صحيح البخاري
كِتَاب جَزَاءِ الصَّيْدِ
کتاب: شکار کے بدلے کا بیان
8. بَابُ لاَ يُعْضَدُ شَجَرُ الْحَرَمِ:
باب: اس بیان میں کہ حرم شریف کے درخت نہ کاٹے جائیں۔
حدیث نمبر: 1832
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ، أَنَّهُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ وَهُوَ يَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلَى مَكَّةَ: ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الْأَمِيرُ، أُحَدِّثْكَ قَوْلًا قَامَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْغَدِ مِنْ يَوْمِ الْفَتْحِ، فَسَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، وَوَعَاهُ قَلْبِي، وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ، إِنَّهُ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، فَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا، وَلَا يَعْضُدَ بِهَا شَجَرَةً، فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ لِقِتَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُولُوا لَهُ: إِنَّ اللَّهَ أَذِنَ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَأْذَنْ لَكُمْ، وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ وَقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ، وَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، فَقِيلَ لِأَبِي شُرَيْحٍ: مَا قَالَ لَكَ عَمْرٌو؟ قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ بِذَلِكَ مِنْكَ يَا أَبَا شُرَيْحٍ، إِنَّ الْحَرَمَ لَا يُعِيذُ عَاصِيًا، وَلَا فَارًّا بِدَمٍ، وَلَا فَارًّا بِخُرْبَةٍ خُرْبَةٌ بَلِيَّةٌ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید مقبری نے، ان سے ابوشریح عدوی رضی اللہ عنہ نے کہ جب عمرو بن سعید مکہ پر لشکر کشی کر رہا تھا تو انہوں نے کہا امیر اجازت دے تو میں ایک ایسی حدیث سناؤں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن ارشاد فرمائی تھی، اس حدیث مبارک کو میرے ان کانوں نے سنا، اور میرے دل نے پوری طرح اسے یاد کر لیا تھا اور جب آپ ارشاد فرما رہے تھے تو میری آنکھیں آپ کو دیکھ رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد اور اس کی ثنا بیان کی، پھر فرمایا کہ مکہ کی حرمت اللہ نے قائم کی ہے لوگوں نے نہیں! اس لیے کسی ایسے شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو یہ جائز اور حلال نہیں کہ یہاں خون بہائے اور کوئی یہاں کا ایک درخت بھی نہ کاٹے لیکن اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتال (فتح مکہ کے موقع پر) سے اس کا جواز نکالے تو اس سے یہ کہہ دو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے اجازت دی تھی، لیکن تمہیں اجازت نہیں ہے اور مجھے بھی تھوڑی سی دیر کے لیے اجازت ملی تھی پھر دوبارہ آج اس کی حرمت ایسی ہی قائم ہو گئی جیسے پہلے تھی اور ہاں جو موجود ہیں وہ غائب کو (اللہ کا یہ پیغام) پہنچا دیں، ابوشریح سے کسی نے پوچھا کہ پھر عمرو بن سعید نے (یہ حدیث سن کر) آپ کو کیا جواب دیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ عمرو نے کہا ابوشریح! میں یہ حدیث تم سے بھی زیادہ جانتا ہوں مگر حرم کسی مجرم کو پناہ نہیں دیتا اور نہ خون کر کے اور نہ کسی جرم کر کے بھاگنے والے کو پناہ دیتا ہے۔ «خربة» سے مراد «خربة بلية» ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1832 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1832
حدیث حاشیہ:
حدیث ہذا میں عمرو بن سعید کی فوج کشی کا ذکر ہے جو خلافت اموی کا ایک حاکم تھا اور حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے مقابلہ پر مکہ شریف میں جنگ کرنے کے لیے فوج بھیج رہا تھا اس موقع پر کلمہ حق بلند کرنے کے لیے حضرت ابوشریح ؓ نے یہ حدیث بیان کی کہ اسے سن کر شاید عمرو بن سعید اپنے اس اقدام سے رک جائے مگر وہ رکنے والا کہاں تھا۔
الٹا حدیث کی تاویل کرنے لگا اور الٹی سیدھی باتوں سے اپنے فعل کا جواز ثابت کرنے لگا جو سراسر اس کا فریب نفس تھا۔
