Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے فضائل و مناقب
15. بَابُ : فَضْلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
باب: علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔
حدیث نمبر: 115
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ بْنَ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَال لِعَلِيٍّ:" أَلَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى؟".
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ تم میری طرف سے ایسے ہی رہو جیسے ہارون موسیٰ کی طرف سے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/المناقب 9 (3706)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 4 (2404)، (تحفة الأشراف: 3840)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/المناقب 21 (3731)، مسند احمد (1/170، 177، 3/32) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یہ ایک بڑی حدیث کا ٹکڑا ہے (غزوۂ تبوک کی تفصیلات دیکھئے)، بعض منافقوں نے علی رضی اللہ عنہ کو بزدلی کا طعنہ دیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم کو بزدلی کے سبب مدینہ میں چھوڑ گئے، ان کو تکلیف ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکوہ کیا، تب آپ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی، یہ روایت بخاری اور مسلم میں بھی ہے، اور اس میں یہ لفظ زیادہ ہے:  «إلا أنه لا نبي بعدي»  یعنی اتنی بات ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں، یعنی جیسے ہارون علیہ السلام نبی تھے، اس حدیث سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر استدلال صحیح نہیں کیونکہ ہارون موسیٰ علیہ السلام کے بعد موسیٰ کے خلیفہ نہیں تھے بلکہ وہ موسیٰ علیہ السلام کی زندگی ہی میں انتقال کر گئے تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 115 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث115  
اردو حاشہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ ارشاد اس وقت فرمایا تھا، جب نبی علیہ السلام غزوہ تبوک کے لیے تشریف لے گئے اور مدینہ منورہ کے انتظام کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جہاد سے پیچھے رہنے پر افسوس ہوا اور عرض کیا:
کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جاتے ہیں۔
اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا ارشاد فرمایا:
(صحيح البخاري، المغازي، باب غزوه تبوك، حديث: 4416)

(2)
بعض لوگوں نے اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، وہ کہتے ہیں:
حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ تھے اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ہیں۔
اس بنا پر وہ لوگ خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنھم پر اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حق لے لیا۔
در حقیقت یہ محض مغالطہ ہے کیونکہ حضرت ہارون علیہ السلام کی خلافت عارضی تھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں تھی۔
اس طرح غزوہ تبوک میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت عارضی تھی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تھی۔
حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کے خلیفہ نہیں بنے کیونکہ ان کی وفات حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں ہو چکی تھی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کا منصب یوشع بن نون علیہ السلام نے سنبھالا تھا۔
اس حدیث کی روشنی میں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت مستقل تسلیم کر بھی لی جائے تو اس امر کی کوئی دلیل نہیں کہ یہ خلافت بلا فصل ہو گی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 115   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث121  
´علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔`
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے ایک سفر حج میں آئے تو سعد رضی اللہ عنہ ان کے پاس ملنے آئے، لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کیا تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کو نامناسب الفاظ سے یاد کیا، اس پر سعد رضی اللہ عنہ ناراض ہو گئے اور بولے: آپ ایسا اس شخص کی شان میں کہتے ہیں جس کے بارے میں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: جس کا مولیٰ میں ہوں، علی اس کے مولیٰ ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے یہ بھی سنا: تم (یعنی علی) میرے لیے ویسے ہی ہو جیسے ہارون موسیٰ کے ل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 121]
