سنن ابي داود
أبواب السلام
ابواب: السلام علیکم کہنے کے آداب
182. باب فِي الرَّجُلِ يَسُبُّ الدَّهْرَ
باب: زمانے کو برا بھلا کہنے کی ممانعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 5274
حدثنا محمد بن الصباح بن سفيان , وابن السرح , قالا: أخبرنا سفيان , عن الزهري , عن سعيد عن أبى هريرة , عن النبي صلي الله عليه وسلم: يقول الله عز وجل:" يؤذيني ابن آدم , يسب الدهر , وأنا الدهر بيدي الأمر , أقلب الليل والنهار" , قال ابن السرح , عن ابن المسيب مكان سعيد.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عزوجل فرماتا ہے: ابن آدم (انسان) مجھے تکلیف پہنچاتا ہے، وہ زمانے کو گالی دیتا ہے حالانکہ زمانہ میں ہی ہوں، تمام امور میرے ہاتھ میں ہیں، میں ہی رات اور دن کو الٹتا پلٹتا ہوں“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر سورة الجاثیة 1 (4826)، التوحید 35 (7491)، الأدب 101 (6181)، صحیح مسلم/الألفاظ من الأدب 1 (2246)، (تحفة الأشراف: 13131)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الکلام 1 (3) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (4826) صحيح مسلم (2246)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 5274 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود، تحت الحديث 5274
فوائد ومسائل:
1۔
دور یا زمانے کو برا بھلا کہنا ناجائز ہے دور یا زمانہ تو ہمیشہ سے ایک ہی ہے، البتہ لوگ اپنی بد اعمالیوں کو بھول کر زمانے کی طرف نسبت کرنے لگتے ہیں۔
2: چونکہ اللہ عزوجل زمانے کا خالق اور اس میں تغیروتبدل کرنے والا ہے، اس نسبت سے اس نے اپنے آپ کو دھر سے تعبیر فرمایا ہے، اس سبب کے باوجود یہ کلمہ اللہ کے اسماء یا صفات میں سے نہیں ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5274
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ مبشر احمد رباني حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4826
´زمانے کو برا نہ کہو`
«. . . قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ، وَأَنَا الدَّهْرُ بِيَدِي الْأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ . . .»
”. . . اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں، میرے ہی ہاتھ میں سب کچھ ہے۔ میں رات اور دن کو ادلتا بدلتا رہتا ہوں۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ: 4826]
فوائد و مسائل
زمانہ جاہلیت میں جب مشرکین عرب کو کوئی دکھ، غم، شدت و بلا پہنچتی تو وہ کہتے: «يا خيبة الدهر» یعنی ہائے زمانے کی بربادی! وہ ان افعال کو زمانے کی طرف منسوب کرتے اور زمانے کو برا بھلا کہتے اور گالیاں دیتے حالانکہ ان افعال کا خالق اللہ جل جلالہ ہے تو گویا انہوں نے اللہ تعالیٰ کو گالی دی۔
◈ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے سورہ جاثیہ کی تفسیر میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«كان اهل الجاهليه يقولون انما يهلكنا الليل والنهار وهو الذي يهلكنا يميتنا ويحيينا فقال الله في كتابه وقالوا ما هي الا حياتنا الدنيا نموت ونحيا وما يهلكنا الا الدهر» [تفسیر ابن کثیر: 4/ 109]
