Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الطهارة وسننها
کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل
7. بَابُ : السِّوَاكِ
باب: مسواک کا بیان۔
حدیث نمبر: 286
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ . ح وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، وَحُصَيْنٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ يَتَهَجَّدُ، يَشُوصُ فَاهُ بِالسِّوَاكِ".
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات میں تہجد کے لیے اٹھتے تو مسواک سے دانت و منہ صاف کرتے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 73 (245)، الجمعة 8 (889)، التھجد 9 (1136)، صحیح مسلم/الطہارة 15 (255)، سنن ابی داود/الطہارة 30 (55)، سنن النسائی/الطہارة 2 (2)، (تحفة الأشراف: 3336)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/382، 390، 397، 402، 407)، سنن الدارمی/الطہارة 20 (712) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 286 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث286  
اردو حاشہ:
(1)
اسلام میں طہارت اور پاکیزگی کو ایک ممتاز مقام حاصل ہے اس لیے عبادت کے موقع پر ظاہری صفائی کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔
وضو کے ساتھ ساتھ ظاہری صفائی کا ایک ذریعہ مسواک بھی ہے جس کے بارے میں رسول اللہ نے بہت تاکید فرمائی ہے۔

(2)
منہ اور زبان اللہ کے ذکر کا ذریعہ ہیں لہذا اللہ کا نام لینے کے لیے ان کی صفائی کا اہتمام ضروری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نماز کے لیے وضو کو شرط قراردیا گیا ہےجس میں منہ کی صفائی کرنے والی دو چیزیں شامل ہیں یعنی کلی اور مسواک۔