اردو حاشہ:
(1)
حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان بعض اختلافات ہوئے تھے، جن کی وجہ سے بعض مفسدین کی ریشہ دوانیوں سے جنگ و جدل تک نوبت پہنچی۔
یہ محض اجتہادی اختلاف تھا، اس بنا پر ہم لوگوں کے لیے جائز نہیں کہ کسی صحابی کے حق میں زبان طعن دراز کریں۔

(2)
کسی کی عدم موجودی میں اس پر تنقید مناسب نہیں۔

(3)
اگر کسی شخص پر اس کی عدم موجودگی میں تنقید کی جائے تو حاضرین کو چاہیے کہ اس کے حق میں بات کریں اور اس کی خوبیاں ذکر کریں۔

(4)
اس حدیث میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعدد فضائل مذکور ہیں۔
جن میں سے بعض کی تفصیل گزشتہ احادیث میں بیان ہو چکی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 121   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:71  
71- سعید بن مسیّب بیان کرتے ہیں: مجھ تک سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے حوالے سے منقول ایک روایت پہنچی تو میں سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے ملا انہوں نے مجھے یہ حدیث سنائی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے یہ فرمایا تھا۔ کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ تمہاری مجھ سے وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:71]
فائدہ:
اس حدیث میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی زبردست فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اس حدیث کا مفصل سبب ورود (صحیح البخاری: 4416) میں وارد ہوا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث اس وقت بیان فرمائی تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک کے لیے تشریف لے گئے تھے، اور مدینہ منورہ میں عورتوں اور بچوں کی حفاظت کے لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا تھا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو جہاد سے پیچھے رہنے کا افسوس ہوا تو وہ کہنے لگے: (اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!) آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جاتے ہیں، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ ارشادفرمایا تھا۔ بعض لوگوں کا اس حدیث سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا خلیفہ بلا فصل ثابت کرنا باطل و مردود ہے، کیونکہ مقیس علیہ سیدنا ہارون علیہ السلام ہیں، ان کی خلافت عارضی تھی اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی زندگی ہی میں تھی۔ اسی طرح مقیس سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بھی عارضی تھی اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تھی۔ اگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بلا فصل تسلیم کیا جائے تو قرآن و حدیث اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر بہتان لازم آتا ہے، بس اللہ تعالیٰ گمراہ فرقوں کو ہدایت دے، آمین۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 71   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6217  
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتےہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:"تم میرے ایسے ہو،جیساکہ موسیٰ ؑ کےلیے ہارون تھے،مگر یہ بات ہے،میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔"حضرت سعید کہتے ہیں،یہ روایت میں نے عامر بن سعد سے سنی تھی،اس لیے میں نے چاہا کہ یہ روایت میں حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روبروسن لوں،سو میری ملاقات حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوئی تو میں نے انہیں،عامر کی حدیث سنائی،انھوں نے کہا،میں نے یہ سنی ہے،پھر میں نے کہا،کیا آپ نے سنی ہے؟تو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6217]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
انت مني بمنزلة هارون من موسيٰ:
تیرا میرے ساتھ وہی مقام ہے،
جو ہارون کا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھا،
