سنن ابن ماجه
كتاب الطهارة وسننها
کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل
7. بَابُ : السِّوَاكِ
باب: مسواک کا بیان۔
حدیث نمبر: 287
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ میں اپنی امت کو مشقت میں ڈال دوں گا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الطہارة 7 (7) (تحفة الأشراف: 12989)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجمعة 8 (887)، التمني 9 (7240)، صحیح مسلم/الطہارة 15 (252)، سنن ابی داود/الطہارة 25 (46)، سنن الترمذی/الطہارة 18 (22)، موطا امام مالک/الطہارة 32 (114)، مسند احمد (2/245، 250)، سنن الدارمی/الطہارة 18 (710)، الصلاة 168 (1525) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی مسواک کو واجب کر دیتا، لیکن ہر نماز کے وقت مسواک کا مسنون ہونا ثابت ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امت پر کس درجہ مشفق اور مہربان تھے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 287 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث287
اردو حاشہ:
(1)
مشقت میں ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلي صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خطرہ محسوس کیا کہ اس پر عمل کرنا امت کے لیے دشوار ہوگا کیونکہ ایسے مواقع پیش آسکتے ہیں جب مسواک موجود نہ ہو یا آسانی سے دستیاب نہ ہوتو لوگوں کے لیے مشکل بن جائے گی۔
(2)
حکم دینے کا مطلب ہے کہ ضروری قرار دے دینا کیونکہ استحبابی حکم تو اب بھی موجود ہے لیکن واجب نہیں کہ اس کے بغیر وضو ہی نہ ہو۔
(3)
رسول اللہﷺ امت کے حق میں انتہائی شفیق تھے۔
اس لیے آپ نے حسب امکان مشکل احکام نہیں دیے۔
آپﷺ اللہ تعالی سے بھی یہی دعائیں کرتے رہے کہ مشکل احکام میں نرمی کی جائے جیسا کہ معراج کی رات اللہ تعالی کی بارگاہ میں باربار درخواست فرما کر پچاس نمازوں کے حکم میں تخفیف کروائی۔
(4)
شریعت محمدیہ کی یہ خوبی ہے کہ اس میں آسانیاں بہم پہنچائی گئی ہیں جیسا کہ ارشاد نبوی ہے:
(إِنِّي اُرْسِلْتُ بِحَنِيْفِيَّةٍ سَمْحَةٍ) (مسند احمد: 116/2)
”بلاشبہ مجھے آسان حنفی دین دے کر بھیجا گیا ہے“ تاہم آسانی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی حکم ایسا نہیں جو نفس پر شاق ہو، کیونکہ نفس امارہ تو ہر نیکی سے بدکتا اور ہر گناہ کی طرف بھاگتا ہے۔
بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ شریعت کے جس حکم پر عمل نہیں کرنا چاہتے اس کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ مجبوری ہے اور دین میں تنگی نہیں۔
یہ طرز عمل درست نہیں اپنے نفس کی پیروی ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
﴿أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا جَزَاءُ مَن يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ ۗ﴾ (البقرة: 85/2)
”كيا تم کچھ کتاب پر ایمان لاتے ہو اور کچھ کا انکار کردیتے ہو؟ تم میں سے جو کوئی ایسا کام کرے اس کا بدلہ دنیا کی زندگی میں رسوائی ہے اورآخرت میں انہیں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیا جائے گا“ (5)
”ہر نماز کے وقت“ ان الفاظ سے معلوم ہوا کہ اگر وضو سے پہلے مسواک نہیں کی گئی لیکن نماز شروع کرتے وقت مسواک کرلی ہے تو پھر بھی درست ہے۔
(6)
اس روایت سے ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا استحباب معلوم ہوتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 287
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 887
´جمعہ کے دن مسواک کی فضیلت`
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي أَوْ عَلَى النَّاسِ لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ مَعَ كُلِّ صَلَاةٍ . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مجھے اپنی امت یا لوگوں کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے لیے ان کو مسواک کا حکم دے دیتا . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجُمُعَةِ: 887]
