سنن ابن ماجه
كتاب السنة
کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت
9. بَابٌ في الإِيمَانِ
باب: ایمان کا بیان۔
حدیث نمبر: 70
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ فَارَقَ الدُّنْيَا عَلَى الْإِخْلَاصِ لِلَّهِ وَحْدَهُ، وَعِبَادَتِهِ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، مَاتَ وَاللَّهُ عَنْهُ رَاضٍ"قَالَ أَنَسٌ: وَهُوَ دِينُ اللَّهِ الَّذِي جَاءَتْ بِهِ الرُّسُلُ وَبَلَّغُوهُ عَنْ رَبِّهِمْ قَبْلَ هَرْجِ الْأَحَادِيثِ، وَاخْتِلَافِ الْأَهْوَاءِ، وَتَصْدِيقُ ذَلِكَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فِي آخِرِ مَا نَزَلَ يَقُولُ اللَّهُ: فَإِنْ تَابُوا سورة التوبة آية 5 قَالَ: خَلَعُوا الْأَوْثَانِ وَعِبَادَتِهَا وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ سورة التوبة آية 5، وَقَالَ فِي آيَةٍ أُخْرَى: فَإِنْ تَابُوا، وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ، وَآتَوْا الزَّكَاةَ، فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے دنیا کو اس حال میں چھوڑا کہ خالص اللہ واحد کی عبادت کرتا رہا، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا، نماز قائم کی، اور زکاۃ ادا کی، تو اس کی موت اس حال میں ہو گی کہ اللہ اس سے راضی ہو گا“۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا: یہی اللہ کا دین ہے جس کو رسول لے کر آئے، اور اپنے رب کی طرف سے اس کی تبلیغ کی، اس سے پہلے کہ دین میں لوگوں کی باتوں اور طرح طرح کی خواہشوں کی ملاوٹ اور آمیزش ہو۔ اور اس کی تصدیق اللہ کی کتاب میں سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورۃ (براءۃ) میں موجود ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «فإن تابوا وأقاموا الصلاة وآتوا الزكاة» الآية، یعنی: ”اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم کریں، اور زکاۃ ادا کریں“ (سورۃ التوبہ: ۵)۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا: یعنی بتوں کو چھوڑ دیں اور ان کی عبادت سے دستبردار ہو جائیں، اور نماز قائم کریں، زکاۃ دیں (تو ان کا راستہ چھوڑ دو)۔ اور دوسری آیت میں یہ ہے: «فإن تابوا وأقاموا الصلاة وآتوا الزكاة فإخوانكم في الدين» یعنی: ”اگر وہ توبہ کریں، نماز قائم کریں، زکاۃ دیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں“ (سورۃ التوبہ: ۱۱) ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 832، ومصباح الزجاجة: 25) (ضعیف)» (سند میں ابو جعفر الرازی اور ربیع بن انس ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎: پوری آیت اتنی ہی ہے جو اوپر گذری، اللہ تعالیٰ اس میں مشرکوں کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اگر وہ توبہ کے بعد نماز و زکاۃ ادا کریں تو تمہارے بھائی ہیں، اور خلاصہ حدیث یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو توحید سکھانے کے لئے بھیجا ہے، اور دین کا دارومدار توحید و اخلاص پر ہے، اور نماز و زکاۃ ظاہری اعمال صالحہ میں سب سے اہم اور بنیادی رکن ہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
ضعيف
أبو جعفر الرازي ضعيف عن الربيع بن أنس وحسن الحديث عن غيره (انظر ضعيف سنن أبي داود: 1182)
والربيع ھذا حسن الحديث في غير رواية أبي جعفر الرازي
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 377
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 70 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث70
اردو حاشہ:
(1)
پہلی آیت کے مکمل الفاظ یہ ہیں:
﴿إِذَا انسَلَخَ الأَشهُرُ الحُرُمُ فَاقتُلُوا المُشرِكينَ حَيثُ وَجَدتُموهُم وَخُذوهُم وَاحصُروهُم وَاقعُدوا لَهُم كُلَّ مَرصَدٍ فَإِن تابوا وَأَقامُوا الصَّلوةَ وَءاتَوُا الزَّكوةَ فَخَلّوا سَبيلَهُم إِنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ﴾ (التوبہ: 5)
”پھر جب حرمت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو، انہیں گرفتار کرو، ان کا محاصرہ کرو، ان کی تاک میں ہر گھات میں جا بیٹھو۔ (لیکن)
اگر وہ توبہ کر لیں، نماز کے پابند ہو جائیں اور زکاۃ ادا کرنے لگیں تو ان کی راہ چھوڑ دو یقینا اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“
اس کی وضاحت حضرت انس نے یوں کی ہے کہ توبہ سے مراد شرک سے توبہ ہے۔
(2)
ان آیات سے معلوم ہوا کہ کسی قوم کو مسلمان اس وقت تسلیم کیا جا سکتا ہے جب وہ توحید و رسالت کے اقرار کے ساتھ ساتھ عملی مسائل یعنی نماز اور زکاۃ کو بھی اختیار کریں۔
انکار کی صورت میں انہیں کافر قرار دے کر جہاد کیا جائے گا جس طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسی آیت سے استدلال کر کے مانعین زکاۃ کے خلاف جہاد کیا تھا۔
(3)
یہ روایت تو ضعیف ہے لیکن اس میں بیان کردہ باتوں کی تائید صحیح روایات سے ہوتی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 70