سنن ابن ماجه
(أبواب كتاب السنة)
(ابواب کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت)
39. بَابُ : فَضْلِ الْعُلَمَاءِ وَالْحَثِّ عَلَى طَلَبِ الْعِلْمِ
باب: علماء کے فضائل و مناقب اور طلب علم کی ترغیب و تشویق۔
حدیث نمبر: 220
حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ أَبُو بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ جس کی بھلائی چاہتا ہے اسے دین میں فہم و بصیرت عنایت کر دیتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13311، ومصباح الزجاجة: 81)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/234) (صحیح)» (ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1194 - 1195)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 220 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث220
اردو حاشہ:
(1)
عام طور پر فقہ سے نماز روزہ جیسے امور اور خرید وفروخت جیسے معاملات میں جائز و ناجائز، واجب و مستحب اور ان کی شروط، ارکان و آداب وغیرہ مراد لیے جاتے ہیں۔
عقائد و اخلاق وغیرہ کو الگ علوم تصور کیا جاتا ہے لیکن قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں جہاں فقہ و تفقہ جیسے الفاظ آئے ہیں، ان سے یہ اصطلاحی معنی مراد نہیں بلکہ وہاں مطلقاً دین کا علم وفہم مراد ہوتا ہے جس میں عبادات و معاملات کے ساتھ ساتھ اصلاح قلب، تزکیہ نفس، اخلاق حسنہ اور عقائد صحیحہ وغیرہ سبھی مراد ہوتے ہیں۔
جس کو ان چیزوں کا علم حاصل ہو جائے وہ اللہ کے حقوق بھی ادا کر سکتا ہے، اپنی ذات کے حقوق بھی اور احباب و اقارب کے علاوہ عام مسلمانوں اور اصحاب اقتدار کے حقوق بھی ادا کر سکتا ہے۔
اس طرح اس کی ندگی قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھل کر دینی و دنیوی خیروبرکت کا ذریعہ بن جاتی ہے، اوور وہ دوسروں کےلیے بھی سراپا رحمت بن جاتا ہے، اور یہی وہ خیر عظیم ہے جس سے بڑھ کر کوئی خیر نہیں۔
(2)
دین و دنیا کی یہ برکات وہی شخص حاصل کر سکتا ہے جو مذکورہ بالا امور کے بارے میں شرعی احکام سے واقف ہو، لہذا اس سے علم دین سیکھنے کی اہمیت اور ضرورت واضح ہوتی ہے۔
(3)
اس سے دین کے معلمین و مدرسین کا بلند مقام بھی واضح ہوتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رحلت فرما جانے کے بعد یہ سب کچھ علماء ہی سے حاصل ہو سکتا ہے۔
اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب بھی ایک معلم کا تھا جیسے کہ قرآن مجید میں ہے:
﴿وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتـبَ وَالحِكمَةَ﴾ (البقرۃ: 129)
”(وہ پیغمبر)
انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے گا۔“
یہی حکمت، وہ فہم دین ہے جسے اس حدیث میں فقہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 220