” اہل جاہلیت کہتے تھے کہ ہمیں رات اور دن ہلاک کرتا ہے، وہی ہمیں مارتا اور زندہ کرتا ہے۔“ تو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا: ” انہوں نے کہا ہماری زندگی صرف اور صرف دنیا کی زندگی ہے، ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں صرف زمانہ ہی ہلاک کرتا ہے۔ دراصل انہیں اس کی خبر نہیں یہ تو صرف اٹکل پچو سے کام لیتے ہیں۔“
↰ اس آیت کی تفسیر سے معلوم ہوا کہ زمانے کو برا بھلا کہنا اور اپنی مشکلات اور دکھوں کو زمانے کی طرف منسوب کر کے اسے برا بھلا کہنا مشرکین عرب اور دھریہ کا کام ہے۔ دراصل زمانے کو برا بھلا کہنا اللہ تعالیٰ کو برا بھلا کہنا ہے۔
❀ صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«قال الله عز وجل: يؤذيني ابن آدم يسب الدهر، وانا الدهر بيدي الامر اقلب الليل والنهار»
” اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” ابن آدم مجھے اذیت دیتا ہے، وہ زمانے کو گالیاں دیتا ہے اور میں (صاحب) زمانہ ہوں۔ میرے ہاتھ میں معاملات ہیں۔ میں رات اور دن کو بدلتا ہوں۔“ [بخاري، كتاب التفسير: باب تفسير سوره جاثيه: 4826، مسلم: 2246، حميدي: 2/ 468، مسند احمد: 2/ 238، ابوداؤد: 5274]
❀ اسی طرح سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا تسبوا الدهر فان الله هو الدهر»
” زمانے کو برا نہ کہو یقیناً اللہ ہی زمانہ ہے (یعنی زمانے والا ہے)۔“ [مسند ابي يعلي: 10/ 452]
❀ ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں:
«لا يقولن احدكم يا ضيعة الدهر! فان الله هو الدهر»
” ہرگز کوئی یہ نہ کہے: ” ہائے زمانے کی بربادی!“ بے شک اللہ ہی زمانے والا ہے۔“ [حلية الاولياء: 8/ 258]
◈ امام خطابی رحمہ اللہ «انا الدهر» کا معنی بیان کرتے ہیں:
«أنا صاحب الدهر، ومدبر الأمور التي ينسبونها إلى الدهر، فمن سب الدهر عن أجل أنه فاعل هذه الأمور؛ عاد سبه إلى ربه الذي هو فاعلها»
” میں زمانے والا اور کاموں کی تدبیر کرنے والا ہوں، جن کاموں کو یہ زمانے کی طرف منسوب کرتے ہیں (یعنی دن رات کا نظام وغیرہ ابدی ہے خود بخود چل رہا ہے۔ یہ زمانہ ہی مارتا ہے اور زندہ کرتا ہے) جس نے زمانے کو اس بنا پر برا بھلا کہا کہ وہ ان امور کا بنانے والا ہے تو اس کی گالی اس رب کی طرف لوٹنے والی ہے جو ان امور کا بنانے والا ہے۔“ [فتح الباري: 575/16]
↰ لہٰذا زمانے کو برا بھلا کہنا کہ عوام الناس میں رائج ہے کہ زمانہ برا آ گیا ہے، گیا گزرا زمانہ ہے، وقت کا ستیاناس وغیرہ، دراصل اللہ تعالیٰ کو برا بھلا کہنا ہے، کیونکہ سارا نظام عالم اللہ وحدہ لا شریک لہ کے قبضہ قدرت میں ہے، وہی پیدا کرنے والا اور وہی مارنے والا ہے۔ وہی مدبر الامور ہے، منتظم اور سب کی بگڑی بنانے والا گنج بخش، غوث اعظم، داتا، فیض بخش اور دست گیر ہے۔ اس لیے ان امور اور زمانے کو برا کہنا اللہ تعالیٰ کو برا کہنا ہے جو ان کا خالق ہے۔ لہٰذا ایسے کلمات سے اجتناب کرنا چاہیے۔
احکام و مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 26
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 22
´ابن آدم کا اللہ تعالیٰ کو جھٹلانا؟ `
«. . . وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: \" قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ بِيَدِيَ الْأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ \" . . .»
