جائے تو اس کو سات دفعہ پانی سے دھونا چاہیے، اور پہلی بار یا آٹھویں بار مٹی سے دھونا چاہیے، آٹھویں بار کا ذکر صحيح مسلم میں آتا ہے۔ بعض لوگ تین دفعہ دھونے کے قائل ہیں، ان کی یہ بات حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 996   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 648  
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کتا تم میں سے کسی کے برتن میں منہ ڈال کر پی لے تو اس چیز کو بہا دو، پھر برتن کو سات دفعہ دھو لو۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:648]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
وَلَغَ الْكَلْبُ فِي الإِنَاءِ:
کتے کا برتن میں منہ ڈال کر چپڑچپڑ کر کے پانی پینا۔
(2)
فَلْيُرِقْهُ:
اس کو بہا دے،
اس کو گرادے۔
أهْرَاقَ الماء:
پانی گرادیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 648   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:172  
172. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کتا تم میں سے کسی کے برتن میں سے پی لے، تو چاہئے کہ اس کو سات مرتبہ دھوئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:172]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان سابق میں انسانی بالوں کی طہارت کا مسئلہ بیان فرمایا تھا۔
اس میں حضرت عطاء کے اثر کے علاوہ دومرفوع روایات بھی پیش فرمائیں۔
احناف بھی اس کے قائل ہیں لیکن وہ ان کے استعمال کو انسانی کرامت کے منافی قراردیتے ہیں۔
وہاں دوسرا مسئلہ کتے کے پس خوردہ کا ذکر کیا۔
اس کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سابق عنوان میں امام زہری رحمۃ اللہ علیہ اور سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال پیش کیے لیکن سؤر کلب (کتے کے جھوٹے)
کی اہمیت کے پیش نظر باب درباب کے طور پر یہاں الگ عنوان بندی کی ہے، اس بنا پر مذکورہ عنوان مستقل عنوان نہیں۔
اس مسئلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان کیا ہے؟ اس کے متعلق شراح کی مختلف آراء ہیں، شارح بخاری ابن بطال نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتے اور اس کے پس خوردہ کے متعلق چار احادیث ذکر کی ہیں اور ان احادیث سے ان کی غرض یہ ہے کہ کلب اور سؤر کلب کی طہارت کوثابت کیا جائے۔
(شرح ابن بطال: 266/1)
شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے تصرف سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سؤر کلب کی طہارت کے قائل ہیں۔
(فتح الباري: 357/1)
لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت نظر اور باریک بینی کے پیش نظر یہ بات بہت بعید معلوم ہوتی ہے کہ وہ سؤر کلب کی طہارت کے قائل ہیں کیونکہ اس کی نجاست قطعیات سے ثابت ہے زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حسب عادت طرفین کی احادیث ذکر کردی ہیں تاکہ قارئین خود فیصلہ کرلیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اس سلسلے میں بیان مذاہب ہے۔
اگر وہ اپنا مختار مسلک بتانا چاہتے تو لفظ سؤر الکلب کے بجائے طھارة سؤر الکلب کہتے۔
ہمارے نزدیک امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سؤر الکلب کے سلسلے میں جمہور اہل علم کے ہم نوا ہیں اور اس مقام پر سؤر الکلب کے متعلق نجاست وطہارت کے دلائل پیش کردینا مقصود ہے، چنانچہ اس عنوان کے بعد پہلی حدیث سے اس کی نجاست کا ثبوت پیش نظر ہے اور آگے پیاسے کتے کو پانی پلانے کی حدیث کو طہارت کے استدلال میں پیش کیا ہے۔
امام ابن بطال اور حافظ ابن حجر کی جلالت ِ قدر کے باوجود ہمیں ان کی آراء سے اتفاق نہیں۔
شارح بخاری علامہ عینی لکھتے ہیں کہ عنوان کی پہلی حدیث(جس میں دھونے کا ذکر ہے)
سے نجاست کلب کا ثبوت ملتا ہے کیونکہ طہارت (دھونے)