(3)
نیند کی وجہ سے منہ میں ایک بدبو پیدا ہوجاتی ہے جس کے ازالے کے لیے بیدار ہونے پر منہ کی صفائی اور مسواک کی ضرورت ہے خواہ یہ بیداری نفل نماز (تہجد)
کے لیے ہو یا فرض (فجر)
نماز کے لیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 286   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا محمد ابوالقاسم سيف بنارسي حفظ الله، دفاع بخاري، تحت الحديث صحيح بخاري 1136  
´رات کے قیام میں نماز کو لمبا کرنا`
«. . . أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا قَامَ لِلتَّهَجُّدِ مِنَ اللَّيْلِ يَشُوصُ فَاهُ بِالسِّوَاكِ..»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو پہلے اپنا منہ مسواک سے خوب صاف کرتے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّهَجُّد: 1136]
فقہ الحدیث
منکرین حدیث اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں: یہ باب ہے رات کی نماز میں درازی قیام کے بیان میں۔ اور حدیث ہے حذیفہ سے روایت ہے کہ آنحضرت جب نماز تہجد پڑھنے کا ارادہ کرتے تو اپنے منہ کو مسواک سے صاف کر لیتے۔ باب اور حدیث میں مطابقت نہیں۔
{اَقول:} ہم اس کا مفصل جواب رسالہ «الخزي العظيم» (ص:11) میں دے چکے ہیں۔
اور اخبار اہل حدیث (14/7، اکتوبر 2010 ء و 11 نومبر 2010 ء) میں بھی سب جواب دیا گیا ہے۔
مختصر جواب چار شقوں میں سن لیں، یعنی چار دلیلوں سے حدیث مذکور اور اس کے باب میں مطابقت ہے:
➊ لفظ «قيام» درباب اور «قام» درحدیث سے لفظی مطابقت ظاہر ہے۔
➋ مسواک کرنا چونکہ ازالہ نوم کی معین ہے، لہٰذا یہ تہیّو بطریق استنباط خود طولِ قیام پر دال ہے۔
➌ اس میں ایک نکتہ ہے، وہ یہ کہ یہ روایت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی ہے اور نماز تہجد میں طوالت قرات کی روایت بھی صحیح مسلم میں سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے۔ ۱؎ پس امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے دوسری حدیث کی طرف اشارہ کر کے سمجھا دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز تہجد میں لمبی قراَت پڑھتے تھے۔ کیونکہ دونوں روایتیں ایک ہی نماز کے متعلق اور ایک ہی صحابی کی روایت سے ہیں۔
➍ حدیث مذکور سے ہر دوگانہ تہجد کے بعد مسواک کرنا نکلتا ہے، اور ظاہر ہے کہ تغییر رائحہ فم کی ضرورت ایک عرصہ کے بعد ہوتی ہے، پس معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک دوگانہ میں ایک عرصہ تک قیام فرماتے تھے، یعنی قیام طویل کرتے تھے۔ [فتح الباري 19/3]
اور علامہ عینی (جو معترض کا مایہ ناز ہے) نے یوں مطابقت دی ہے کہ:
باب ہے رات کی نماز میں درازی قیام کا، اور حذیفہ کی حدیث میں تہجد کے لیے قیام کا ذکر موجود ہے اور تہجد کی نماز رات کو درازی سے ادا کی جاتی ہے اور درازی طول قیام سے ہوتی ہے۔ [عمدة القاري 186/7]
پس طول قیام ثابت ہے، جو باب کا مضمون ہے۔ بہرحال اس حدیث کی باب سے مطابقت ظاہر ہے جسے معترض نے عقدہ سمجھا تھا، وہ پانی ہو کر بہہ گیا۔ «فالحمدلله!»
------------------
۱؎ [صحيح مسلم: كتاب صلاة المسافرين وقصرھا، باب استحباب تطويل القراءة في صلاة الليل، رقم الحديث 776]
   دفاع صحیح بخاری، حدیث/صفحہ نمبر: 105   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 245  
´مسواک کرنے کا بیان`
«. . . عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ يَشُوصُ فَاهُ بِالسِّوَاكِ " . . . .»
. . . حذیفہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو اٹھتے تو اپنے منہ کو مسواک سے صاف کرتے۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ السِّوَاكِ:: 245]
تشریح:
مسواک کی فضیلت کے بارے میں یہ حدیث ہی کافی ہے کہ جو نماز مسواک کر کے پڑھی جائے وہ بغیر مسواک والی نماز پر ستائیس درجہ فضیلت رکھتی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کا اس قدر اہتمام فرماتے کہ آخر وقت بھی اس سے غافل نہ ہوئے۔ طبی لحاظ سے بھی مسواک کے بہت سے فوائد ہیں۔ بہتر ہے کہ پیلو کی تازہ جڑ سے کی جائے۔ مسواک کرنے سے آنکھیں بھی روشن ہوتی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 245   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1136  
1136. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ رات کو جب تہجد کے لیے بیدار ہوتے تو اپنے منہ کو مسواک سے صاف کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1136]
حدیث حاشیہ:
تہجد کے لیے مسواک کا خاص اہتمام اس لیے تھا کہ مسواک کر لینے سے نیند کا خمار بخوبی اتر جاتا ہے۔
آپ ﷺ اس طرح نیند کا خمار اتار کر طول قیام کے لیے اپنے کو تیار فرماتے۔
یہاں اس حدیث اور باب میں یہی وجہ مطابقت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1136   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 245  
245. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب رات کو اٹھتے تو (پہلے) اپنے منہ کو مسواک سے صاف کرتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:245]
حدیث حاشیہ:
مسواک کی فضیلت کے بارے میں یہ حدیث ہی کافی ہے کہ جو نماز مسواک کرکے پڑھی جائے وہ بغیرمسواک والی نماز پر ستائیس درجہ فضیلت رکھتی ہے۔
آپ ﷺ مسواک کا اس قدر اہتمام فرماتے کہ آخر وقت بھی اس سے غافل نہ ہوئے۔
طبی لحاظ سے بھی مسواک کے بہت سے فوائد ہیں۔
بہترہے کہ پیلو کی تازہ جڑ سے کی جائے۔
مسواک کرنے سے آنکھیں بھی روشن ہوتی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 245   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 889  
889. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ جب رات کو اٹھتے تو اپنا منہ مسواک سے خوب صاف کرتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:889]
حدیث حاشیہ:
ان جملہ احادیث سے حضرت امام ؒ نے یہ نکالا کہ جمعہ کی نماز کے لیے بھی مسواک کرنا چاہیے۔
جب آنحضرت ﷺ نے ہر نماز کے لیے مسواک کی تاکید فرمائی تو جمعہ کی نماز کے لیے بھی اس کی تاکید ثابت ہوئی۔
اس لیے بھی کہ جمعہ میں زیادہ لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے، اس لیے منہ کا صاف کرنا ضروری ہے تاکہ منہ کی بدبو سے لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 889   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 889  
´مسواک کی فضیلت`
«. . . كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ يَشُوصُ فَاهُ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو اٹھتے تو منہ کو مسواک سے خوب صاف کرتے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْجُمُعَةِ: 889]
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
باب سے ظاہر ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ جمعہ کے دن مسواک کرنے کی فضیلت کو اجاگر فرما رہے ہیں۔
جس حدیث میں یہ ذکر ہے کہ اگر امت پر شاق نہ ہوتا تو ہر نماز کے لئے مسواک کا حکم کرتا، تو اس حدیث اور باب میں مناسبت یہ ہے کہ جب تمام نمازوں کے لئے مسواک واجب کر دی جاتی تو یقیناً نماز جمعہ میں بھی بالاولیٰ واجب ہو جاتی کیونکہ جمعہ کی نماز میں پانچوں نمازوں سے زیادہ لوگ ہوتے ہیں اور بڑا اجتماع ہوا کرتا ہے۔

