سنن ابن ماجه
كتاب السنة
کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت
9. بَابٌ في الإِيمَانِ
باب: ایمان کا بیان۔
حدیث نمبر: 60
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا خَلَّصَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ مِنِ النَّارِ وَأَمِنُوا، فَمَا مُجَادَلَةُ أَحَدِكُمْ لِصَاحِبِهِ فِي الْحَقِّ، يَكُونُ لَهُ فِي الدُّنْيَا أَشَدَّ مُجَادَلَةً مِنَ الْمُؤْمِنِينَ لِرَبِّهِمْ فِي إِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ أُدْخِلُوا النَّارَ، قَالَ: يَقُولُونَ: رَبَّنَا إِخْوَانُنَا كَانُوا يُصَلُّونَ مَعَنَا، وَيَصُومُونَ مَعَنَا، وَيَحُجُّونَ مَعَنَا فَأَدْخَلْتَهُمُ النَّارَ، فَيَقُولُ:" اذْهَبُوا فَأَخْرِجُوا مَنْ عَرَفْتُمْ مِنْهُمْ فَيَأْتُونَهُمْ، فَيَعْرِفُونَهُمْ بِصُوَرِهِمْ، لَا تَأْكُلُ النَّارُ صُوَرَهُمْ، فَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ النَّارُ إِلَى أَنْصَافِ سَاقَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ إِلَى كَعْبَيْهِ، فَيُخْرِجُونَهُمْ، فَيَقُولُونَ: رَبَّنَا أَخْرَجْنَا مَنْ قَدْ أَمَرْتَنَا، ثُمَّ يَقُولُ: أَخْرِجُوا مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ وَزْنُ دِينَارٍ مِنَ الْإِيمَانِ، ثُمَّ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ وَزْنُ نِصْفِ دِينَارٍ، ثُمَّ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ"، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَمَنْ لَمْ يُصَدِّقْ هَذَا فَلْيَقْرَأْ إِنَّ اللَّهَ لا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا سورة النساء آية 40.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ مومنوں کو جہنم سے نجات دیدے گا، اور وہ امن میں ہو جائیں گے تو وہ اپنے ان بھائیوں کی نجات کے لیے جو جہنم میں داخل کر دئیے گئے ہوں گے، اپنے رب سے ایسی بحث و تکرار کریں گے ۱؎ کہ کسی نے دنیا میں اپنے حق کے لیے اپنے ساتھی سے بھی ویسا نہیں کیا ہو گا“۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ عرض کریں گے: اے ہمارے رب! یہ ہمارے بھائی ہیں جو ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے، روزہ رکھتے تھے، اور حج کرتے تھے، تو نے ان کو جہنم میں داخل کر دیا! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ”جاؤ ان میں سے جنہیں تم پہچانتے ہو نکال لو“، وہ مومن ان جہنمیوں کے پاس آئیں گے، اور انہیں ان کے چہروں سے پہچان لیں گے، آگ ان کی صورتوں کو نہیں کھائے ہو گی، کسی کو آگ نے اس کی آدھی پنڈلیوں تک اور کسی کو ٹخنوں تک پکڑ لیا ہو گا، پھر وہ مومن ان کو جہنم سے نکالیں گے اور عرض کریں گے: اے ہمارے رب! جن کو تو نے نکالنے کا حکم دیا تھا ہم نے ان کو نکال لیا، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جس شخص کے دل میں ایک دینار کے برابر ایمان ہو اس کو بھی جہنم سے نکال لو، پھر جس کے دل میں آدھا دینار کے برابر ایمان ہو، پھر جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو“۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جس کو اس پر یقین نہ آئے وہ اس آیت کو پڑھ لے: «إن الله لا يظلم مثقال ذرة وإن تك حسنة يضاعفها ويؤت من لدنه أجرا عظيما» یعنی: ”بیشک اللہ تعالیٰ ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا، اور اگر نیکی ہو تو اسے دوگنا کر دیتا ہے، اور اپنے پاس سے بہت بڑا ثواب دیتا ہے“ (سورة النساء: 40) ۲؎۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الإیمان 18 (5013)، (تحفة الأشراف: 4178)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/ الإیمان 15 (22)، الرقاق 51 (6560)، صحیح مسلم/الإیمان 81 (183) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اصرار کے ساتھ سفارش کریں گے۔ ۲؎: اس حدیث سے بھی ایمان کی زیادتی اور کمی کا ہونا ظاہر ہوتا ہے، اور جہنم سے نجات ایمان کی زیادتی اور کمی پر منحصر ہے، نیز صالحین کی شفاعت و سفارش پر۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 60 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث60
اردو حاشہ:
(1)
قیامت کے دن شفاعت کبریٰ تو صرف حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص ہے لیکن دیگر انبیائے کرام علیھم السلام اور مومنین کو بھی درجہ بدرجہ شفاعت کی اجازت دی جائے گی۔
(2)
کوئی نبی یا ولی اپنی مرضی سے کسی گناہ گار کو جہنم سے نجات نہیں دے سکتا بلکہ وہ حضرات اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے اور اپنے گناہ گار بھائیوں کے حق میں درخواست کریں گے، پھر جن کے حق میں اللہ چاہے گا شفاعت قبول فرما کر انہیں جہنم سے نجات دے دے گا۔