کا حکم ہے اور دھونے کا حکم وقوع حدیث یا آلودہ نجاست کی وجہ سے ہوتا ہے۔
اس مقام پر حدث نہیں ہے۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ دھونے کا حکم نجاست کی وجہ سے ہے۔
جن حضرات کا خیال ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سؤر کلب کو تو ظاہر ہی کہتے ہیں اور سات باردھونے کو امر تعبدی پر محمول کرتے ہیں، ان کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کیونکہ ظاہر حدیث سے امر تعبدی سمجھنا نہایت بعید ہے۔
پھر صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
(طهور إناء أحدكم)
اور دوسری روایت میں ہے:
(طهور إناء أحدكم إذا ولغ فيه الكلب أن يغسله)
ہیں۔
ان الفاظ کے پیش نظر اگر کتے کا پس خوردہ پاک ہوتا تو اس کے لیے طہور(پاک کرنے)
کا لفظ نہ ہوتا اور نہ دوسری روایت کے مطابق اس پانی کو بہا دینے ہی کا حکم ہوتا۔
(عمدۃ القاري: 486/2)
ہمارے نزدیک علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے وزنی ہے جس کی وجوہات حسب ذیل ہیں:
(الف)
۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ عنوان میں کوئی ایسا لفظ نہیں لائے جس سے طہات سؤر کلب کو کشید کیا جاسکے۔
جب عنوان میں اس قسم کی صراحت نہیں تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی طرف اسے منسوب کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔
(ب)
۔
امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کا اثر بھی سؤر الکلب کی طہارت پر دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ مصنف عبدالرزاق میں ان سے ایک روایت ہے جس میں کتے کے جھوٹے برتن کو تین بار دھونے کا ذکر ہے۔
(المصنف لعبد الرزاق 97/1)
یہ مسئلہ تو اس نمازی کی طرح ہے جس کے پاس نجس کپڑے ہوں تو ننگا نماز پڑھنے کے بجائے انہی کپڑوں میں نماز پڑھ لے، جس طرح ان کپڑوں میں نماز پڑھنا ان کے پاک ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتا، اسی طرح بوقت ضرورت نجس پانی سے وضو کرنا اور اس سے نماز ادا کرنا اس کی طہارت کی دلیل کیسے بن سکتا ہے؟ سفیان ثوری کا اثر بھی سور کلب کے پاک ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ اس کی نظیر یہ ہے کہ بعض ائمہ رحمۃ اللہ علیہ کرام نبیذ کی موجودگی میں وضو اور تیمم دونوں کے قائل ہیں۔
پھر ان کا تردد بھی طہارت کے خلاف موقف کو مضبوط کرتا ہے۔
باقی احادیث کے متعلق اپنی گزارشات ان کے فوائد میں بیان کریں گے۔

یہ حدیث سؤر كلب كے نہ صرف نجس ہونے بلکہ اغلظ النجا سات ہونے پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اس برتن کوسات دفعہ دھونے کا حکم دیا گیا ہے۔
بعض روایات کے الفاظ یہ ہیں:
جب کسی برتن میں کتا منہ ڈال دے تو اس کی پاکیزگی اس طرح ہوگی کہ اسے سات مرتبہ دھویا جائے۔
(صحیح مسلم،الطھارة، حدیث: 651(279)
بعض روایات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جو کچھ برتن میں ہواسے پھینک دیا جائے، پھر اسے سات مرتبہ دھویا جائے۔
(صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 648(279)
پھر سات د فعہ دھونے کا حکم امرتعبدی نہیں جس کی کوئی ظاہری وجہ معلوم نہیں ہوئی بلکہ طب جدید نے اس کامعقول المعنی ہونا ثابت کردیا ہے، چنانچہ دور حاضر کے اطباء کی تحقیق ہے کہ کتے کے لعاب میں ایسے زہریلے جراثیم ہوتے ہیں جو پانی میں تحلیل ہوکر برتن سے چمٹ جاتے ہیں، انھیں صرف مٹی سے ختم کیا جا سکتا ہے، پھر ان کے زہریلے اثرات ایک دو بار دھونے سے نہیں بلکہ سات بار دھونے سے ختم ہوتے ہیں۔
جس حقیقت تک آج طب جدید کی رسائی ہوئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج سے چودہ سوسال قبل مطلع فرماچکے ہیں۔

ہمارے ہاں کتب فقہ میں درایت یا شدت احتیاط کے نام سے چند ایسے اصول ملتے ہیں جن سے صحیح احادیث کو بڑی آسانی کے ساتھ رد کیا جا سکتا ہے۔