”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: انسان مجھے تکلیف دیتا ہے وہ زمانہ کو برا کہتا ہے اور اس کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں خود ہی زمانہ ہوں میرے ہاتھ میں حکم ہے رات کو دن میں بدلتا ہوں۔“ . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 22]
تخریج الحدیث:
[صحیح بخاری 4826]،
[صحیح مسلم 5863]
فقہ الحدیث
➊ اللہ کو تکلیف دینے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی اس حرکت پر اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہوتا ہے۔
➋ مطلقاً زمانے کو برا کہنا، یعنی گالیاں وغیرہ دینا ممنوع ہے، کیونکہ زمانے کا خالق اللہ تعالیٰ ہے، اس سے یہ مفہوم بھی نکل سکتا ہے کہ اعتراض کرنے والا زمانے کے خالق یعنی اللہ تعالیٰ پر اعتراض کر رہا ہے۔ «معاذ الله»
➌ دہریہ عقائد والے کفار زمانے کو برا کہتے تھے، جیسا کہ قرآن مجید میں ان کا قول منقول ہے:
«وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ»
یعنی ہمیں صرف زمانہ ہی ہلاک کرتا ہے۔ [سورة الجاثيه: 24]
انہی کی پیروی کرتے ہوۓ بعض جاہل عوام زمانے کو برا کہہ بیٹھتے ہیں۔
حالانکہ ایسی حرکتوں سے کلی اجتناب کرنا چاہئے۔ ہر انسان پر فرض ہے کہ وہ ان تمام کاموں سے بچے جن سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔
➍ صرف ایک اللہ ہی مدبر اور متصرف ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ جو لوگ اس کے شریک بنا لیتے ہیں، ان شریکوں سے اللہ پاک ہے۔
➎ بعض روایتوں میں زمانے کی مذمت بھی آئی ہے، مثلاً ایک حدیث میں آیا ہے کہ:
«لا ياتي عليكم زمان إلا الذى بعده أشر منه»
”تم پر جو زمانہ بھی آئے گا اس کے بعد والا زمانہ اس کی بہ نسبت زیادہ شر والا (خراب) ہو گا۔“ [صحيح البخاري: 7068]
ان احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے، کیونکہ اچھا زمانہ ہو یا بظاہر برا زمانہ، سب اللہ کی طرف سے ہے۔ اس میں زمانے کو برا نہیں کہا گیا اور نہ گالیاں دی گئی ہیں۔
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 22
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 13
´زمانے کو برا نہیں کہنا چاہئیے`
«. . . 364- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”لا يقولن أحدكم: يا خيبة الدهر، فإن الله هو الدهر“ . . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ ہائے زمانے کی رسوائی! کیونکہ اللہ ہی زمانہ (بدلنے والا) ہے۔“ . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/0/0: 13]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري فى الادب المفرد 729، من حديث ما لك به بلفظ: ”لا يقولن أحدكم“ إلخ ورواه مسلم فواد 2246، من حديث ابي الزناد به]
تفقه:
➊ زمانے کو برا کہنا گویا الله تعالیٰ پر اعتراض کرنا ہے کیونکہ وہی زمانے کا خالق اور وہی زمانے کا مدبر ہے لہٰذا زمانے کو برا نہیں کہتا چاہئے۔
➋ ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «قال الله عز وجل: يؤذيني ابن آدم، يسب الدهر وأنا الدهر، بيدي الأمر، أقلب الليل والنهار۔» اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مجھے ابن آدم ایذا (تکلیف) دیتا ہے، وہ زمانے کو برا کہتا ہے اور میں زمانہ بدلنے والا ہوں۔ میرے ہی ہاتھ میں اختیار ہے، رات اور دن کو میں ہی تبدیل کر رہا ہوں۔ [صحيح بخاري: 4826، صحيح مسلم: 2246]
◄ اس حدیث سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلے میں پانچ مزید فوائد پیش خدمت ہیں:
① الله کوتکلیف دینے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی اس حرکت پر الله تعالیٰ سخت ناراض ہوتا ہے۔
② مطلقاً زمانے کو برا کہنا یعنی گالیاں وغیرہ دینا ممنوع ہے کیونکہ زمانے کا خالق الله تعالیٰ ہے، اس سے یہ مفہوم بھی نکل سکتا ہے کہ اعتراض کرنے والا زمانے کے خالق یعنی الله تعالیٰ پر اعتراض کر رہا ہے۔ معاذ اللہ