دوسری حدیث جو انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تم سے مسواک کرنے کی خوبی بارہا کہی۔
اس میں مناسبت یہ ہے کہ مسواک میں غفلت اور سستی نہ کرو مسواک کی عادت ڈالو لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک کی خوبی بار بار واضح فرمائی اور یہ بھی واضح کر دیا کہ ہمیشہ مسواک کو استعمال کرنا مشکل ہے، لہٰذا ایک دن مسواک کا متعین کرنا مشکل نہیں باقی دنوں میں بہتر دن جمعہ کا ہے اور جمعہ کو روز خوشبو لگانا صاف ستھرے کپڑے پہننا مشروع ہے اور اسی دن مسواک کا بھی استعمال بہترین عمل میں داخل ہے۔

◈ ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس حدیث سے استدلال اور مطابقت (ترجمۃ الباب کی) یہ ہے کہ جب مسواک کرنا پنج وقتہ نمازوں میں ثابت ہوا تو جمعہ کے روز جس میں غسل وغیرہ ہے تو مسواک کرنا بالاولیٰ ثابت ہو گا۔ [التوضيح، ج8، ص421]

تنبیہ:
مذکورہ بالا حدیث کے پیش نظر ابن حزم رحمہ اللہ اس کے وجوب کی طرف گئے ہیں کہ مسواک کرنا جمعہ کے روز فرض ہے، اور محدث اسحاق بن راھویہ رحمہ اللہ کی طرف بھی ایک قول منقول ہے کہ:
«هو واجب لكل صلاة فمن تركه عامداً بطلت صلاته»
مسواک کرنا واجب ہے ہر نماز کے لیے پس جس نے جان کر اسے چھوڑ دیا تو اس کی نماز باطل ہو گی۔ [فتح الباري، ج8، ص123]

◈ لیکن ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس قول کی نسبت ابن راھویہ کی طرف درست نہیں ہے۔ [فتح الباري، ج8، ص123]
لہٰذا ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت اس طرح سے ہوئی کہ عام نمازوں میں مسواک کرنا مشروع ہے تو جمعہ کے روز بھی بالاولیٰ مشروع ہو گا۔ کیونکہ اس دن نظافت، غسل اور عطر کے استعمال کی خاص ترغیب موجود ہے۔

تیسری حدیث جو سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کے وقت تہجد میں مسواک کرنا ثابت ہوتا ہے تو اس میں تطبیق یہ ہے کہ رات کی نماز تنہا نماز ہے اور جمعہ کی نماز میں خوشبو کا استعمال کا حکم ہے تو لہٰذا اس نماز میں بطریق اولی مسواک کرنے کا بھی حکم شامل ہو گیا لہٰذا مطابقت اس حدیث سے باب کی ظاہر ہو گئی۔ اس حدیث پر مزید بحث إن شاء اللہ باب «طول القيام فى صلاة الليل» میں آئے گی۔

فائدہ نمبر ➊
امام ابن دقیق العید رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«الحكمة فى استحباب السواك عند القيام إلى الصلاة كونها حالاً تقرب إلى الله» [فتح الباري ج2 ص478]
مسواک کرنے کی حکمت نماز میں اس لیے ہے کہ اس حال میں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔

◈ ابن دقیق العید مزید فرماتے ہیں کہ:
مسواک کرنے میں بہت زیادہ ستھرائی اور عبادت کا شرف کا اظہار ہوتا ہے۔
ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث سے کئی ایک اہم ترین مسائل کی تخریج فرمائی ہے۔ آپ نے مذکورہ حدیث پر فقھی تبصرہ کرتے ہوئے 32 مسائل کو اجاگر فرمایا ہے۔ دیکھئے: [شرح الالمام، ج3، ص53 تا 91]

فائدہ نمبر ➋
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک تعلیمات انسان کو صحیح معنوں میں انسان بنا دیتی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کو ہر وقت منہ صاف رکھنے کی تلقین فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو ہر نماز کے لیے مسواک کرنے کا حکم دیا ہے۔ برش سے دانتوں کی اچھی طرح صفائی ممکن نہیں اگر ہو بھی جائے لیکن اس کے بعد دانتوں پر میل (PLAQUE) کی تہہ چڑھ جاتی ہے۔ مسواک ایک ایسی چیز ہے جو دانتوں کے جملہ امراض کے لیے بے حد مفید ہے۔
پاکستان میں 1985ء میں دانت صاف کرنے کے لیے استعمال کی جانے والی مختلف پودوں کی شاخوں پر جدید طبّی تحقیقات کی گئیں۔ ان تحقیقات سے مسواک پیلو کے ضمن میں نہایت حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے اس مقصد کے لیے استعمال کی جانے والی شاخوں کا خروحیاتی طور پر جراثیم کے خلاف تقابلی جائزہ لیا گیا ان نباتات کے نام حسب ذیل ہیں۔
① نیم (MELIA AZADIRACHTA LINN)
② کیکر (ACACIA ARABICA WILLD)
③ پھلاہی (ACACIA MODESTA WILLD)
④ مسواک / پیلو (SELVADORA PERSICA LINN)
⑤ کرنج (PONGAMIA GLABRA VENT)
ان تحقیقات میں بتایا گیا ہے کہ بیشتر افریقی ممالک، جنوبی ایشیا، امریکہ کے گرم علاقے اور شمالی علاقوں میں درج بالا نباتات کی شاخیں اور جڑیں دانتوں اور منہ کی صفائی کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
مسواک یا پیلو کو مجموعی طور پر لعاب دہن سے حاصل کئے گے بیکٹریا کے خلاف موثر پایا گیا اور اس کے مانع جراثیم ((ANTI MICROBIAL) جراثیم کش (GERMICDAL) اور مانع فخج (FUNGICIDAL) اثرات کا میعار بقایہ تمام نبات سے بہتر پایا گیا۔ (MEDICAL AND GENERAL PHYSIOLOGY)