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ تبوک کے لیے نکلے تو پیچھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ مقرر کیا،
جیسا کہ آپ غزوات کے لیے جاتے وقت کسی نہ کسی کو خلیفہ بنا کر جاتے تھے اور آپ نے حضرت علی کو یہاں صرف اپنے اہل و عیال کی دیکھ بھال کے لیے چھوڑا تھا،
مدینہ کا گورنر کسی اور کو بنایا تھا،
اس لیے منافقوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر طعنہ زنی کی،
تو وہ آپ کے پیچھے روانہ ہو گئے اور راستہ میں جا ملے تو آپ نے انہیں یہ الفاظ فرما کر واپس مدینہ بھیج دیا کہ کیا تم اس بات سے راضی نہیں کہ مجھ سے تمہیں وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی اور ظاہر ہے ہارون علیہ السلام،
موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ اس وقت تک کے لیے تھے،
جب وہ طور پر گئے تھے،
گویا وہ موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں خلیفہ بنے،
ان کی وفات کے بعد جانشین نہیں بنے،
کیونکہ وہ تو موسیٰ علیہ السلام کی زندگی ہی میں فوت ہو گئے تھے،
اس لیے شیعی فرقوں کا اس حدیث سے یہ استدلال کرنا باطل ہے کہ آپ کے بعد خلافت حضرت علی کا حق تھا،
جو نعوذباللہ صحابہ نے غصب کر کے دوسروں کو خلیفہ بنا دیا۔
(2)
الا انه لا نبي بعدي:
مگر واقعہ یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں،
آپ نے یہ تصریح اس لیے فرمائی،
تاکہ ہارون سے تشبیہ دینے سے کوئی اس وہم کا شکار نہ ہو جائے کہ حضرت علی بھی نبی ہیں اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کی نبوت کا امکان باقی نہ رہا۔
(3)
فاستكتا:
وہ دونوں بہرے ہو جائیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6217   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6220  
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے عامر اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں،حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امیرمقررکیا تو پوچھا،تمہیں ابوتراب کو خطاکاردینے سے کون سی چیزروکتی ہے؟توانھوں نے جواب دیا:جب تک مجھے وہ تین باتیں یاد ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان(حضر ت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے کہی تھیں،میں ہرگز انھیں برا نہیں کہوں گا۔ان میں سے کوئی ایک بات بھی میرے لئے ہوتو وہ مجھے سرخ اونٹوں سے زیادہ پسند ہوگی،میں نے رسول اللہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6220]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
تطاولنا:
ہم بلند ہوئے،
گردنیں اٹھائیں،
تمنا اور آرزو کی،
مقصد یہ ہے کہ ہم آپ کے سامنے نمایاں ہوئے،
تاکہ آپ کی نظر ہم پر پڑ جائے اور یہ سعادت ہمیں حاصل ہو جائے۔
(2)
أرمد:
آشوب چشم والا،
اس کی آنکھیں دکھتی ہوں۔
(3)
اللهم هؤلاء اهل بيتي:
اے اللہ یہ میرے گھر والے ہیں،
میرے اہل بیت ہیں،
اصولی رو سے انسان کا اہل بیت اس کی بیوی ہے،
اس لیے آپ کا اہل بیت آپ کی ازواج مطہرات ہیں اور عرف و لغت کی رو سے،
اس کا اطلاق بیوی پر ہوتا ہے،
جیسا کہ قرآن مجید میں،
حضرت ابراہیم کی بیوی کو اہل بیت سے خطاب کیا گیا ہے،
دوسرا کوئی بالطبع اور ثانوی طور پر اس میں داخل ہو سکتا ہے اور آپ کی دعا کے نتیجہ میں جیسا کہ ترمذی شریف کی روایت ہے،
مذکورہ افراد بھی اہل بیت میں داخل ہیں۔
فوائد ومسائل:
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے،
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھا،
ما منعك أن تسب أبا تراب؟؟ ابو تراب پر تنقید و تبصرہ اور ان کے موقف کی تغلیط کرنے سے تمہیں کیا چیز مانع ہے،
سب کا لفظ جس طرح گالی گلوچ اور بد کلامی کے لیے آتا ہے،
اس طرح کسی غلط کام کرنے والے کو روکنے ٹوکنے اور اس کو سرزنش توبیخ کرنے کے لیے بھی آتا ہے،
جیسا کہ غزوہ تبوک کے موقعہ پر جب آپ نے راستہ میں صحابہ کرام کو فرمایا کہ کل کافی دن چڑھے تم تبوک کے چشمہ پر پہنچو گے تو پہنچنے کے بعد اس سے کوئی انسان پانی نہ پیے،
لیکن دو آدمیوں نے پانی پی لیا تو آپ نے ان کی اس حرکت کی تغلیط کی اور ان پر نقدوتبصرہ فرمایا،
اس کے لیے یہ لفظ استعمال ہوا ہے کہ فسبهما النبی صلی الله عليه وسلم،
اسی طرح آگے امام نووی نے باب باندھا ہے،
من لعنه النبی صلی الله عليه وسلم،
جس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے یا سب کیا ہے،