③ دہریہ عقائد والے کفار زمانے کو برا کہتے تھے جیسا کہ قرآن مجید میں ان کا قول منقول ہے: «وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ» یعنی ہمیں صرف زمانہ ہی ہلاک کرتا ہے۔ [45-الجاثيه: 24]
● انھی کی پیروی کرتے ہوئے بعض جاہل عوام زمانے کو برا کہہ بیٹھتے ہیں حالانکہ ہر انسان پر فرض ہے کہ وہ ان تمام کاموں سے بچے جن سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔
④ صرف اللہ ہی مدبر اور متصرف ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ جو لوگ اس کے شریک بنا لیتے ہیں، ان کے شرک اور شریکوں سے السبحانہ و تعالیٰ پاک اور بلند ہے۔
⑤ بعض روایتوں میں زمانے کی مذمت بھی آئی ہے مثلا ایک حدیث میں آیا ہے کہ «لايأتي عليكم زمان إلا والذي بعده أشرمنه۔» تم پر جوز مانہ بھی آئے گا اس کے بعد والا زمانہ اس کی بہ نسبت زیادہ شر والا (خراب) ہوگا۔ [البخاري: 1068]
● تو ان احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ اچھا زمانہ ہو یا بظاہر برا زمانہ، سب الله کی طرف سے ہے۔ اس میں زمانے کو برا نہیں کہا گیا اور نہ گالیاں دی گئی ہیں۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 364
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5862
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا، ”اللہ عزوجل (عزت و جلالت والا) فرماتا ہے، ابن آدم زمانے کو برا کہتا ہے اور زمانے (کا منتظم اور مدبر) میں ہوں، رات، دن کو گردش میں دیتا ہوں۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5862]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جاہلیت کے دور میں عربوں کا یہ عقیدہ تھا کہ موت و حیات اور تباہی و بربادی کا باعث گردش لیل و نہار ہے،
اس لیے جب وہ مصائب و تکالیف،
موت و ناکامی،
تباہی و بربادی،
بیماری اور بڑھاپا وغیرہ سے دوچار ہوتے تو وہ زمانے کو برا بھلا کہتے تھے،
حالانکہ ان مصائب،
حوادث میں زمانے کا کوئی دخل نہیں ہے،
اس طرح یہ برا بھلا کہنا،
درحقیقت ان چیزوں کے خالق کو برا بھلا کہنا ہے،
کیونکہ وہی ان چیزوں کو پیدا کرنے والا ہے،
اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا،
زمانے کو برا بھلا کہنا مجھے برا بھلا کہنا ہے،
کیونکہ یہ کام میں نے کیے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5862
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5863
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عزت و جلالت کا مالک فرماتا ہے، ابن آدم، مجھے تکلیف پہنچاتا ہے، زمانہ کو برا بھلا کہتا ہے، زمانے (کا مدبر، چلانے والا) میں ہوں، لیکن و نہار کو گردش میں دیتا ہوں۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5863]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
انسانی محاورہ کی رو سے کسی کو برا بھلا کہنا اس کے لیے اذیت اور تکلیف کا باعث بنتا ہے،
انسانی جذبات و کیفیات کے لحاظ سے زمانہ کو برا بھلا کہنا،
گویا اللہ تعالیٰ کو اذیت پہنچانے کی سعی لاحاصل کرنا ہے اور اپنے آپ کو اللہ کی پکڑ اور مؤاخذہ کا مورد اور محل بنانا ہے۔
زمانہ میں جو انقلابات اور تغیرات آتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5863
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5867
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی زمانے کو برا بھلا نہ کہے، کیونکہ اللہ ہی زمانہ کو گردش دیتا ہے اور نہ تم میں سے کوئی انگور کو کرم کہے، کیونکہ مجسمہ کرم تو مسلمان آدمی ہے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5867]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
کرم کا معنی جودوسخا اور اخلاق کریمانہ کا اظہار ہے،
جاہلیت کے دور میں لوگ شراب پی کر جودوسخا اور فیاضی کا اظہار کرتے تھے،
اس لیے انگور جس سے شراب بنتی تھی،
کو وہ کرم کا نام دیتے تھے،
لیکن اللہ کے ہاں عزت و تکریم کا حقدار مسلمان انسان ہے،
جس کے دل میں ایمان و تقویٰ موجزن ہے،