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
باب سے ظاہر ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ جمعہ کے دن مسواک کرنے کی فضیلت کو اجاگر فرما رہے ہیں۔
جس حدیث میں یہ ذکر ہے کہ اگر امت پر شاق نہ ہوتا تو ہر نماز کے لئے مسواک کا حکم کرتا، تو اس حدیث اور باب میں مناسبت یہ ہے کہ جب تمام نمازوں کے لئے مسواک واجب کر دی جاتی تو یقیناً نماز جمعہ میں بھی بالاولیٰ واجب ہو جاتی کیونکہ جمعہ کی نماز میں پانچوں نمازوں سے زیادہ لوگ ہوتے ہیں اور بڑا اجتماع ہوا کرتا ہے۔
دوسری حدیث جو انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تم سے مسواک کرنے کی خوبی بارہا کہی۔
اس میں مناسبت یہ ہے کہ مسواک میں غفلت اور سستی نہ کرو مسواک کی عادت ڈالو لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک کی خوبی بار بار واضح فرمائی اور یہ بھی واضح کر دیا کہ ہمیشہ مسواک کو استعمال کرنا مشکل ہے، لہٰذا ایک دن مسواک کا متعین کرنا مشکل نہیں باقی دنوں میں بہتر دن جمعہ کا ہے اور جمعہ کو روز خوشبو لگانا صاف ستھرے کپڑے پہننا مشروع ہے اور اسی دن مسواک کا بھی استعمال بہترین عمل میں داخل ہے۔
◈ ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اس حدیث سے استدلال اور مطابقت (ترجمۃ الباب کی) یہ ہے کہ جب مسواک کرنا پنج وقتہ نمازوں میں ثابت ہوا تو جمعہ کے روز جس میں غسل وغیرہ ہے تو مسواک کرنا بالاولیٰ ثابت ہو گا۔“ [التوضيح، ج8، ص421]
تنبیہ:
مذکورہ بالا حدیث کے پیش نظر ابن حزم رحمہ اللہ اس کے وجوب کی طرف گئے ہیں کہ مسواک کرنا جمعہ کے روز فرض ہے، اور محدث اسحاق بن راھویہ رحمہ اللہ کی طرف بھی ایک قول منقول ہے کہ:
«هو واجب لكل صلاة فمن تركه عامداً بطلت صلاته»
مسواک کرنا واجب ہے ہر نماز کے لیے پس جس نے جان کر اسے چھوڑ دیا تو اس کی نماز باطل ہو گی۔ [فتح الباري، ج8، ص123]
◈ لیکن ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس قول کی نسبت ابن راھویہ کی طرف درست نہیں ہے۔ [فتح الباري، ج8، ص123]
لہٰذا ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت اس طرح سے ہوئی کہ عام نمازوں میں مسواک کرنا مشروع ہے تو جمعہ کے روز بھی بالاولیٰ مشروع ہو گا۔ کیونکہ اس دن نظافت، غسل اور عطر کے استعمال کی خاص ترغیب موجود ہے۔
تیسری حدیث جو سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کے وقت تہجد میں مسواک کرنا ثابت ہوتا ہے تو اس میں تطبیق یہ ہے کہ رات کی نماز تنہا نماز ہے اور جمعہ کی نماز میں خوشبو کا استعمال کا حکم ہے تو لہٰذا اس نماز میں بطریق اولی مسواک کرنے کا بھی حکم شامل ہو گیا لہٰذا مطابقت اس حدیث سے باب کی ظاہر ہو گئی۔ اس حدیث پر مزید بحث إن شاء اللہ باب «طول القيام فى صلاة الليل» میں آئے گی۔
فائدہ نمبر ➊
امام ابن دقیق العید رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«الحكمة فى استحباب السواك عند القيام إلى الصلاة كونها حالاً تقرب إلى الله» [فتح الباري ج2 ص478]
”مسواک کرنے کی حکمت نماز میں اس لیے ہے کہ اس حال میں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔“
◈ ابن دقیق العید مزید فرماتے ہیں کہ:
”مسواک کرنے میں بہت زیادہ ستھرائی اور عبادت کا شرف کا اظہار ہوتا ہے۔“
ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث سے کئی ایک اہم ترین مسائل کی تخریج فرمائی ہے۔ آپ نے مذکورہ حدیث پر فقھی تبصرہ کرتے ہوئے 32 مسائل کو اجاگر فرمایا ہے۔ دیکھئے: [شرح الالمام، ج3، ص53 تا 91]
فائدہ نمبر ➋
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک تعلیمات انسان کو صحیح معنوں میں انسان بنا دیتی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کو ہر وقت منہ صاف رکھنے کی تلقین فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو ہر نماز کے لیے مسواک کرنے کا حکم دیا ہے۔ برش سے دانتوں کی اچھی طرح صفائی ممکن نہیں اگر ہو بھی جائے لیکن اس کے بعد دانتوں پر میل (PLAQUE) کی تہہ چڑھ جاتی ہے۔ مسواک ایک ایسی چیز ہے جو دانتوں کے جملہ امراض کے لیے بے حد مفید ہے۔
