سنن ابن ماجه
كتاب الطهارة وسننها
کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل
16. بَابُ : الاِسْتِنْجَاءِ بِالْحِجَارَةِ وَالنَّهْيِ عَنِ الرَّوْثِ وَالرِّمَّةِ
باب: پتھر سے استنجاء کے جواز اور گوبر اور ہڈی سے ممانعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 315
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ . ح وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، جَمِيعًا، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِي خُزَيْمَةَ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ ، عَنْ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فِي الِاسْتِنْجَاءِ ثَلَاثَةُ أَحْجَارٍ لَيْسَ فِيهَا رَجِيعٌ".
خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”استنجاء کے لیے تین پتھر ہوں جن میں گوبر نہ ہو“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 21 (41)، (تحفة الأشراف: 3529)، مسند احمد (5/213، 214)، سنن الدارمی/الطہارة 11 (698) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (41)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 387
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 315 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث315
اردو حاشہ:
(رَجِيع)
كا لفظ گوبر لید اور انسانی فضلہ سب کے لیے بولا جاتا ہے یہاں اس کا ترجمہ گوبر اور لید اس لیے کیا گیا ہے کہ دوسری احادیث میں (روث)
کا لفظ ہے جو گدھے گھوڑے وغیرہ کی لید کے لیے بولا جاتا ہے۔
جب لید اور گوبر سے استنجا منع ہے تو انسانی فضلہ کا استعمال بدرجہ اولی منع ہوگا اس سے ماقبل کی روایت سے بھی جو صحیح ہے گوبر اور لید کے عدم استعمال کا اثبات ہوتا ہے اس لیے معناً یہ روایت بھی صحیح ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 315
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 41
´پتھر سے استنجاء کرنے کا بیان`
«. . . فَقَالَ:" بِثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ لَيْسَ فِيهَا رَجِيعٌ . . .»
”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”استنجاء تین پتھروں سے کرو جن میں گوبر نہ ہو . . .“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 41]
فوائد و مسائل:
یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ تاہم صحیح حدیث میں گوبر اور ہڈی سے استنجا کی ممانعت ثابت ہے۔ [صحيح مسلم، حديث: 262]
غالباً اسی لیے شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 41