Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے فضائل و مناقب
32. بَابُ : فَضْلِ الأَنْصَارِ
باب: انصار رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب۔
حدیث نمبر: 164
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمُهَيْمِنِ بْنِ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" الْأَنْصَارُ شِعَارٌ، وَالنَّاسُ دِثَارٌ، وَلَوْ أَنَّ النَّاسَ اسْتَقْبَلُوا وَادِيًا، أَوْ شِعْبًا، وَاسْتَقْبَلَتِ الْأَنْصَارُ وَادِيًا لَسَلَكْتُ وَادِيَ الْأَنْصَارِ، وَلَوْلَا الْهِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرَءًا مِنَ الْأَنْصَارِ".
سعد بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انصار «شعار» ہیں ۱؎، اور لوگ «دثار» ہیں ۲؎، اگر لوگ کسی وادی یا گھاٹی میں جائیں اور انصار کسی دوسری وادی میں جائیں تو میں انصار کی وادی میں جاؤں گا، اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار کا ایک فرد ہوتا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4801، ومصباح الزجاجة: 62) (صحیح) (اس کی سند میں عبد المہیمن بن عباس ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طرق وشواہد سے یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحة: 1768)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: «شعار»: بدن سے متصل کپڑا، یعنی میرے قریب تر اور نصرت دین میں خاص الخاص ہیں۔ ۲؎: «دثار»: اوپر پہنا جانے والا کپڑا یعنی ان کے مقابلہ میں دور، نیز اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہجرت اللہ تعالیٰ کے نزدیک معظم اور قابل قدر عمل ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 164 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث164  
اردو حاشہ:
(1)
اس کی سند میں ایک راوی عبدالمہیمن ہے جو ضعیف ہے لیکن یہ حدیث دوسری صحیح سندوں سے صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مروی ہے۔ (صحيح البخاري، كتاب مناقب الانصار، باب قول النبي صلي الله عليه وسلم:
لولا الهجرة لكنت إمرا من الأنصار، حديث: 3779، و صحيح مسلم، كتاب الزكاة، باب اعطاء المولفة قبولبهم علي الاسلام و تصبر من قوي ايمانه، حديث: 1059)

اس لیے یہ حدیث صحیح ہے۔

(2)
یہ ارشاد مبارک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین کے بعد فرمایا تھا۔
غنیمتوں کی تقسیم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بالکل نہیں دیا تھا۔
اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا کہ انصار کی جاں نثاری اور بہادری کا انکار نہیں، لیکن چونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ مقرب اور ایمان میں زیادہ مضبوط ہیں، اس لیے ان کے ایمان پر اعتماد کر کے ان کے بجائے دوسرے افراد کو دیا گیا جنہیں تالیف قلب کی ضرورت تھی۔

(3)
اس ارشاد مبارک سے انصار کا بلند مقام واضح ہوتا ہے اور یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں بھی انصار کو بہت اہمیت حاصل تھی۔

(4)
اس حدیث میں انصار کو شعار اور دوسرے مسلمانوں کو دثار فرمایا گیا ہے۔
شعار اس کپڑے کو کہتے ہیں جو پہننے والے کے جسم سے مس ہوتا ہے اور دثار وہ لباس ہوتا ہے جو شعار کے اوپر پہنا جاتا ہے۔
اس تشبیہ سے مقصود، اس بات کا اظہار تھا کہ انصار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصوص قرب کے شرف سے مشرف ہیں۔

(5)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ہجرت ایک عظیم عمل ہے اسی طرح مہاجرین کی مدد اور نصرت بھی ایک عظیم عمل ہے۔

(6)
مہاجرین کے بعد انصار سب سے افضل ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 164