Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب جَزَاءِ الصَّيْدِ
کتاب: شکار کے بدلے کا بیان
17. بَابُ لُبْسِ السِّلاَحِ لِلْمُحْرِمِ:
باب: محرم کا ہتھیار بند ہونا درست ہے۔
حدیث نمبر: 1844
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" اعْتَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذِي الْقَعْدَةِ، فَأَبَى أَهْلُ مَكَّةَ أَنْ يَدَعُوهُ، يَدْخُلُ مَكَّةَ، حَتَّى قَاضَاهُمْ لَا يُدْخِلُ مَكَّةَ سِلَاحًا إِلَّا فِي الْقِرَابِ".
ہم سے عبیداللہ بن موصلی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اسرائیل نے، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابواسحاق نے بیان کیا اور ان سے براء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی قعدہ میں عمرہ کیا تو مکہ والوں نے آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا، پھر ان سے اس شرط پر صلح ہوئی کہ ہتھیار نیام میں ڈال کر مکہ میں داخل ہوں گے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1844 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1844  
حدیث حاشیہ:
(1)
محرم کے لیے ضرورت کے وقت ہتھیار بند ہونا جائز ہے کیونکہ اگر ایسے حالات میں ہتھیار ساتھ لے جانا جائز نہ ہوتا تو اہل مکہ مسلمانوں سے صلح میں یہ شرط کیوں لگاتے کہ مکہ میں داخل ہوتے وقت ہتھیار ننگے نہ ہوں؟ (2)
اس سے معلوم ہوا کہ محرم حج اور عمرے کے وقت کسی خطرے کے پیش نظر اپنے ساتھ ہتھیار لے جا سکتا ہے اور اس قسم کے حفاظتی اقدامات توکل کے خلاف نہیں ہیں۔
اس سلسلے میں حضرت عکرمہ کے علاوہ وجوب فدیہ کا کوئی بھی قائل نہیں، نیز سلاح سے مراد وہ ہتھیار ہیں جن سے جنگ لڑی جائے۔
جو ہتھیار لباس کی طرح پہنا جاتا ہے اس سے اجتناب کرنا چاہیے جیسا کہ زرہ وغیرہ ہوتی ہے۔
اس سے قتال نہیں کیا جاتا اور یہ قمیص کی طرح ہے۔
محرم آدمی اس کے پہننے سے اجتناب کرے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1844   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 938  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ذی قعدہ والے عمرے کا بیان۔`
براء رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی قعدہ کے مہینہ میں عمرہ کیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 938]
اردو حاشہ: 1؎:
بخاری کی ایک روایت میں ہے ' اعتمر رسول الله ﷺ في ذي القعدة قبل أن يحج مرتين'۔
نبی اکرمﷺ نے حج سے پہلے آپ نے ذوقعدہ میں دومرتبہ عمرہ کیا)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 938   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2699  
2699. حضرت براء بن عازب ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نےکہا: نبی کریم ﷺ نے ذی القعدہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ کیا تو اہل مکہ نے آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا، یہاں تک کہ ان لوگوں نے آپ سے ان شرائط پر صلح کرلی کہ آپ آئندہ سال صرف تین دن مکہ میں قیام فرمائیں گے۔ جب صلح نامہ لکھنے لگے تو لکھا: یہ وہ دستاویز ہے جس پر محمد رسول اللہ ﷺ نے صلح کی ہے۔ مشرکین نے کہا: ہم تواس رسالت کا اقرار نہیں کریں گے۔ اگر ہم یقین ہوکہ آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں تو ہم آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے کبھی نہ روکیں لیکن آپ تو محمد بن عبداللہ ہیں۔ آپ نے فرمایا: میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔ پھر آپ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کا لفظ مٹادو۔ حضرت علی ؓ نے عرض کیا: اللہ کی قسم!میں تو کبھی آپ کانام نہیں مٹاؤں گا۔ تب رسول اللہ ﷺ نے از خود وہ صلح۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2699]
حدیث حاشیہ:
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آنحضرت ﷺ کے رضائی بھائی تھے۔
اس لیے ان کی صاحبزادی نے آپ کو چچا چچا کہہ کر پکارا۔
حضرت زید ؓ نے اس بچی کو اپنی بھتیجی اس لیے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت زید ؓ کو حضرت حمزہ ؓ کا بھائی بنادیا تھا۔
زید ؓ سے آنحضرت ﷺ نے لفظ مولانا سے خطاب فرمایا، مولیٰ اس غلام کو کہتے ہیں جس کو مالک آزاد کردے۔