ان میں سے ایک یہ ہے کہ کسی حدیث کو اس وقت قبول نہ کیا جائے جب اس کے راوی کاعمل اس کے خلاف ہو۔
اس اصول کے پیش نظر مذکورہ حدیث کو رد کیا گیا ہے۔
کیونکہ ان حضرات کے کہنے کے مطابق اس روایت کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے خلاف فتویٰ دیا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ حدیث مذکور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک منسوخ ہے۔
اولاً ہم اس اصول کوتسلیم نہیں کرتے کہ راوی حدیث کسی صحابی کافتویٰ یا عمل مروی حدیث کےخلاف ہوتو لازمی طور پر اسے کسی ذریعے سے اس کا نسخ معلوم ہوا ہو گا کیونکہ اس کے بغیر بھی حدیث پر عمل نہ کرنے کی وجوہات ہوسکتی ہیں۔
مثلاً:
حضرت مرثد بن عبداللہ یزنی، حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ابوتمیم نماز مغرب سے پہلے دورکعت پڑھتا ہے، کیا آپ کے لیے یہ بات باعث تعجب نہیں؟حضرت عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں یہ پڑھا کرتے تھے۔
میں نے عرض کیا:
اب کیوں نہیں پڑھتے؟ فرمایا:
مصروفیات کی وجہ سے نہیں پڑھ سکتا۔
(صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1184)
دیکھا آپ نے کہ اس مقام پر حدیث کے مطابق عمل نہ کرنے کی وجہ اس کا نسخ نہیں بلکہ ان کی ذاتی مصروفیات ہیں۔
ثانیاً حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس حدیث کے موافق فتویٰ بھی مروی ہے اور جس راوی نے ایسے فتوے کو نقل کیا جو ان کی روایت کے مطابق ہے اس سے ر اجح ہے جس نے ان فتوے کو روایت کے مخالف نقل کیا ہے۔
یہ بات نظری لحاظ سے توظاہری ہے، اسنادی لحاظ سے اس لیے معقول ہے کہ موافقت کی روایت حضرت حماد بن زید سے ہے، سند کے اعتبار سے اس پر کوئی غبار نہیں اور مخالفت والی روایت عبدالملک بن سلیمان نے بیان کی ہے جو پہلی روایت کے اعتبار سے قوت میں بہت کم ہے۔
(فتح الباري: 363/1)

اس روایت میں برتن کو سات مرتبہ دھونے کا ذکر ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ پہلی دفعہ اس برتن کو مٹی سے صاف کرے۔
(صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 651(279)
نیز حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب کتا برتن میں منہ ڈال دے تو تم اسے سات مرتبہ دھوواور آٹھویں مرتبہ اسے مٹی سے صاف کرو۔
(صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 653(280)
ان روایات کے پیش نظر پہلی دفعہ مٹی سے صاف کیا جائے، پھر سات مرتبہ اسے پانی سے صاف کیا جائے کیونکہ اگرآخری مرتبہ اسے مٹی سے صاف کریں گے تو مٹی دور کرنے کے لیے پھرپانی استعمال کرنا پڑے گا اس طرح اسے دھونے کی تعداد نو ہوجائے گی جس کی حدیث میں گنجائش نہیں ہے، لہذا پہلی دفعہ مٹی سے پھر سات مرتبہ اسے پانی سے دھویا جائے۔
احناف نے اس حدیث کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس طرح کے برتن کوتین دفعہ دھونا ضروری قراردیا ہے۔
(فتح الباري: 363/1)

طہارت ونجاست کے مسائل میں بعض فقہاء افراط وتفریط کا شکار ہیں۔
احناف کے متعلق آپ نے ملاحظہ کیا کہ انھوں نے شارع علیہ السلام کے الفاظ سے آزاد ہو کر اس مسئلے کو فقہی موشگافیوں کی نذر کرکے الجھا دیا۔
دوسری طرف ظاہری حضرات ہیں ان کی حرفیت پسندی ملاحظہ فرمائیں:
ابن حزم لکھتے ہیں کہ اگر کتا برتن میں منہ ڈال کر پانی پی لے تو برتن کا پاک کرنا اورپانی کا بہا دینا ضروری ہے، اس کے برعکس اگر کتا پینے کی بجائے کوئی چیزکھا لے یا اس میں منہ ڈالنے کے بجائے اپنا پاؤں یا دم ڈال دے یا خود گر پڑے، اسی طرح برتن کی بجائے اگر زمین کے کسی گڑھے میں منہ ڈال دے یا انسان کے ہاتھوں میں پانی پی لیے تو ان تمام صورتوں میں نہ تو پانی بہانے کی ضرورت ہے اور نہ برتن ہی کا دھونا ضروری ہے۔
(محلی ابن حزم: 109/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 172