اس کے تحت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمی آئے،
انہوں نے کسی مسئلہ پر آپ سے گفتگو کی،
جس سے آپ ناراض ہو گئے اور غصہ میں ان کو لعنهما و سبهما،
ان پر لعنت بھیجی اور ان پر تنقید و تبصرہ فرمایا،
ان کو سرزنش و توبیخ فرمائی،
اس طرح حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ تم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فعل اور رائے کو غلط قرار دے کر،
ان پر تنقید و تبصرہ کیوں نہیں کرتے تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا،
جو ان فضائل اور خوبیوں کا حامل ہے،
میں اس پر تنقید و تبصرہ نہیں کر سکتا اور ان کی رائے اور موقف کو ہدف تنقید نہیں بنا سکتا اور ان پر طعن و ملامت نہیں کر سکتا،
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ان کو سب و شتم اور گالی گلوچ کس طرح کوا سکتے ہیں،
جبکہ وہ ان کے فضائل و کمالات کے معترف ہیں،
جب حضرت علی رضی اللہ عنہ فوت ہوئے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ان کی موت پر روئے،
ان کی بیوی نے پوچھا،
اس سے جنگ بھی کرتے ہو اور روتے بھی ہو؟ تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا،
تم پر افسوس،
تمہیں معلوم نہیں ہے کہ لوگ کس قدر علم،
فقہ اور فضل سے محروم ہو گئے ہیں،
(البدایۃ والنہایۃ ج 8 ص 13)
اور جب ضرار الصدائی نے حضرت معاویہ کے روبرو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب بیان کیے،
تو حضرت معاویہ رو پڑے اور کہنے لگے،
رحم الله ابا الحسن،
كان والله كذالك:
اللہ تعالیٰ ابو الحسن پر رحمت فرمائے،
وہ انہیں خوبیوں اور صفات کے حامل تھے،
(الاستیعاب لابن عبدالبر ج 3 ص 43-44)
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6220   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4416  
4416. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ تبوک کی طرف تشریف لے جانے لگے تو آپ نے مدینہ منورہ میں حضرت علی ؓ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا۔ انہوں نے عرض کی: آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑ کر جاتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ میرے پاس تمہارا وہی درجہ ہو جو موسٰی ؑ کے ہاں ہارون ؑ کا تھا۔ صرف اتنا فرق ہے کہ میرے بعد کوئی دوسرا نبی نہیں ہو گا۔ ابو داود نے اس حدیث کو ایک دوسری سند سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4416]
حدیث حاشیہ:
غزوئہ تبوک کی وجہ یہ ہوئی کہ رسول کریم ﷺ کو یہ خبرپہنچی تھی کہ روم کے نصاریٰ مسلمانوں سے لڑنے کی تیاری کررہے ہیں اور عرب کے بھی کئی قبائل لخم جذام وغیرہ کو وہ اپنے ساتھ ملا رہے ہیں۔
یہ خبر سن کر آنحضرت ﷺ نے خود پیش قدمی کرنے کا فیصلہ فرمایا تاکہ نصاریٰ کو مسلمانوں کی تیاریوں کا علم ہوجائے اور وہ خود لڑائی کا خیال چھوڑ دیں اور جنگ نہ ہونے پائے۔
اس جنگ میں حضرت عثمان ؓ نے دو سو اونٹ معہ سامان کے مسلمانوں کے لیے پیش فرمائے تھے۔
جس پرآنحضرت ﷺ نے خوش ہوکر فرمایا کہ اب عثمان ؓ جیسے بھی عمل کریں ان کے لیے رضائے الٰہی واجب ہوچکی ہے۔
روایت میں حضرت علی ؓ کی فضیلت کا بھی ذکر ہے۔
آنحضرت ﷺ نے ان کو اپنے لیے ایسا ہی معاون قرار دیا جیسے حضرت ہاروں ؑ حضرت موسیٰ ؑ کے معاون تھے۔
اس سے حضرت علی ؓ کی خلافت بلا فصل پر دلیل پکڑنا غلط ہے۔
کیونکہ حضرت ہارون ؑ کو موسوی خلافت نہیں ملی۔
وہ حضر ت موسیٰ ؑ سے پہلے ہی انتقال کرچکے تھے۔
حضرت موسیٰ ؑ نے صرف طور پر جاتے وقت حضرت ہاروں ؑ کو اپنا جانشین بنایا تھا۔
ایسا ہی آنحضرت ﷺ نے جنگ تبوک میں جاتے وقت حضرت علی ؓ کو مدینہ میں اپنا جانشین بنایا۔
بس اس مماثلت کا تعلق صرف اسی حد تک ہے۔
ا س ارشاد نبوی ﷺ کا مفہوم خود حضرت علی ؓ نے بھی یہ نہیں سمجھا تھا جو شیعہ حضرات نے سمجھا ہے۔
اگر حضرت علی ؓ ایسا سمجھتے تو خود کیونکر حضرت ابوبکر ؓ کے دست حق پر بیعت کرکے ان کو خلیفہ برحق سمجھتے۔
حدیث ھذا سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ آخری نبی ہیں۔
آپ کے بعد رسالت ونبو ت کا سلسلہ قیامت تک کے لیے بند ہوچکا ہے۔
اب جو بھی کسی بھی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا دجال ہے، خواہ وہ کیسی ہی اسلام دوستی کی بات کرے، وہ غدار ہے مکار ہے۔
تخت نبوت کا باغی ہے۔
ہر کلمہ گو مسلمان کا فرض ہے کہ ایسے مدعی کا منہ توڑمقابلہ کر کے ناموس رسالت کے تحفظ کے لیے اپنی پوری پوری جد وجہد کرے۔