آپ ﷺ نے حضرت زید کو آزادکرکے اپنا بیٹا بنالیا تھا۔
جب آپ نے یہ لڑکی ازروئے انصاف حضرت جعفر ؓ کو دلوائی تو اوروں کا دل خوش کرنے کے لیے یہ حدیث فرمائی۔
اس حدیث سے حضرت علی ؓ کی بڑی فضیلت نکلی۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا، میں تیرا ہوں، تو میرا ہے۔
مطلب یہ کہ ہم تم دونوں ایک ہی دادا کی اولاد ہیں اور خون ملا ہوا ہے۔
حضرت علی ؓ نے مٹانے اور آپ کا نام نامی لکھنے سے انکار عدول حکمی کے طورپر نہیں کیا، بلکہ قوت ایمانیہ کے جوش سے ان سے یہ نہیں ہوسکا کہ آپ کی رسالت جو سراسر برحق ہے اور صحیح تھی، اس کو اپنے ہاتھ سے مٹائیں۔
حضرت علی ؓ کو یہ بھی معلوم ہوگیا تھا کہ آپ کا حکم بطور وجوب کے نہیں ہے۔
ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ ترجمہ میں صرف فلاں بن فلاں لکھنے پر اقتصار کیا اور زیادہ نسب نامہ خاندان وغیرہ نہیں لکھوایا۔
روایت ہذا میں جو آپ کے خود لکھنے کا ذکر ہے یہ بطور معجزہ ہوگا، ورنہ درحقیقت آپ نبی امی تھے اور لکھنے پڑھنے سے آپ کا کوئی تعلق نہ تھا۔
پھر اللہ نے آپ کو علوم الاولین و الآخرین سے مالا مال فرمایا۔
جو لوگ حضور ﷺ کے امی ہونے کا انکار کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔
امی ہونا بھی آپ کا معجزہ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2699   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1781  
1781. ابو اسحاق سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حضرت مسروق، حضرت عطاء اورحضرت مجاہد ؓ سے دریافت کیا تو انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے حج کرنے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ میں عمرہ کیا۔ انھوں نے کہا: میں نے حضرت براء بن عازب ؓ سے سنا، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے حج کرنے سے پہلے ذوالقعدہ میں دو عمرے کیے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1781]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے رسول اللہ ﷺ کے عمروں کی تعداد کے متعلق حضرت عائشہ، حضرت ابن عمر، حضرت انس اور حضرت براء بن عازب ؓ سے مروی احادیث پیش کی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں چار عمرے کیے ہیں:
پہلا عمرہ چھ ہجری میں ادا کیا جبکہ مشرکین نے آپ کو بیت اللہ جانے سے روک دیا تھا، چنانچہ آپ نے اور صحابۂ کرام ؓ نے مقام حدیبیہ پر ہی احرام کھول دیا تھا۔
اسے بھی عمرہ شمار کیا جاتا ہے۔
دوسرا عمرہ سات ہجری میں ادا فرمایا اور وہ ماہ ذوالقعدہ میں تھا۔
چونکہ یہ عمرہ قریش سے صلح اور ان سے ایک فیصلے کے نتیجے میں ہوا تھا، اس لیے اسے عمرۂ قضا کہتے ہیں۔
یہ نام اس لیے نہیں رکھا گیا کہ اسے بطور قضا ادا کیا تھا جیسا کہ عامۃ الناس میں مشہور ہے۔
تیسرا عمرہ آٹھ ہجری کو ذوالقعدہ میں کیا جب مکہ مکرمہ فتح ہوا اور غزوۂ حنین سے ملنے والا مال غنیمت تقسیم کیا گیا۔
اسے عمرۂ جعرانه کہا جاتا ہے۔
چوتھا عمرہ آپ نے حجۃ الوداع کے ساتھ کیا تھا۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو اشتباہ یا نسیان ہو گیا، اس لیے انہوں نے فرمایا کہ ایک عمرہ ماہ رجب میں ادا کیا، اس کے متعلق حضرت عائشہ ؓ نے تردید کی کہ رسول اللہ ﷺ نے ماہ رجب میں کوئی عمرہ نہیں کیا۔
صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کی بات سن کر حضرت ابن عمر ؓ نے ہاں یا نہیں میں کوئی جواب نہیں دیا بلکہ خاموش ہو گئے۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3036(1253)
اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے بھی حضرت عائشہ ؓ کے موقف سے اتفاق کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ماہ رجب میں کوئی عمرہ ادا نہیں فرمایا۔
حضرت براء بن عازب ؓ کے مطابق آپ نے دو عمرے ادا کیے ہیں۔
دراصل راوی نے وہ عمرہ جو حج کے ساتھ ادا کیا تھا اور جس عمرے سے رسول اللہ ﷺ کو روک دیا گیا تھا، ان دونوں کو شمار نہیں کیا۔
واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تین عمرے ماہ ذوالقعدہ میں کیے تھے اور چوتھا عمرہ حجۃ الوداع کے ساتھ ماہ ذوالحجہ میں ادا کیا تھا۔
حضرت مجاہد سے منصور کی روایت کے مطابق جب حضرت ابن عمر ؓ سے سوال ہوا تو انہوں نے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ نے چار عمرے کیے تھے جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث:
