Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الطهارة وسننها
کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل
22. بَابُ : التَّبَاعُدِ لِلْبَرَازِ فِي الْفَضَاءِ
باب: قضائے حاجت کے لیے میدان میں دور جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 331
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْن عُلَيَّةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَهَبَ الْمَذْهَبَ أَبْعَدَ".
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت کے لیے تشریف لے جاتے تو دور جاتے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 1 (1)، سنن الترمذی/الطہارة 16 (20)، سنن النسائی/الطہارة 16 (17)، (تحفة الأشراف: 11540)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/244)، سنن الدارمی/الطہارة 4 (686) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: مقصود اس سے پردہ ہے، جہاں سے اور جیسے بھی حاصل ہو جائے کافی ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 331 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث331  
اردو حاشہ:
پردے کے اعضاء کو دوسروں کی نظروں سے چھپانا ہر حال میں فرض ہے، پیشاب وغیرہ کی حاجت کے وقت انسان کو اپنا جسم کھولنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔
اس مقصد کے لیے بیت الخلاء میں جانا چاہیے تاکہ دوسروں سے پردہ قائم رہے۔
اگر میدان میں یہ ضرورت پیش آئے تو دوسروں سے اس قدر دور چلے جانا چاہیے کہ کسی کو نظر نہ پڑے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ کسی چیز کی اوٹ میں فراغت حاصل کرلی جائے مثلاً کسی دیوار یا درخت کے پیچھے چلا جائےبشرطیکہ وہاں ممانعت کی کوئی دوسری وجہ نہ ہو یعنی وہ درخت عام لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ کے طور پر استعمال نہ ہوتا ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 331   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1  
´قضائے حاجت کے لیے تنہائی کی جگہ جانا`
«. . .عن المغيرة بن شعبة،" ان النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا ذهب المذهب ابعد . . .»
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت (یعنی پیشاب اور پاخانہ) کے لیے جاتے تو دور تشریف لے جاتے تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/باب التَّخَلِّي عِنْدَ قَضَاءِ الْحَاجَةِ: 1]
فوائد و مسائل
➊ دیہات میں یعنی کھلے علاقے میں قضائے حاجت کے لیے آبادی سے دور جانا ضروری ہے تاکہ کسی شخص کی نظر نہ پڑے۔ شہروں میں چونکہ باپردہ بیت الخلاء بنے ہوتے ہیں، اس لیے وہاں دور جانے کی ضرورت نہیں۔
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک انسانی اور اسلامی فطرت کا آئینہ دار ہے جس میں شرمگاہ کو انسانی نظر سے محفوظ رکھنے کے علاوہ ماحول کی صفائی ستھرائی کے اہتمام کا بھی درس ملتا ہے اور مزید یہ کہ آبادی کے ماحول کو کسی طرح بھی آلودہ نہیں ہونا چاہیے۔
➌ نیز آپ حیا و وقار کا عظیم پیکر تھے۔
➍ ان احادیث میں اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کی بالغ نظری بھی ملاحظہ ہو کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نشست و برخاست تک کے ایک ایک پہلو کو کس دقت نظر اور شرعی حیثیت سے ملاحظہ کیا، اسے اپنے اذہان میں محفوظ رکھا اور امت تک پہنچایا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 20  
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قضائے حاجت کے لیے دور تشریف لے جانے کا بیان​۔`
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، آپ قضائے حاجت کے لیے نکلے تو بہت دور نکل گئے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 20]
اردو حاشہ:
1؎:
ایسا صرف لوگوں کی نظروں سے دور ہو جانے کے لیے کرتے تھے،
اب یہ مقصد تعمیر شدہ بیت الخلاء سے حاصل ہو جاتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 20