سنن ابن ماجه
باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے فضائل و مناقب
13. بَابُ : فَضْلِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
باب: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔
حدیث نمبر: 105
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ أَبُو عُبَيْدٍ الْمَدِينِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ الْمَاجِشُونِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الزَّنْجِيُّ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ خَاصَّةً".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! اسلام کو خاص طور سے عمر بن خطاب کے ذریعہ عزت و طاقت عطا فرما“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17244، ومصباح الزجاجة: 42) (صحیح)» (اس حدیث کی سند میں زنجی بن خالد منکر الحدیث صاحب أوھام راوی ہیں، لیکن حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، حدیث میں «خاصة» کا لفظ متابعت یا شاہد کے نہ ملنے سے ثابت نہیں ہے، ملاحظہ ہو: المشکاة: 6036، وصحیح السیرة النبویة)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله خاصة
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
مسلم بن خالد الزنجي: ضعيف،ضعفه النسائي (الضعفاء: 569) والجمھور وقال البخاري: ”منكر الحديث‘‘ (كتاب الضعفاء بتحقيقي: 352)
وانظر ضعيف سنن أبي داود (3510)
وللحديث شاھد معلول عندالحاكم (3/ 83 ح 4485)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 379
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 105 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث105
اردو حاشہ:
(1)
یہ روایت سنداً ضعیف ہے، تاہم شواہد کی بنا پر صحیح ہے، لیکن اس روایت میں مذکور لفظ (خاصۃ)
صحیح نہیں ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے اسی حدیث کی تحقیق و تخریج۔
(2)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ 6 نبوت یعنی ہجرت سے سات سال پہلے کا ہے دیکھیے: (الرحیق المختوم، از مولانا صفی الرحمن مبارکپوری، ص: 145)
جب کہ اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر تقریبا ایک برس کی ہو گی، اس لیے اگر یہ دعا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے متعلق ہے، تو ظاہر ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی، کسی اور صحابی سے یہ حدیث سنی ہو گی۔
لیکن اس بنا پر اس حدیث کو ضعیف نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس صورت میں یہ مراسیل صحابہ میں شمار ہو گی جو محدثین کے نزدیک صحیح ہے۔
لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ دعا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے لیے نہ ہو۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا اس زمانے میں فرمائی ہو جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں آ چکی تھیں اور اس طرح انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست سنی ہو۔
اس صورت میں اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آئندہ زندگی کے کارہائے نمایاں مراد ہوں گے، جن میں روم و ایران جیسی طاقت ور کافر حکومتوں کی شکست، اور اسلامی سلطنت کی حیرت انگیز حد تک توسیع بھی شامل ہے۔
(3)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے دعا کرنا، ان کی فضیلت کی واضح دلیل ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 105