پاکستان میں 1985ء میں دانت صاف کرنے کے لیے استعمال کی جانے والی مختلف پودوں کی شاخوں پر جدید طبّی تحقیقات کی گئیں۔ ان تحقیقات سے مسواک پیلو کے ضمن میں نہایت حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے اس مقصد کے لیے استعمال کی جانے والی شاخوں کا خروحیاتی طور پر جراثیم کے خلاف تقابلی جائزہ لیا گیا ان نباتات کے نام حسب ذیل ہیں۔
① نیم (MELIA AZADIRACHTA LINN)
② کیکر (ACACIA ARABICA WILLD)
③ پھلاہی (ACACIA MODESTA WILLD)
④ مسواک / پیلو (SELVADORA PERSICA LINN)
⑤ کرنج (PONGAMIA GLABRA VENT)
ان تحقیقات میں بتایا گیا ہے کہ بیشتر افریقی ممالک، جنوبی ایشیا، امریکہ کے گرم علاقے اور شمالی علاقوں میں درج بالا نباتات کی شاخیں اور جڑیں دانتوں اور منہ کی صفائی کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
مسواک یا پیلو کو مجموعی طور پر لعاب دہن سے حاصل کئے گے بیکٹریا کے خلاف موثر پایا گیا اور اس کے مانع جراثیم ((ANTI MICROBIAL) جراثیم کش (GERMICDAL) اور مانع فخج (FUNGICIDAL) اثرات کا میعار بقایہ تمام نبات سے بہتر پایا گیا۔ (MEDICAL AND GENERAL PHYSIOLOGY)
◈ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”یعنی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے اگر میں اپنی امت پر دشوار نہ جانتا تو ان کو ہر نماز کے لیے مسواک کرنے کا حکم دیتا اس کے متعلق میں کہتا ہوں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر تنگی کا ڈر نہ ہوتا تو مسواک کرنے کو وضو کی طرح نماز کی صحت کے لئے شرط قرار دیتا اور اس طرح کی بہت سی احادیث وارد ہیں جو اس امر پر صاف دلالت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد کو حدود شرعیہ میں دخل ہے۔ ① اور حدود شرعیہ مقاصد پر مبنی ہیں اور امت سے تنگی کا رفع کرنا من جملہ ان اصول کے ہے جن پر احکام شرعیہ مبنی ہیں۔۔۔ انسان کو مناسب ہے کہ اچھی طرح سے منہ کے اندر مسواک کرے اور حلق اور سینہ کا بلغم نکالے اور منہ میں خوب اندر تک مسواک کرنے سے مرض قلاع دور ہو جاتا ہے اور آواز صاف ہو جاتی ہے۔“ [حجة الله البالغة ج1 ص183]
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 204
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 53
´مسواک کی اہمیت`
«. . . 321- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”لولا أن أشق على الناس أو على المؤمنين لأمرتهم بالسواك“ . . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر مجھے لوگوں یا مومنوں کی مشقت کا خوف نہ ہوتا تو میں انہیں ضرور مسواک (کرنے) کا حکم دیتا۔“ . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 53]
تحقیق
صحيح: [ابن شهاب الزهري عنعن و لحديثه شاهد صحيح عند اَحمد 2/ 250، وبه صح الحديث]
تخریج:
[الموطارواية يحييٰ 1 /66 ح143، ك2 ب32 ح115]، [التمهيد7 /194، الاستذكار: 122]، [٭ واخرجه النسأئي فى الكبري 2/ 198 ح3405، من حديث عبدالرحمن بن القاسم عن مالك قال: حدثني ابن شهاب به وللمرفوع شاهد عند أحمد 2/ 250ح7406، وسنده صحيح، وانظر صحيح البخاري 887، و صحيح مسلم 252، والحديث الآتي: 321]
تفقہ:
➊ مسواک واجب نہیں ہے بلکہ سنت ہے اور فطرت (دین اسلام) میں سے ہے۔ [ديكهئے صحيح مسلم: 261]
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل واجب (فرض) ہے الا یہ کہ کوئی صحیح دلیل اور قرینۂ صارفہ اسے وجوب سے استحباب وغیرہ کی طرف پھیر دے۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر بےحد مہربان تھے۔ آپ ہر وقت اپنے امتیوں کا خاص خیال رکھتے تھے۔ اللہ تعالی نے آپ کو رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجا تھا۔ نیز دیکھئے [سورة التوبه 128]
➍ مسواک منہ کو پاک کرنے والی اور رب کی رضامندی ہے۔ [سنن النسائي 1/ 10 ح5 وسنده حسن و هو حديث صحيح]
➎ مسواک کو استعمال کر نے سے پہلے دھونا چاہئے۔ [ديكهئے سنن ابي داود: 52 و سنده حسن لذاته و حسنه النودي فى المجموع 1/ 283]