◈ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یعنی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے اگر میں اپنی امت پر دشوار نہ جانتا تو ان کو ہر نماز کے لیے مسواک کرنے کا حکم دیتا اس کے متعلق میں کہتا ہوں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر تنگی کا ڈر نہ ہوتا تو مسواک کرنے کو وضو کی طرح نماز کی صحت کے لئے شرط قرار دیتا اور اس طرح کی بہت سی احادیث وارد ہیں جو اس امر پر صاف دلالت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد کو حدود شرعیہ میں دخل ہے۔ ① اور حدود شرعیہ مقاصد پر مبنی ہیں اور امت سے تنگی کا رفع کرنا من جملہ ان اصول کے ہے جن پر احکام شرعیہ مبنی ہیں۔۔۔ انسان کو مناسب ہے کہ اچھی طرح سے منہ کے اندر مسواک کرے اور حلق اور سینہ کا بلغم نکالے اور منہ میں خوب اندر تک مسواک کرنے سے مرض قلاع دور ہو جاتا ہے اور آواز صاف ہو جاتی ہے۔‏‏‏‏ [حجة الله البالغة ج1 ص183]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 204   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 245  
´رات کو اٹھنا اور مسواک کرنا`
«. . . عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ يَشُوصُ فَاهُ بِالسِّوَاكِ " . . . .»
. . . حذیفہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو اٹھتے تو اپنے منہ کو مسواک سے صاف کرتے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ السِّوَاكِ: 245]
تخريج الحديث:
[144۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 73 باب السواك 245، مسلم 255، أبوداود 55، ابن ماجه 286]
لغوی توضیح:
«يَسْتَنُّ» مسواک استعمال کرنا۔
«يَتَهَوَّعُ» قے کرنا۔
«يَشُوْصُ» مَلتے، دھوتے یا رگڑتے۔
«فَاهُ» اپنے منہ کو۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 144   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 2  
´رات کو سو کر اٹھنے کے بعد مسواک کرنے کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو (نماز تہجد کے لیے) اٹھتے تو اپنا منہ مسواک سے خوب صاف کرتے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الطهارة/حدیث: 2]
2۔ اردو حاشیہ:
➊ نیند سے بیداری کے بعد مسواک کرنا مستحب ہے، مگر یہ وضو کا حصہ نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر وضو میں مسواک کا ذکر نہیں، اگرچہ آپ نے ہر وضو کے ساتھ مسواک کی تاکید فرمائی ہے۔
➋ مسواک اسم آلہ ہے، یعنی جس چیز سے بھی منہ کی صفائی ممکن ہو، خواہ وہ درخت کی لکڑی ہو یا بالوں والا برش یا کوئی محلول وغیرہ۔ لیکن افضل یہ ہے کہ مسواک پیلو کے درخت کی ہو کیونکہ اس میں سنت پر عمل کے ساتھ ساتھ طبی فوائد کا حصول بھی ہے۔ والله أعلم
«يَشُوصُ» کے معنی دانتوں کو ملنے اور صاف کرنے کے ہیں۔ امام خطابی رحمہ اللہ اس ملنے کی کیفیت کی بابت لکھتے ہیں کہ دانتوں کو مسواک کے ساتھ عرض کے بل صاف کرنا «شوص» کہلاتا ہے۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ مسواک کے ساتھ دانتوں کو اوپر سے نیچے کی جانب صاف کرنا «شوص» ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: ذخيرة العقبىٰ، شرح سنن النسائي للعلامة علي بن آدم إيتوبي: 226/1
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 593  
حضرت خذیفہ ؓ سے روایت ہے: کہ رسول اللہ ﷺ جب رات کو نماز کے لیے بیدار ہوتے، تو اپنے منھ کو مسواک سے صاف فرماتے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:593]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
يَتَهَجَّدُ:
هجود سے ہے،
اور "هجود" کا معنی ہوتا ہے،
سونا،
اور تهجد کا معنی ہوتا ہے هجود نیند سے نکلنا یعنی بیدار ہونا۔
مقصد ہے رات کو نماز کے لیے اٹھنا۔
(2)
يَشُوصُ فَاهُ:
مسواک سے دانت عرضاً (چوڑائی میں)
صاف کرنا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 593   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:245  
245. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب رات کو اٹھتے تو (پہلے) اپنے منہ کو مسواک سے صاف کرتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:245]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے مسواک کو وضو کی سنت ثابت کرنے کے لیے کتاب الوضوء میں مذکورہ عنوان قائم کیا ہے، کیونکہ مسواک متعلقات وضو سے ہے، اسے کتاب الصلاۃ میں بھی لائیں گے تاکہ اس کے سنت صلاۃ ہونے کو بھی واضح کیا جائے۔
چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ اگر مجھے لوگوں پرگرانی کا اندیشہ نہ ہوتاتو ہر نماز کے ساتھ مسواک کرنے کو ضروری قراردے دیتا۔
(صحیح البخاري، الجمعة، حدیث: 887)
اسی طرح وضو کے متعلق بھی ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ اگر مجھے امت پرگرانی کا خطرہ نہ ہوتاتو میں ہروضو کے ساتھ مسواک کو لازم قراردے دیتا۔
(مسند احمد: 250/2)
مسواک کرتے وقت منہ سے اُع اُع کی آواز کا پیدا ہونا اس بات کاقرینہ ہے کہ مسواک زبان پر پھیری جاتی تھی، کیونکہ جب زبان پر بلغم وغیرہ جم جاتی ہے تو قراءت کے وقت تکلف ہوتا ہے، اس لیے زبان کو صاف کرنے کے لیے مسواک کا عمل رکھاگیا ہے۔

