Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
(أبواب كتاب السنة)
(ابواب کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت)
38. بَابُ : فَضْلِ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ
باب: قرآن سیکھنے اور سکھانے والوں کے فضائل و مناقب۔
حدیث نمبر: 213
حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ نَبْهَانَ ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خِيَارُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ"، قَالَ: وَأَخَذَ بِيَدِي فَأَقْعَدَنِي مَقْعَدِي هَذَا أُقْرِئُ.
سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو قرآن سیکھیں اور سکھائیں۔ عاصم کہتے ہیں: مصعب نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے میری اس جگہ پر بٹھایا تاکہ میں قرآن پڑھاؤں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3944، ومصباح الزجاجة: 78)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/فضائل القرآن 2 (3382) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏ (اس حدیث کی سند میں مذکور راوی ''الحارث بن نبہان'' ضعیف ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1172)

وضاحت: ۱؎: عاصم بن بہدلہ: یہ عاصم بن ابی النجود ہیں، جو امام القراء ہیں، اور ان کی قراءت معتمد اور حجت مانی گئی ہے، اس وقت عاصم کی قراءت ہی عام اور مشہور قراءت ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف جدًا
قال البوصيري: ”ھذا إسناد ضعيف لضعف الحارث بن نبھان“ وھو متروك
والحديث السابق (الأصل: 211) يغني عن حديثه
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 382

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 213 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث213  
اردو حاشہ:
(1)
سند میں مذکور عاصم رحمۃ اللہ علیہ قراءت کے مشہور امام ہیں۔

(2)
جس شخص میں کسی اچھے کام کی صلاحیت موجود ہو، اسے اس کام کا مشورہ دینا چاہیے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ اس سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچے اور خود اسے بھی اس نیک کام کی وجہ سے ثواب اور فائدہ حاصل ہو۔

٭ عاصم بن ابونجود:
آپ کوفہ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں پیدا ہوئے۔
حضرت علی بن عبدالرحمٰن سلمی اور زربن حبیش سے قرآن کریم پڑھا، کبار تابعین سے تعلیم حاصل کی اور اپنے استاد محترم علی بن عبدالرحمٰن کے بعد قرآن کریم کی تعلیم دینے کی ذمہ داری سنبھالی۔
اس عرصے میں آپ سے ابوبکر، حفص بن سلیمان اور مفضل بن محمد جیسے عظیم قراء نے قرآنی قراءت کی تعلیم لی۔
آپ انتہائی خوش آواز، قاری قرآن اور بہت زیادہ نماز ادا کرنے والے عابد و زاہد تھے۔
اکثر اوقات گھر سے کسی کام کی غرض سے نکلتے لیکن جب مسجد کے قریب پہنچتے تو یہ کہتے ہوئے نفل ادا کرنے کے لیے مسجد میں داخل ہو جاتے:
ضروریات پوری ہوتی رہیں گی، پہلے نماز پڑھ لیں۔
آپ کا شمار قراءت سبعہ کے مشہور و معروف قرائے کرام میں ہوتا ہے۔
آپ 128 ہجری میں فوت ہوئے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 213