➏ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کی مسواک پانی میں بھیگی رہتی تھیں۔ [ابن ابي شيبه 1/ 170ح 1801 و سنده حسن]
➐ ابن عمر رضی اللہ عنہ روزے کی حالت میں مسواک کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے۔ [ابن ابي شيبه 3/ 35 ح 9149 و سنده صحيح] آپ فرماتے: روزے دار کے لیے خشک اور تر (دونوں طرح کی) مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ [ابن ابي شيبه 3/ 37 ح 9173، سنده صحيح]
بعض علماء تر مسواک کو مکروہ سمجھتے تھے لیکن راجح یہی ہے کہ تر مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
➑ امام شعبی (تابعی) نے کہا: مسواک منہ کی صفائی اور آنکھوں کی جلاء (روشنی) ہے۔ [ابن ابي شيبه 1/ 170ح1796، و سنده صحيح]
➒ ”ہر نماز سے پہلے اور ہر وضو سے پہلے مسواک کا حکم“ میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ ہر نماز سے پہلے سے بھی یہی مراد لیا جائے گا کہ وضو سے پہلے مسواک کی جائے۔ اگر ہر نماز سے پہلے مسواک کر لی جائے تو بھی جائز ہے۔ «والله اعلم»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 321
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 887
´ جمعہ کے دن مسواک کرنا `
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي أَوْ عَلَى النَّاسِ لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ مَعَ كُلِّ صَلَاةٍ . . .»
”. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مجھے اپنی امت یا لوگوں کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے لیے ان کو مسواک کا حکم دے دیتا۔ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجُمُعَةِ/بَابُ السِّوَاكِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ: 887]
تخريج الحديث:
[142۔ البخاري فى: 11 كتاب الجمعة: 8 باب السواك يوم الجمعة 887، مسلم 252، أبوداود 46، نسائي 533]
فھم الحدیث:
اس حدیث سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر شفقت و رحمت کا پتہ چلتا ہے کہ جس کام سے امت مشقت میں پڑ سکتی تھی آپ نے اس کا حکم ہی نہیں فرمایا۔ علاوہ ازیں یہ حدیث دلیل ہے کہ مسواک کرنا واجب نہیں۔ البتہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت متواترہ ضرور ہے جسے اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ فرمان نبوی کے مطابق مسواک منہ کی پاکیزگی اور رب کی رضامندی کا ذریعہ ہے۔ [صحيح: صحيح الترغيب 209، إرواء الغليل 66، أحمد 124/6، حميدي 162]
اور جس روایت میں ہے کہ مسواک کے ساتھ نماز عام نماز سے ستر گنا افضل ہے، اسے اہل علم نے ضعیف کہا: ہے۔ [ضعيف: أحمد 272/6، ابويعلي 4738]
➊ شیخ عبدالرزاق مہدی نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ [التعليق على شرح فتح القدير 23/1]
➋ شیخ شعیب أرنؤوط نے کہا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے، اس کی سند منقطع ہے کیونکہ محمد بن اسحاق نے یہ حدیث امام زہری رحمہ اللہ سے نہیں سنی۔ [مسند أحمد محقق 26340]
➌ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ امام ابن معین رحمہ اللہ نے فرمایا: اس روایت کی کوئی سند بھی صحیح نہیں اور یہ روایت باطل ہے۔ [تلخيص الحبير 68/1]
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 142
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 7
´روزہ دار کے لیے شام کے وقت مسواک کی رخصت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں اپنی امت کے لیے باعث مشقت نہ سمجھتا تو انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الطهارة/حدیث: 7]
7۔ اردو حاشیہ:
➊ مذکورہ حدیث سے ثابت ہوا کہ مسواک کرنا فرض ہے نہ جزو وضو، البتہ یہ عمل مؤکد اور مستحب ہے۔