مسواک کے مستحب اوقات حسب ذیل ہیں:
* وضو کے ساتھ۔
* نماز کے وقت۔
* تلاوت قرآن کے لیے۔
* سونے سے پہلے۔
* نیند سے بیدار ہوکر۔
* جمعے کے دن* کھانے کے وقت۔
* منہ میں کسی وجہ سے بوپیداہونے کی صورت میں۔
واضح رہے کہ منہ میں کئی ایک وجوہات کی بنا پر بو پیدا ہوجاتی ہے. چند ایک حسب ذیل ہیں:
* کھانے پینے کاترک۔
* بووالی چیزتناول کرنا۔
* مسلسل سکوت۔
* کثرت کلام۔
مزید برآں حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ گھرتشریف لاتے تو سب سے پہلے مسواک کرنے کا اہتمام کرتے تھے۔
(صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 590(253)

مسواک کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے رب کبریا کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ منہ کی پاکیزگی اور صفائی کا ذریعہ ہے، اس سے مسوڑھے مضبوط ہوتے ہیں، قوت حافظہ کو بڑھاتی اورترقی دیتی ہے، نظر کوتیز کرتی اور اس کی روشنی کو بڑھاتی ہے، فاضل رطوبتوں کا ازالہ اوراخراج کرتی ہے، معدے کے نظام کو درست رکھتی ہے۔
پابندی سے مسواک کرنے والا درد دنداں سے محفوظ رہتا ہے۔
ان کے علاوہ بے شمار فوائد ہیں جن کا طب جدید نے بھی اعتراف کیا ہے۔

حضرت حذیفہ ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب رات کونیند سے بیدار ہوتے تو مسواک سے منہ صاف کرتے تھے، یعنی سونے کی وجہ سے جو بخارات معدے سے چڑھ کے زبان پر جم جاتے ہیں، ان سے بھی قراءت متاثر ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے ان کے ازالے کے لیے مسواک کا عمل کرتے تھے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زبان پر طول کے بل مسواک کرنا مشروع ہے جبکہ دانتوں پر عرض کے بل کرنی چاہیے۔
(فتح الباري: 463/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 245   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:889  
889. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ جب رات کو اٹھتے تو اپنا منہ مسواک سے خوب صاف کرتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:889]
حدیث حاشیہ:
(1)
کچھ اہل علم کے نزدیک جمعے کے دن مسواک کرنا ضروری ہے حتی کہ اگر دانستہ طور پر مسواک ترک کر دی جائے تو ان کے نزدیک جمعہ صحیح نہیں ہے جبکہ جمہور اہل علم کے نزدیک سنت مؤکدہ ہے۔
امام بخاری ؒ کا رجحان بھی جمہور اہل علم کی طرف ہے۔
یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عام روایات ہی سے استدلال کیا ہے، چنانچہ آپ نے اس سلسلے میں تین متصل روایات بیان کی ہیں:
پہلی روایت میں ہر نماز کے لیے مسواک کرنے کا ذکر ہے۔
اسی عموم میں نماز جمعہ بھی شامل ہے۔
حضرت زین بن منیر فرماتے ہیں کہ جمعہ کے لیے غسل، نظافت اور خوشبو وغیرہ سے اپنے ظاہر کو سنوارنے کا حکم ہے، اس لیے ضروری ہے کہ نمازی کا منہ جو مناجات الٰہیہ کے لیے ظرف اور محل کی حیثیت رکھتا ہے اسے بھی صاف رکھا جائے اور اس سے ہر تکلیف دہ چیز کو دور کیا جائے جو انسانوں اور فرشتوں کے لیے نفرت کا باعث ہے۔
اسی طرح دوسری حدیث کے عموم سے امام بخاری ؒ نے جمعہ کے دن مسواک کرنے پر استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بکثرت مسواک کرنے کے متعلق امت کو تلقین کیا کرتے تھے۔
جمعہ کا دن جو دراصل اجتماع کا دن ہے، اس کے لیے بالاولیٰ مسواک کا اہتمام کرنا چاہیے۔
حدیث حذیفہ میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کو اٹھتے وقت مسواک کے ذریعے سے اپنے منہ کو صاف کرنے کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے تاکہ آپ کا اندرون صاف ستھرا رہے۔
جمعہ کے دن تو ظاہر اور باطن کو خوبصورت بنانے کا حکم ہے، اس لیے جمعہ کے لیے مسواک کے ذریعے سے صفائی کا اہتمام انتہائی ضروری ہے۔
(فتح الباري: 482/2) (2)
نمازی کے منہ سے قرآن کی تلاوت ہوتی ہے، نیز اللہ تعالیٰ سے مناجات کا ذریعہ ہے، فرشتے جو نمازی کے منہ سے قرآن مجید اور ذکر الٰہی کے کلمات سنتے ہیں اور فرط اشتیاق سے تلاوت کرنے والے کے منہ پر اپنا منہ رکھ دیتے ہیں تاکہ جو آواز بھی قرآن پڑھنے اور ذکر کرنے والے کے منہ سے نکلے وہ سب فرشتے کے منہ میں چلی جائے جیسا کہ مسند بزار کی ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے۔
(مسند البرار(البحر الدخار)
214/2، و سلسلة الأحادیث الصحیحة، حدیث: 1213)