(1775)
میں ہے لیکن ابو اسحاق کی روایت کے مطابق حضرت ابن عمر ؓ نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے دو عمرے کیے تھے۔
حضرت عائشہ ؓ نے تردید فرمائی کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے عمرے کے علاوہ تین عمرے کیے ہیں جیسا کہ سنن ابی داود میں ہے۔
(سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1992)
ان روایات میں تطبیق یوں ہے:
ممکن ہے کہ پہلے حضرت ابن عمر ؓ سے تعداد کے متعلق سوال ہوا ہو، پھر ان سے مہینے کے متعلق دریافت کیا گیا ہو جیسا کہ منصور کی روایت میں ہے۔
حضرت عائشہ ؓ کے متنبہ کرنے پر انہوں نے فرمایا:
آپ نے چار عمرے کیے ہیں لیکن کس مہینے میں کیے ہیں اس کے متعلق سہو ہو گیا ہو جیسا کہ مسند امام احمد میں ہے کہ حضرت عروہ بن زبیر نے ان سے سوال کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کس مہینے میں عمرہ کیا تھا تو انہوں نے بتایا کہ ماہ رجب میں، جس کی حضرت عائشہ ؓ نے تردید فرمائی ہے۔
(مسندأحمد: 143/2) (2)
واضح رہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے چاشت کی نماز کو بدعت کہا ہے، شاید انہیں معلوم نہ ہو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ام ہانی ؓ کے گھر نماز چاشت ادا کی تھی۔
یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے نماز چاشت مسجد کے اندر اجتماعی صورت میں ادا کرنے کو بدعت کہا ہو۔
بہرحال نماز چاشت رسول اللہ ﷺ نے خود بھی پڑھی ہے اور دوسروں کو پڑھنے کی ترغیب بھی دی ہے جیسا کہ ہم آئندہ بیان کریں گے۔
بإذن الله
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1781   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2699  
2699. حضرت براء بن عازب ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نےکہا: نبی کریم ﷺ نے ذی القعدہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ کیا تو اہل مکہ نے آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا، یہاں تک کہ ان لوگوں نے آپ سے ان شرائط پر صلح کرلی کہ آپ آئندہ سال صرف تین دن مکہ میں قیام فرمائیں گے۔ جب صلح نامہ لکھنے لگے تو لکھا: یہ وہ دستاویز ہے جس پر محمد رسول اللہ ﷺ نے صلح کی ہے۔ مشرکین نے کہا: ہم تواس رسالت کا اقرار نہیں کریں گے۔ اگر ہم یقین ہوکہ آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں تو ہم آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے کبھی نہ روکیں لیکن آپ تو محمد بن عبداللہ ہیں۔ آپ نے فرمایا: میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔ پھر آپ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کا لفظ مٹادو۔ حضرت علی ؓ نے عرض کیا: اللہ کی قسم!میں تو کبھی آپ کانام نہیں مٹاؤں گا۔ تب رسول اللہ ﷺ نے از خود وہ صلح۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2699]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ صلح کی دستاویز میں نسب وغیرہ کا بیان کرنا تعین اور رفع ابہام کے لیے ہوتا ہے۔
اگر اس کے بغیر یہ مقصد حاصل ہو جائے تو پھر نسب بیان کرنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ اس حدیث کے مطابق صلح نامے میں صرف محمد بن عبداللہ لکھا گیا۔
فقہاء نے لکھا ہے:
اس طرح کی دستاویز میں والدین، نسب اور قبیلے وغیرہ کا ذکر التباس کی صورت میں ضروری ہے، بسورت دیگر ان کا تحریر کرنا ضروری نہیں۔
(2)
اس روایت کے مطابق حضرت علی ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ قوتِ ایمان کے جوش سے یہ نہ ہو سکا کہ آپ کی رسالت جو سراسر برحق اور صحیح تھی اس کو اپنے ہاتھ سے مٹائیں۔
حضرت علی ؓ کو قرائن سے معلوم ہو گیا تھا کہ آپ کا یہ ارشاد، وجوب کے طور پر نہیں ہے ورنہ یہ ممکن نہ تھا کہ آپ اس کی تعمیل نہ کرتے۔
(3)
واضح رہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر مصلحت کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ نے مشرکین مکہ کی کئی شرائط کو تسلیم کیا۔
آئندہ سال خود مشرکین ہی کو ان غلط شرائط کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔
ہم اس کی تفصیل آئندہ بیان کریں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2699