اس لیے انگور،
جو ایک حرام چیز شراب کو یاد دلاتا ہے،
اس کو کرم کا نام دینا مناسب نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5867
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4826
4826. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی کا ارشاد گرامی ہے کہ ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے۔ وہ زمانے کو برا بھلا کہتا ہے، حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں۔ میرے ہی ہاتھ میں تمام معاملات ہیں۔ رات اور دن کو میں ہی پھیرتا ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4826]
حدیث حاشیہ:
انسان مجھے ایذا دیتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا معاملہ کرتا ہے جو اگر تمہارے ساتھ کرے تو تمہارے لئے ایذا کا موجب ہو، ورنہ اللہ اس بات سے پاک ہے کہ کوئی اس کو ایذا پہنچا سکے۔
میں زمانہ ہوں یعنی زمانہ تو مرے قابو میں ہے اس کو الٹ پلٹ میں ہی کرتا ہوں۔
وقال الکرماني إني أنا باق أبدا وھو المراد من الدھر۔
واللہ اعلم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4826
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6181
6181. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی کا ارشاد گرامی ہے کہ آدم کے بیٹے زمانے کو گالیاں دیتے ہیں حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں۔ میرے ہی ہاتھ میں رات اور دن ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6181]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں لفظ ید وارد ہوا ہے جس کے ظاہری معنی پر ایمان ویقین لانا واجب ہے۔
تفصیل اللہ کے حوالہ ہے۔
تاویل کرنا طریقہ سلف کے خلاف ہے۔
ہو سکتا ہے کہ جو تاویل ہم کریں وہ خدا کی مراد کے خلاف ہو پس ترجیح نصوص کو ہے نہ کہ تاویل کو (تاریخ اہل حدیث، ص: 284)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6181
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7491
7491. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ”آدم کا بیٹا مجھے تکلیف دیتا ہے۔ وہ زمانے کو برا بھلا کہتا ہے جبکہ میں خود زمانہ ہوں۔ میرے ہی ہاتھ میں تمام کام ہیں۔ میں جس طرح چاہتا ہوں رات اور دن کو پھیرتا رہتا ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7491]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب سے مطابقت ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ نےاس حدیث کو اللہ کا کلام فرمایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7491
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4826
4826. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی کا ارشاد گرامی ہے کہ ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے۔ وہ زمانے کو برا بھلا کہتا ہے، حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں۔ میرے ہی ہاتھ میں تمام معاملات ہیں۔ رات اور دن کو میں ہی پھیرتا ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4826]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ لیل و نہار کا (مقلِّب) (بکسر لام)
اللہ تعالیٰ ہے اس لیے لیل و نہار جو دہرہے وہ (مقلَّب) (بفتحہ لام)
ہوا۔
ظاہر ہے کہ مقلِّب اور مقلَّب ایک نہیں ہو سکتے تو لازمی طور پر(أنا الدّهر)
کے معنی یہ ہوں گے کہ تعالیٰ دہر کا خالق اور مالک ہے۔
2۔
جو لوگ زمانے کو مؤثر حقیقی مانتے ہیں اور خالق دہر پر اعتقاد نہیں رکھتے انھیں دہریہ کہا جاتا ہے یہ لوگ جملہ مصائب و حوادث کو دہر کی طرف منسوب کر کے زمانے کو برا بھلا کہتے ہیں اس حدیث کے ذریعے سے یہ بتایا گیا ہے کہ زمانہ خود مختار نہیں اس میں جو کچھ ہوتا ہے سب اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم اور امر سے ہوتا ہےوہ جو چاہتا ہے اسے کر گزرتا ہے۔
(فَعَّال لِمَا يُرِيد)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4826