سنن ابن ماجه
كتاب الطهارة وسننها
کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل
7. بَابُ : السِّوَاكِ
باب: مسواک کا بیان۔
حدیث نمبر: 291
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ كَنِيزٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ سَاجٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، قَالَ:" إِنَّ أَفْوَاهَكُمْ طُرُقٌ لِلْقُرْآنِ، فَطَيِّبُوهَا بِالسِّوَاكِ".
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تمہارے منہ قرآن کے راستے ہیں (تم اپنے منہ سے قرآن کی تلاوت کرتے ہو) لہٰذا اسے مسواک کے ذریعہ پاک رکھا کرو۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ما جہ، (تحفة الأشراف: 10106، ومصباح الزجاجة: 120) (صحیح)» (سند میں بحر بن کنیز ضعیف ہیں، اور سعید بن جبیر اور علی رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، لیکن دوسرے طرق سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1213)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
بحربن كنيز السقاء: ضعيف (تقريب: 637)
وللحديث شاهد ضعيف (انظر التلخيص الحبير 70/1 ح 69)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 386
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 291 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث291
اردو حاشہ:
(1)
یہ حدیث موقوف ہے یعنی صحابی کا قول ہے نبی اکرم ﷺ کا ارشاد نہیں، تاہم مسواک کی فضیلت واہمیت مرفوع احادیث سے ثابت ہے۔
(2)
تمھارے منہ قرآن کے راستے ہیں کا مطلب ایک دوسری روایت کی رو سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان قرآن پڑھتا ہے تو فرشتہ اس کے پیچھے آکر کھڑا ہوجاتا ہے حتی کہ قرآن سنتے سنتے اتنا قریب ہوجاتا ہےکہ فرشتہ اپنا منہ پڑھنے والے کے منہ پر رکھ دیتا ہے پھر پڑھنے والا جو آیت بھی پڑھتا ہے تو وہ فرشتے کے اندر چلی جاتی ہے، اس لیے فرمایا کہ قرآن پڑھتے وقت منہ کو صاف رکھو۔
(الصحیحة حديث: 1213)
اسی روایت کی بنیاد پر شیخ البانی نے اس کی تصحیح بھی کی ہے، بہرحال قرآن مجید کے احترام کا تقاضہ یہ ہے کہ منہ کو پاک صاف رکھاجائے۔
(3)
منہ کو پاک صاف رکھنے کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ بدبودار اشیاء سے پرہیز کیا جائے۔
رسول اللہ ﷺ پیاز وغیرہ سے پرہیز فرماتے تھے حالانکہ وہ حرام نہیں، اس لیے منشیات سےبدرجہ اولٰی پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ وہ حرام بھی ہیں اور بدبودار بھی۔
سگریٹ اور تمباکو وغیرہ بھی سخت بدبودار اشیاء ہیں اور ان میں کوئی فائدہ بھی نہیں جب کہ نقصانات بےشمار ہیں، اس لیے ان کا استعمال بےجا مال ضائع کرنے کے تحت آتا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے:
﴿وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًاO إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا﴾ (بني اسرائيل: 27، 26: 17)
”اور بےجا خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔“
اسی طرح گالی گلوچ فحش کلامی جھوٹ فریب اور اس طرح کے دوسرے اعمال سے بھی منہ کو پاک رکھنا ضروری ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 291