سنن ابن ماجه
باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے فضائل و مناقب
15. بَابُ : فَضْلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
باب: علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔
حدیث نمبر: 117
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى حَدَّثَنَا الْحَكَمُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، قَالَ: كَانَ أَبُو لَيْلَى يَسْمُرُ مَعَ عَلِيٍّ ، فَكَانَ يَلْبَسُ ثِيَابَ الصَّيْفِ فِي الشِّتَاءِ، وَثِيَابَ الشِّتَاءِ فِي الصَّيْفِ، فَقُلْنَا: لَوْ سَأَلْتَهُ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ إِلَيَّ وَأَنَا أَرْمَدُ الْعَيْنِ يَوْمَ خَيْبَرَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَرْمَدُ الْعَيْنِ، فَتَفَلَ فِي عَيْنِي ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ أَذْهِبْ عَنْهُ الْحَرَّ وَالْبَرْدَ"، قَالَ: فَمَا وَجَدْتُ حَرًّا وَلَا بَرْدًا بَعْدَ يَوْمِئِذٍ، وَقَالَ:" لَأَبْعَثَنَّ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، لَيْسَ بِفَرَّارٍ فَتَشَوَّفَ لَهَا النَّاسُ"، فَبَعَثَ إِلَى عَلِيٍّ فَأَعْطَاهَا إِيَّاهُ.
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں: ابولیلیٰ رات میں علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بات چیت کیا کرتے تھے، اور علی رضی اللہ عنہ گرمی کے کپڑے جاڑے میں اور جاڑے کے کپڑے گرمی میں پہنا کرتے تھے، ہم نے ابولیلیٰ سے کہا: کاش آپ ان سے اس کا سبب پوچھتے تو بہتر ہوتا، پوچھنے پر علی رضی اللہ عنہ نے (جواباً) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے غزوہ خیبر کے موقع پر اپنے پاس بلا بھیجا، اس وقت میری آنکھ دکھ رہی تھی، اور (حاضر خدمت ہو کر) میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری آنکھیں آئی ہوئی ہیں، میں مبتلا ہوں، آپ نے میری آنکھوں میں لعاب دہن لگایا، پھر دعا فرمائی: ”اے اللہ اس سے سردی اور گرمی کو دور رکھ“۔ علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس دن کے بعد سے آج تک میں نے سردی اور گرمی کو محسوس ہی نہیں کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ایسے آدمی کو (جہاد کا قائد بنا کر) بھیجوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، اور اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کرتے ہیں، اور وہ میدان جنگ سے بھاگنے والا نہیں ہے“۔ لوگ ایسے شخص کو دیکھنے کے لیے گردنیں اونچی کرنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو بلایا، اور جنگ کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں دے دیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10213، ومصباح الزجاجة: 49)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/99، 133) (حسن)» (اس کی سند میں محمد بن عبد الرحمن بن أبی لیلیٰ شدید سيء الحفظ ہیں، لیکن حدیث طبرانی میں موجود شواہد کی بناء پر حسن ہے، بعض ٹکڑے صحیحین میں بھی ہیں، ملاحظہ ہو: ا لا ٔوسط للطبرانی: 1/127/1، 222/2)
وضاحت: ۱ ؎: غزوہ خیبر ۷ ھ میں ہوا، اور خیبر مدینہ سے شمال میں شام کی طرف واقع ہے، یہ حدیث بھی مؤید ہے کہ اوپر والی حدیث میں مولیٰ سے دوستی اور محبت مراد ہے، اس میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت کی تصریح فرمائی ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
محمد بن أبي ليلي: ضعيف وضعفه الجمھور كما قال البوصيري (854)
ولحديثه شواھد ضعيفة
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 379
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 117 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث117
اردو حاشہ:
(1)
غزوہ خیبر ہجرت کے ساتویں برس ہوا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کو یہود خیبر پر فتح و کامیابی عطا فرمائی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود سے پیداوار کی نصف کجھوروں پر مزارعت کا معاہدہ کر لیا۔
واضح رہے مقام خیبر مدینہ سے شام کی طرف ہے جو قلعوں اور کجھوروں کی سر زمین ہے۔
(2)
تابعین حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا اس قدر احترام کرتے تھے کہ ایسے سوالات کرنے کی جرأت نہیں کرتے تھے جن کا تعلق براہ راست علم سے نہ ہو، اس لیے انہوں نے جب یہ معلوم کرنا چاہا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ لباس میں موسم کا لحاظ کیوں نہیں رکھتے تو اپنے اس ساتھی کے ذریعے سے پوچھا جو ان سے نسبتاً بے تکلفی رکھتے تھے۔
(3)
یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خاص شرف ہے کہ فوج کی قیادت کے لیے انہیں خاص طور پر طلب کیا گیا۔
(4)
لعاب دہن سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آنکھوں کی بیماری کا دور ہو جانا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل ہے۔
(5)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کامل مومن ہونے کی دلیل ہے جس سے خوارج کی تردید ہو جاتی ہے۔
(6)
یہ واقعہ صحیحین کی روایات سے ثابت ہے۔ دیکھیے: (صحيح البخاري، المغازي، حديث: 4310، وصحيح مسلم، الجهاد، حديث: 120)
تاہم ان میں سردی اور گرمی سے متاثر نہ ہونے کا ذکر نہیں۔
اس کا ذکر صرف زیر بحث روایت میں ہے جس کی سند میں ایک راوی ”محمد بن ابی لیلیٰ“ ضعیف ہے۔
اور امام بوصیری وغیرہ نے صراحت کی ہے کہ جس روایت کے بیان کرنے میں وہ متفرد ہو، وہ قابل حجت نہیں۔
اور گرمی سردی والی بات بیان کرنے میں یہ متفرد ہے، اس لیے روایت کا یہ حصہ صحیح نہیں۔
واللہ أعلم.
(7)
گزشتہ حدیث میں جو مولیٰ کا لفظ آیا تھا اس روایت سے واضح ہوا کہ وہاں محب اور دوست مراد ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 117