ایسے حالات میں منہ کو نہایت صاف ستھرا رکھنے کی جتنی بھی کوشش کی جائے کم ہے۔
(فتح الباري: 484/2) (3)
مسواک کے متعلق اکابر امت کا اختلاف ہے کہ یہ نماز کی سنت ہے یا وضو کی یا دین کی؟ احادیث سے ہر موقف کی تائید ہوتی ہے۔
ہر دیندار کو تمام حالات میں سنت مسواک پر عمل کرنا چاہیے۔
وضو کے وقت، نماز کے وقت اور منہ میں کسی قسم کا تغیر آنے کے وقت خاص طور پر مسواک کا اہتمام کرنا چاہیے۔
علمائے امت نے پانچ اوقات میں مسواک کرنے کو مستحب قرار دیا ہے۔
٭ وضو کے وقت ٭ نماز کے وقت ٭ جب منہ میں بدبو پیدا ہو جائے ٭ جب دانت زرد ہو جائیں ٭ جب نیند سے بیدار ہو۔
(4)
مسواک کرتے وقت رسول اللہ ﷺ کے منہ سے اُع اُع کی آواز نکلتی تھی جیسا کہ قے کرنے کی کیفیت ہوتی ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ اچھی طرح منہ کے اندر مسواک کی جائے تاکہ حلق اور سینے کا بلغم نکل جائے۔
اس کا فائدہ یہ ہے کہ آواز صاف ہو جاتی ہے اور منہ خوشبودار ہو جاتا ہے۔
واضح رہے کہ اس طرح منہ کے متعدد امراض خود بخود ختم ہو جاتے ہیں۔
(حجة اللہ البالغة: 567/1، طبع مکتبة الکوثر)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 889   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1136  
1136. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ رات کو جب تہجد کے لیے بیدار ہوتے تو اپنے منہ کو مسواک سے صاف کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1136]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب رات کو بیدار ہوتے تو نماز تہجد کے لیے تیاری کرتے اور مسواک کرنا بھی تیاری کے مراحل میں شامل ہوتا، پھر تہجد بھی حسب عادت ادا کرتے تھے۔
دیگر احادیث تہجد سے آپ کی عادت مبارکہ کا پتہ چلتا ہے کہ اس میں لمبا قیام ہوتا تھا۔
ممکن ہے امام بخاری ؒ نے حدیث حذیفہ کی طرف اشارہ کیا ہو جسے امام مسلم نے بیان کیا ہے:
حضرت حذیفہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز تہجد ادا کی۔
آپ نے پہلی رکعت میں سورۂ بقرہ شروع کی۔
پہلے میں نے خیال کیا کہ آپ سو آیات پر رکوع کریں گے لیکن آپ نے قراءت جاری رکھی۔
میں نے سوچا کہ اسے پہلی رکعت میں پڑھیں گے۔
پھر آپ نے سورۂ نساء شروع کر دی۔
پھر آپ نے سورۂ آل عمران شروع فرمائی۔
آپ قراءت بھی آہستہ آہستہ کرتے تھے۔
پھر جب آیت تسبیح پڑھتے تو اللہ کی تسبیح کرتے اور آیت رحمت سے گزرتے تو اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت کا سوال کرتے اور جب آیت عذاب پڑھتے تو اللہ تعالیٰ سے عذاب کی پناہ مانگتے۔
پھر آپ نے رکوع کیا۔
آپ کا رکوع بھی قیام کی طرح طویل تھا۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1814(772)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1136