(3)
گناہ گار مومن جہنم کی آگ میں اپنے چہروں کی وجہ سے پہچانے جائیں گے کہ یہ مومن ہیں۔
ایک حدیث میں ہے کہ ”نیک مومن گناہ گاروں کو سجدوں کے نشانات سے پہچانیں گے۔“
(صحيح بخاري، الرقاق، باب الصراط جسر جهنم، حديث: 6573)
اس سے نماز کی اہمیت بھی معلوم ہوتی ہے۔
(4)
گناہ گاروں کو جہنم میں ان کے گناہوں کے مطابق کم یا زیادہ عذاب ہو گا۔
(5)
تمام مومنوں کا ایمان برابر نہیں بلکہ کم زیادہ ہوتا رہتا ہے۔
(6)
اللہ کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ کم سے کم ایمان والا بھی نجات پا جائے گا لیکن مشرکین کو نجات نہیں ملے گی، انہوں نے جو نیکیاں خلوص سے کی ہوں گی، ان کا بدلہ یہ ملے گا کہ ان کے عذاب میں تخفیف ہو جائے گی لیکن وہ عذاب دائمی ہوتا رہے گا۔
(7)
اس سے اللہ کا عدل ثابت ہوتا ہے کہ کافروں کو بھی عذاب میں برابر نہیں رکھا جائے گا اور اس کی رحمت بھی ظاہر ہوتی ہے کہ تھوڑی نیکیوں پر زیادہ ثواب مل جائے گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 60
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5013
´ایمان کے گھٹنے بڑھنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی کا دنیاوی حق کے سلسلے میں جھگڑا اس جھگڑے سے زیادہ سخت نہیں جو مومن اپنے رب سے اپنے ان بھائیوں کے سلسلے میں کریں گے جو جہنم میں داخل کر دیے گئے ہوں گے، وہ کہیں گے: ہمارے رب! ہمارے بھائی ہمارے ساتھ نماز ادا کرتے تھے، ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے، ہمارے ساتھ حج کرتے تھے پھر بھی تو نے انہیں جہنم میں ڈال دیا۔ وہ کہے گا: جاؤ اور ان میں سے جنہیں تم جانتے ہو نکال لو، چ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الإيمان وشرائعه/حدیث: 5013]
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اہل ایمان، یعنی مومن سفارش کریں گے۔ ان کی شفاعت برحق ہے، نیز ان کی سفارش قبول ہوگی۔
(2) اس حدیث سے باہم محبت کرنے کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے کہ مومن، اس دن جس مال واولاد کو ئی فائدہ نہیں دیں گے، اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے بارگاہ الہٰی میں جھگڑیں گے۔ اس پر انھیں آمادہ کرنے والی چیز باہمی محبت ہوگی جواللہ تعالی کی رضا کے لیے ایک دوسرے سے کیا کرتے تھے۔
(3) گناہوں اور بداعمالیوں کے تفاوت اور فرق کی بنا پر جہنمیوں کے مابین بھی فرق ہوگا۔ کوئی جہنم کے سخت تر ین طبقے میں اور کوئی اس سے کم تر درجے میں، کچھ لوگوں کو نصف پنڈلیوں تک آگ لگی ہوگی اور کچھ کو ٹخنوں تک۔
(4) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ شرک تمام گناہوں سے بڑا گنا ہ ہے۔ اس سے بڑا گنا ہ کوئی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شرک کسی صورت معاف نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ جتنے کبیرہ گناہ ہیں ان کی معافی ممکن ہے۔ مرنے کے بعد شرک کی معافی ہی نہیں، اس لیے مشرک وکافر ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ جمہور اہل علم نےاسی آیت کریمہ سے استدلال کیا ہے کہ قاتل کی معافی بھی ممکن ہے۔ دیگر کبیرہ گناہوں کی طرح وہ بھی اللہ تعالی کی مشیت کے تحت ہے، اگروہ چاہے تو ناحق قتل کرنے والے قاتل کو بھی معاف فرما دے۔ یہی حق ہے جبکہ حضرت عبد اللہ ؓ ایسے قاتل کی معافی کے قائل نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اس سے رجوع کرلیا تھا لیکن تحقیق کی روشنی میں ان کے رجوع کا اثبات مشکل ہے۔ واللہ أعلم.
(6) ”پہچانیں گے“ گویا آگ ان کے چہروں کو نہیں لگے گی جیسا کہ آئندہ کلام سے معلوم ہو رہا ہے کیونکہ چہرہ تو سجدے کا مقام ہے۔ وہ نمازی ہو ں گے۔ آگ نماز کے مقامات کو نہیں چھوئے گی یا ان میں بگاڑ پیدا نہیں کر سکے گی۔
(7) ”ہم نے نکال لیے“ مقصد یہ ہے کہ ابھی بہت سے اور مومن بھی آگ میں جل رہے ہیں۔ ان کو بھی نکالنے کاحکم صادر فرمایا جائے۔
(8) اما م صاحب کا مقصد ایمان میں کمی بیشی ثابت کرنا ہے جوحدیث سے واضح ہے۔ (دینار کے برابر، نصف دینار کے برابر ذرہ برابر)۔ جو لوگ ایمان میں کمی بیشی کے قائل نہیں، وہ یہ کمی بیشی اعمال کی طرف منسوب کرتے ہیں، حالانکہ وہ خوایمان کو دل ہی سے خالص سمجھتے ہیں۔ اعمال کا اثر تو اعضاء پر ہوگا۔
(9) ”دینار“ سونے کا ایک سکہ تھا جس کا وزن موجودہ دور کے مطابق چار ماشے چار رتی اور گرام کے حساب 4.374 گر ام بنتا ہے۔
10 ذرہ سے مراد غبار کا ذرہ ہے۔بعض نے چیونٹی کا معنیٰ بھی کیا ہے۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5013