اس دور آخر میں فرقہ قادیانیہ ایک ایسا ہی باطل پر ست فرقہ ہے جو پنجاب کے قصبہ قادیان کے ایک شخص مسمیٰ مرزاغلام احمد کے لیے نبوت کا مدعی ہے اور جس نے دجل ومکر پھیلانے میں ہو بہو دجال کی نقل کی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4416   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3706  
3706. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: کیا تم اس امر پر خوش نہیں ہوکہ تم میرے لیے ایسے قائم مقام ہوجیسے حضرت ہارون ؑ حضرت موسیٰ ؑ کے جانشین تھے؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3706]
حدیث حاشیہ:
یعنی حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارون ؑ کا جیسا نسبی رشتہ ہے ایسا ہی مرا اور تمہارا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3706   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3706  
3706. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: کیا تم اس امر پر خوش نہیں ہوکہ تم میرے لیے ایسے قائم مقام ہوجیسے حضرت ہارون ؑ حضرت موسیٰ ؑ کے جانشین تھے؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3706]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں اس حدیث کا سبب درد بیان ہوا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ جنگ تبوک پر گئے تو حضرت علی ؓ کو ساتھ نہیں لے گئے بلکہ انھیں گھر میں کام کاج کے لیے رہنے دیا۔
وہ منافقین کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر رسول اللہ ﷺ کو راستے میں جاملے اور کہا:
آپ نے مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑدیا ہے۔
اس وقت رسول اللہ ﷺ نے ان کی تسلی کے لیے مذکورہ ارشادفرمایا۔
اس روایت میں آپ نے فرمایا:
میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4416)
واضح رہےکہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں گھر کی جانشینی،خلافت امت کا تقاضا نہیں کر تی کیونکہ گھر کی دیکھ بھال سے انسان حاکم نہیں بن سکتا،نیزحضرت ہارون ؑ سیدنا موسیٰ ؑ سے پہلے وفات پاگئے تھے،اس لیے اس پر قیاس بھی صحیح نہیں۔
اس غزوے میں امامتِ صلاۃ کے لیے حضرت عبداللہ بن ام مکتوم ؓ کومقررفرمایا۔
اگراتنی سی بات خلافت کے لیے کافی ہوتی توابن مکتوم خلافت کے حقدار ہوتے،لیکن ایسا نہیں ہوا۔
بہرحال اس حدیث سے خلافت بلافصل ثابت نہیں ہوتی۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3706   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4416  
4416. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ تبوک کی طرف تشریف لے جانے لگے تو آپ نے مدینہ منورہ میں حضرت علی ؓ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا۔ انہوں نے عرض کی: آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑ کر جاتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ میرے پاس تمہارا وہی درجہ ہو جو موسٰی ؑ کے ہاں ہارون ؑ کا تھا۔ صرف اتنا فرق ہے کہ میرے بعد کوئی دوسرا نبی نہیں ہو گا۔ ابو داود نے اس حدیث کو ایک دوسری سند سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4416]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے شیعہ حضرات نے حضرت علی ؓ کے لیے خلافت بلافصل کا استدلال کیا ہے جوکئی لحاظ سے محل نظر ہے۔
۔
حضرت ہارون ؑ حضرت موسیٰ ؑ سے پہلے ہی فوت ہوچکے تھے، اس لیے خلافت کا قیاس صحیح نہیں۔
۔
حضرت علی ؓ کو دنیوی معاملات اور گھریلو دیکھ بھال کے لیے جانشین نامزد کیا تھا جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں اور دیگر گھریلوخواتین کو بلا کرتلقین کی کہ علی کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا۔
۔
حضرت ابوبکرصدیق ؓ کی خلافت پرتمام صحابہ کرام ؓ کا اجماع ہوا حتی کہ حضرت علی ؓ نے بھی بالآخر بیعت کرکے اس اجماع کوقبول کرلیا۔
۔
احادیث میں واضح طور پر ایسے ارشادات ملتے ہیں کہ آپ کے بعد حضرت ابوبکر ؓ کا خلیفہ بننا آپ کی مرضی کے عین مطابق تھا۔
واللہ اعلم۔

اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ آخری نبی ہیں۔
آپ کے بعد رسالت ونبوت کا دروازہ قیامت تک کے لیے بند ہوچکا ہے اب جو بھی کسی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ جھوٹا دجال ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4416