➋ ”ہر نماز کے وقت“ کے عموم کے تحت پچھلے پہر کی نمازیں (ظہر و عصر) بھی آ جاتی ہیں، لہٰذا ہر نمازی مسواک کر سکتا ہے، روزے دار ہو یا غیر روزے دار، جب کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے روزے دار کے لیے پچھلے پہر مسواک کرنے کو اچھا نہیں سمجھا کہ اس سے خلوف (منہ کی وہ بو جو معدہ خالی ہونے کی وجہ سے روزے دار کے منہ سے نکلتی ہے) زائل ہونے کا خطرہ ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ مسواک سے میل کچیل اور بدبو دور ہوتی ہے (جواللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے) نہ کہ خلوف کیونکہ اس کا تعلق تو معدے سے ہے۔
➌ بعض اہل علم کا قول ہے کہ ہر نماز کے وقت سے مراد وضو کے وقت مسواک کرنا ہے نہ کہ عین نماز کے لیے کھڑے ہوتے وقت کیونکہ اس صورت میں کلی کیے بغیر منہ کی آلودگی ختم نہ ہو گی۔ لیکن مذکورہ بالا توجیہ ظاہر نص کے خلاف ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ جو شخص التزام سے مسواک کرتا ہے اس کا منہ آلودگی سے عموماً صاف ہی ہوتا ہے، لہٰذا اس مسئلے میں وارد احادیث کے الفاظ مختلف ہیں، بعض میں عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ اور بعض میں عِنْدَ کُلِّ وُضُوءٍ اور کچھ کے الفاظ ہیں مَعَ الْوُضُوءِ عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ اس لیے ان روایات کے ظاہر کے پیش نظر اکثر علماء کا یہی موقف ہے کہ عین نماز کے وقت بھی مسواک کرنا مستحب ہے۔ اس طریقے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول دونوں احادیث پر عمل ہو جاتا ہے جبکہ کراہت کا موقف ان کے ہاں بے دلیل ہے۔ واللہ أعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے [السلفية‘ 51/1، طبعة جديدة]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 7
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث690
´نماز عشاء کا وقت۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ میں اپنی امت کو مشقت میں ڈال دوں گا، تو میں انہیں عشاء کی نماز میں دیر کرنے کا حکم دیتا۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 690]
اردو حاشہ:
(1)
دوسری نمازوں کے برعکس عشاء کی نماز میں تاخیر افضل ہے لہٰذا اسے اوّل وقت نماز پڑھنے کی فضیلت اور اس کے حکم کی حدیثوں سے مستثنی سمجھنا چاہیے۔
(2)
تاخیر صرف اس حد تک کرنی چاہیے کہ عام نمازیوں کو تکلیف نہ ہو۔
(3)
عوام کی تکلیف کا لحاظ کرتے ہوئے افضل کام کو چھوڑ کر غیر افضل اختیار کرنا جائز ہے۔
(4)
رسول اللہﷺ عام طور پر عشاء کی نماز شفق غروب ہوتے ہی ادا نہیں کرتے تھے بلکہ تاخیر فرماتے تھے اور یہ تاخیر کم زیادہ ہوتی رہتی تھی۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
عشاء کی نماز میں اگر لوگ زیادہ ہوتے تو نبی ﷺ جلدی نماز پڑھ لیتے اگر کم ہوتے تو تاخیر فرمادیتے۔ (صحيح البخاري، مواقيت الصلاة، باب وقت العشاء إذا اجتمع الناس غو تأخروا، حديث: 565)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 690
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث691
´نماز عشاء کا وقت۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ میں اپنی امت کو مشقت میں ڈال دوں گا، تو میں عشاء کی نماز تہائی یا آدھی رات تک مؤخر کرتا“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 691]
اردو حاشہ:
فائده:
اس سے معلوم ہوا کہ عشاء کی نماز نصف رات سے پہلے پڑھ لینی چاہیے کیونکہ نبی ﷺ نے زیادہ سے زیادہ آدھی رات تاخیر کی خواہش ظاہر فرمائی البتہ نماز باجماعت نمازیوں کی سہولت کے مطابق مناسب وقت پر ادا کرنی چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 691
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 22
´مسواک کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر مجھے اپنی امت کو حرج اور مشقت میں مبتلا کرنے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 22]
اردو حاشہ:
1؎:
مسواک واجب نہ کرنے کی مصلحت امت سے مشقت و حرج کو دور رکھنا ہے،
اس سے صرف مسواک کے وجوب کی نفی ہوتی ہے،
رہا مسواک کا مسنون ہونا تو وہ علی حالہ باقی ہے۔
2؎:
امام بخاری نے اس طریق کو دو وجہوں سے راجح قرار دیا ہے:
ایک تو یہ کہ اس سے ایک واقعہ وابستہ ہے اور وہ ابو سلمہ کا یہ کہنا ہے کہ زید بن خالد مسواک اپنے کان پر اسی طرح رکھے رہتے تھے جیسے کاتب قلم اپنے کان پر رکھے رہتا ہے اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو مسواک کرتے،
اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یحییٰ بن ابی کثیر نے محمد بن ابراہیم کی متابعت کی ہے جس کی تخریج امام احمد نے کی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 22
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 167
´نماز عشاء دیر سے پڑھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں اپنی امت پر دشوار نہ سمجھتا تو میں عشاء کو تہائی رات یا آدھی رات تک دیر کر کے پڑھنے کا حکم دیتا“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 167]
اردو حاشہ:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عشاء مذکور وقت تک مؤخر کر کے پڑھنا افضل ہے،
صرف اسی نماز کے ساتھ خاص ہے،
باقی اور نمازیں اوّل وقت ہی پر پڑھنا افضل ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 167
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:994
994- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ا رشاد فرمایاہے: ”کوئی بھی شخص ایک کپڑا پہن کر اس طرح ہزگز نماز ادا نہ کرے کہ اس کے کندھے پر اس کپڑے کا کوئی حصہ نہ ہو۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:994]
فائدہ:
کپڑاتھوڑا ہونے کی صورت میں شرمگاہوں (گھٹنوں سے لے کر ناف تک) اور کندھوں پر کچھ کپڑ ا ہونا ضروری ہے، یہ نماز کی حالت میں مرد کا لباس ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 993
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:995
995- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”اگر مجھے اہل ایمان کے مشقت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا، تو میں انہیں عشاء کی نماز تاخیر سے ادا کرنے کی ہدایت اور ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کی ہدایت کرتا۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:995]
فائدہ:
اس حدیث میں نماز عشاء کو تاخیر سے پڑھنے کی اہمیت بیان کی جا رہی ہے، یہ تب ہے جب نمازی حضرات متفق ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ امام صاحب نماز عشاء کو مؤخر کرنا چاہیں اور مقتدی کوئی بھی اس پر راضی نہ ہو۔ نیز اس حدیث میں ہر نماز کے ساتھ مسواک کرنے کی اہمیت بھی ثابت ہوتی ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 994
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 589
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا، کہ مومنوں کو مشقت ہو گی، (زہیر کی روایت میں ہے: ”میری امت پر مشقت پڑ جائے گی“) تو میں ان کو ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:589]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
مسواک اس قدر عظیم فوائد کی حامل چیز ہے،
کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
”میرا جی چاہتا ہے کہ میں اپنی امت کو حکم دوں،
کہ وہ ہر نماز کےلیے مسواک کرے،
لیکن ایسا حکم میں نے محض اس اندیشہ کی بنا پر نہیں دیا کہ ہر نماز کےلیے یہ کام امت کے لیے ہر ہر فرد کے اعتبا ر سے کلفت کا باعث ہوگا“ اور ہر ایک کےلیے اس کی پابندی مشکل ہوگی،
تو یہ بھی تاکید وترغیب کا ایک بہت بڑا موثر عنوان ہے،
اس لیے امت کو اپنے طور پر اس کا اہتمام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 589
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 887
887. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر میں اپنی امت یا لوگوں پر گراں نہ سمجھتا تو انہیں ہر نماز کے لیے مسواک کرنے کا حکم ضرور دیتا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:887]
حدیث حاشیہ:
حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ اپنی مشہور کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں بذیل احادیث مرویہ متعلق مسواک فرماتے ہیں:
أَقُول:
مَعْنَاهُ لَوْلَا خوف الْحَرج لجعلت السِّوَاك شرطا للصَّلَاة كَالْوضُوءِ، وَقد ورد بِهَذَا الأسلوب أَحَادِيث كَثِيرَة جدا وَهِي دَلَائِل وَاضِحَة على أَن لاجتهاد النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مدخلًا فِي الْحُدُود الشَّرْعِيَّة، وَأَنَّهَا منوطة بالمقاصد، وَأَن رفع الْحَرج من الْأُصُول الَّتِي بنى عَلَيْهَا الشَّرَائِع. قَول الرَّاوِي فِي صفة تسوكه صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُول:
أع أع - كَأَنَّهُ يتهوع أَقُول:
يَنْبَغِي للْإنْسَان أَن يبلغ بِالسِّوَاكِ أقاصى الْفَم، فَيخرج بلاغم الْحلق والصدر، وَالِاسْتِقْصَاء فِي السِّوَاك يذهب بالقلاع، ويصفى الصَّوْت، ويطيب النكهة الخ۔
(حجة اللہ البالغة، ص: 449,450)
یعنی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے اگر میں اپنی امت پر دشوار نہ جانتا تو ان کو ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا، اس کے متعلق میں کہتا ہوں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر تنگی کا ڈر نہ ہوتا تو مسواک کر نے کو وضو کی طرح نماز کی صحت کے لیے شرط قرار دے دیتا اور اس طرح کی بہت سی احادیث وارد ہیں جو اس امر پر صاف دلالت کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے اجتہاد کو حدود شرعیہ میں دخل ہے اور حدود شرعیہ مقاصد پر مبنی ہیں اور امت سے تنگی کا رفع کرنا من جملہ ان اصول کے ہے جن پر احکام شرعیہ مبنی ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مسواک کرنے کی کیفیت کے متعلق جو راوی کا بیان ہے کہ آپ مسواک کرتے وقت اع اع کی آواز نکالتے جیسے کوئی قے کرتے وقت کرتا ہے، اس کے متعلق میں کہتا ہوں کہ انسان کو مناسب ہے کہ اچھی طرح سے منہ کے اندر، مسواک کرے اور حلق اور سینہ کا بلغم نکالے اور منہ میں خوب اندرتک مسواک کرنے سے مرض قلاع دور ہو جاتا ہے اور آواز صاف ہو جاتی ہے اورمنہ خوشبو دار ہو جاتا ہے۔
قال النبي صلی اللہ علیه وسلم عشر من الفطرة قص الشوارب وإعفاءاللحیة والسواك الخ۔
یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دس باتیں فطرت میں سے ہیں مونچھوں کا ترشوانا اور داڑھی کا بڑھانا اور مسواک کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا اور ناخن کتروانا اور انگلیوں کے جوڑوں کا دھونا اور بغل کے بال اکھاڑنا اور زیر ناف کے بال صاف کرنا اور پانی سے استنجا کرنا۔
راوی کہتا ہے کہ دسویں بات مجھ کو یاد نہیں رہی وہ غالباً کلی کرنا ہے۔
میں کہتا ہوں کہ یہ طہارتیں حضرت ابراہیم ؑ سے منقول ہیں اور تمام امم حنیفیہ میں برابرجارہی ہیں اور ان کے دلوں میں پیوست ہیں اسی وجہ سے ان کا نام فطرت رکھا گیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 887
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7240
7240. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر میری امت پر مشکل نہ ہوتا تو میں ان پر مسواک کرنا واجب قرار دے دیتا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7240]
حدیث حاشیہ:
ان احادیث میں لو کا لفظ استعمال نہیں ہوا بلکہ لفظ لولا کا ذکر ہے حالانکہ ان دونوں کے معانی میں بہت فرق ہے کیونکہ لفظ لو کے معنی ایک چیز کا امتناع کسی دوسری چیز کے امتناع کی وجہ سے ہے اور لفظ لولا کے معنی یہ ہیں کہ ایک چیز کا امتناع کسی دوسری چیز کے وجود کی بنا پر ہے لیکن دونوں کا نتیجہ اور انجام ایک ہے۔
اگر انھیں اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر بطور اعتراض استعمال کیا جائے توایسا کرنا شرعاً جائز نہیں اور اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے حوالے کرتے ہوئے انھیں اسعتمال کیا جائے تو جائز ہے جیسا کہ مذکورہ احادیث میں لولا کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے فیصلے اور اس کی تقدیر پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ ایک امرواقع بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7240