سنن ابن ماجه
(أبواب كتاب السنة)
(ابواب کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت)
38. بَابُ : فَضْلِ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ
باب: قرآن سیکھنے اور سکھانے والوں کے فضائل و مناقب۔
حدیث نمبر: 218
حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِيُّ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ أَبِي الطُّفَيْلِ ، أَنَّ نَافِعَ بْنَ عَبْدِ الْحَارِثِ ، لَقِيَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بِعُسْفَانَ، وَكَانَ عُمَرُ اسْتَعْمَلَهُ عَلَى مَكَّةَ، فَقَالَ عُمَرُ: مَنِ اسْتَخْلَفْتَ عَلَى أَهْلِ الْوَادِي؟ قَالَ: اسْتَخْلَفْتُ عَلَيْهِمُ ابْنَ أَبْزَى، قَالَ: وَمَنْ ابْنُ أَبْزَى؟ قَالَ: رَجُلٌ مِنْ مَوَالِينَا، قَالَ عُمَرُ: فَاسْتَخْلَفْتَ عَلَيْهِمْ مَوْلًى، قَالَ: إِنَّهُ قَارِئٌ لِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى، عَالِمٌ بِالْفَرَائِضِ، قَاضٍ، قَالَ عُمَرُ : أَمَا إِنَّ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَال:" إِنَّ اللَّهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ".
عامر بن واثلہ ابوالطفیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نافع بن عبدالحارث کی ملاقات عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے مقام عسفان میں ہوئی، عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ان کو مکہ کا عامل بنا رکھا تھا، عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: تم کس کو اہل وادی (مکہ) پر اپنا نائب بنا کر آئے ہو؟ نافع نے کہا: میں نے ان پر اپنا نائب ابن ابزیٰ کو مقرر کیا ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ابن ابزیٰ کون ہے؟ نافع نے کہا: ہمارے غلاموں میں سے ایک ہیں ۱؎، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے ان پہ ایک غلام کو اپنا نائب مقرر کر دیا؟ نافع نے عرض کیا: ابن ابزیٰ کتاب اللہ (قرآن) کا قاری، مسائل میراث کا عالم اور قاضی ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر بات یوں ہے تو تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن) کے ذریعہ بہت سی قوموں کو سربلند، اور بہت سی قوموں کو پست کرتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسا فرین 47 (817)، (تحفة الأشراف: 10479)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/ 35)، سنن الدارمی/فضائل القرآن 9 (3368) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مولیٰ کے معنی رفیق، دوست، آزاد غلام، حلیف، عزیز اور قریب کے ہیں، اور ظاہر یہ ہے کہ یہاں آزاد غلام مراد ہے، اس لئے عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر تعجب کیا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 218 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث218
اردو حاشہ:
(1)
اس واقعہ کے راوی ابوطفیل عامر بن واثلہ ؓان صحابہ کرام ؓمیں سے ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے دوران میں بچپن کی عمر میں تھے۔
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مطابق آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے سب سے آخر میں فوت ہوئے۔
آپ کی وفات 110 ہجری میں ہوئی۔
حضرت نافع بن عبدالحارث رضی اللہ عنہ بھی صحابی ہیں۔
فتح مکہ کے موقع پر قبول اسلام کا شرف حاصل ہوا۔
حضرت ابن ابزیٰ رضی اللہ عنہ کا نام عبدالرحمٰن ہے، قبیلہ بنو خزاعہ سے دلاء کا تعلق ہے، یہ بھی صغار صحابہ میں سے ہیں۔
(2)
خلافت راشدہ کے دوران میں کسی بھی سرکاری منصب کے لیے اہمیت کا معیار صرف علم و عمل تھا، نہ کہ قبیلہ و خاندان۔
(3)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آزاد کردہ غلام کو عہدہ دینے پر جو تعجب کا اظہار کیا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایسے افراد کو عہدے کا اہل نہیں سمجھتے تھے بلکہ آپ رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ نافع رضی اللہ عنہ نے ابن ابزیٰ رضی اللہ عنہ کو اس عہدے پر فائز کرتے ہوئے کس معیار کو پیش نظر رکھا ہے۔
جب معلوم ہوا کہ وہ واقعی اس عہدے کے اہل ہیں تو ان کے تقرر پر پسندیدگی کا اظہار فرمایا۔
(4)
ارشاد نبوی میں صرف کتاب اللہ (قرآن مجید)
کا ذکر ہے لیکن کتاب اللہ کا عالم وہی کہلا سکتا ہے جو حدیث کا علم بھی رکھتا ہو کیونکہ حدیث نبوی قرآن مجید کی تشریح اور عملی تفسیر ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 218
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1897
عامر بن واثلہ بیان کرتے ہیں کہ نافع بن عبدالحارث کی عسفان کے مقام پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات ہوئی، اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں مکہ کا گورنر مقرر کیا ہوا تھا، اس لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اہل وادی، یعنی مکہ کے لوگوں پر اپنا نائب کس کو بنایا ہے؟ نافع نے جواب دیا: ابزیٰ کے بیٹے کو تو پوچھا، ابزیٰ کا بیٹا کون ہے؟ کہنے لگے ہمارے آزاد کردہ غلاموں میں سے ایک آزاد کردہ غلام ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1897]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
قرآن مجید انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا دستور حیات اور ضابطہ زندگی ہے اور اس کا فرمان اور عہد نامہ ہے اس کی وفاداری اور تابعداری اللہ تعالیٰ کی وفاداری اور اطاعت کیشی ہے اور اس نظام حیات اور دستور العمل سے انحراف اور بغاوت اللہ تعالیٰ سے انحراف اورسر کشی ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے جو فرد اور جو قوم اس کواپنا دستور زندگی سمجھ کر اپنے کاروبار حیات کو اس کا مطیع و فرمان بردار بنائے گی اللہ تعالیٰ اس کو سرفراز وسر بلند فرمائے گا اور اس کے برعکس جو قوم اور امت اس سے انحراف اور سرکشی اختیار کرے گی اور اس پر ایمان لانے کے بعد اس پر عمل پیرا نہیں ہوگی تو وہ کبھی بھی عروج اور ترقی کی منازل طے نہیں کر سکے گی۔
اس اصول اور ضابطہ کے مطابق مسلمانوں کے عروج اور ترقی کے دور میں ان لوگوں کو ہی آگے لایا جاتا تھا اور انہیں عہدے اور مناسب ملتے تھے جو قرآنی علوم میں ماہر ہوتے تھے اپنے علم قرآن کے بل بوتے پر ایک آزاد کردہ غلام مکہ کے گورنر کا جانشین بنا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس پر اعتراض کو واپس لے لیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سنائی لیکن حدیث میں (أَقْوَامًا)
کا لفظ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ عروج وزوال کے اس الٰہی فیصلہ اور قانون کا تعلق افراد واشخاص سے نہیں ہے بلکہ قوموں اور امتوں سے ہے اور اسلام اور مسلمانوں کی پوری تاریخ اس حدیث کی صداقت کی آئینہ دار ہے کہ جب مسلمانوں نے اپنا تعلق اور رابطہ مجموعی طور پر دین سے جوڑا انہیں سرفرازی اور عروج ملا اور جب ان کا تعلق بحیثیت امت و قوم دین سے ٹوٹا تو وہ انحطاط اور زوال کا شکار ہوئے جس کا آج ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر سکتے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1897