آخر اس نے مکہ شریف پر فوج کشی کی اور حرمت کعبہ کو پامال کرکے رکھ دیا۔
ابوشریح نے اس لیے سکوت نہیں کیا کہ عمرو بن سعید کا جواب معقول تھا بلکہ اس کا جواب سراسر نامعقول تھا بحث تو یہ تھی کہ مکہ پر لشکر کشی اور جنگ جائز نہیں لیکن عمرو بن سعید نے دوسرا مسئلہ چھیڑدیا کہ کوئی حدی جرم کا مرتکب ہو کر حرم میں بھاگ جائے تو اس کو حرم میں پناہ نہیں ملتی۔
اس مسئلہ میں علماءکا اختلاف ہے مگر عبداللہ بن زبیر ؓ نے تو کوئی حدی جرم بھی نہیں کیا تھا۔
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی کنیت ابوبکر ہے، یہ اسدی قریشی ہیں ان کی یہ کنیت ان کے نانا جان حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کی کنیت پر خود آنحضرت ﷺ نے رکھی تھی۔
مدینہ میں مہاجرین میں یہ سب سے پہلے بچے تھے جو1ھ میں پیدا ہوئے۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ان کے کان میں اذان کہی، مقام قبا میں پیدا ہوئے اور ان کی والدہ ماجدہ حضرت اسماءبنت ابی بکر صدیق ؓ ان کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں دعائے برکت کے واسطے لے کر حاضر ہوئیں، آپ ﷺ نے ان کو اپنی گود میں بٹھایا اور دہن مبارک میں ایک کھجور چپا کر اس کا لعاب ان کے منہ میں ڈالا اور ان کے تالو سے لگایا، گویا سب سے پہلے چیز جو ان کے پیٹ میں داخل ہوئی وہ آنحضرت ﷺ کا لعاب مبارک تھا۔
پھر آپ ﷺ نے ان کے لیے دعاءبرکت فرمائی، بالغ ہونے پر یہ بہت ہی بھاری بھرکم بارعب شخصیت کے مالک تھے۔
بکثرت روزہ رکھنے والے، نوافل پڑھنے والے اور حق و صداقت کے علم بردار تھے، تعلقات اور رشتہ کے قائم رکھنے والے، لحاظ و مروت کے پیکر، مجسمہ اخلاق حسنہ تھے۔
ان کی خوبیوں میں سے یہ ہے کہ ان کی والدہ ماجدہ حضرت اسماء ؓ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی صاحبزادی تھیں۔
ان کے نانا ابوبکر صدیق ؓ تھے۔
ان کی دادی صفیہ آنحضرت ﷺ کی سگی پھوپھی ہوئی ہیں اور حضرت عائشہ صدیقہ ان کی خالہ ہیں۔
آٹھ سال کی عمر میں آنحضرت ﷺ کے دست مبارک پر بیعت کی۔
اس جنگ میں جس کا یہاں ذکر ہے حجاج بن یوسف نے ان کو مکہ شریف میں قتل کیا اور 17جمادی الثانی بروز منگل 73ھ میں ان کی لاش کو سولی پر لٹکایا، جس کے کچھ دنوں بعد حجاج بھی بڑی ذلت و خواری کی موت مرا۔
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے لیے 64ھ میں بیعت لی گئی، جس پر بیشتر اہل حجاز، یمن، عراق اور خراسان والوں کا اتفاق تھا۔
حضرت عبداللہ نے اپنی عمر میں آٹھ مرتبہ حج کیا ان سے ایک بڑی جماعت روایت حدیث کرتی ہے۔
مختلف مسائل کا استنباط کے لیے حضرت امام بخاری ؒ اپنی جامع الصحیح میں بہت سے مقامات پر اس حدیث کو لائے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1832
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1832
حدیث حاشیہ:
(1)
مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابو شریح ؓ نے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ کے ارشادات کے وقت میں وہاں موجود تھا اور تم اس وقت موجود نہیں تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے ہمیں یہ پیغام آگے پہنچانے کا حکم دیا جو میں نے تجھے پہنچا دیا۔
(مسندأحمد: 32/4)
اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابو شریح ؓ نے عمرو بن سعید کے اقدام کی موافقت نہیں کی بلکہ بآواز بلند اسے روکنے کی کوشش کی لیکن عمرو بن سعید نے چالاکی سے کام لیتے ہوئے ایک صحیح بات کو غلط مقصد کے لیے استعمال کیا کیونکہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کسی صورت میں نافرمان، تخریب کار یا خون خرابا کر کے بھاگنے والے نہیں تھے۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حرم کے درختوں کو کاٹنا نہیں چاہیے، لیکن اس سے مراد وہ درخت ہیں جو خود بخود وہاں اُگے ہوں۔
اس میں تمام علماء کا اتفاق ہے، البتہ شاخوں سے مسواک وغیرہ بنانا بعض علماء نے جائز قرار دیا ہے۔
اسی طرح حرم کا درخت خود بخود گر گیا ہو تو اس سے فائدہ اٹھانا بھی جائز ہے، نیز پھل دار درخت سے پھل اتارنا جبکہ اس سے درخت کا نقصان نہ ہو یہ بھی جائز ہے۔
اگر حرم میں لوگ درخت اُگائیں یا باغ وغیرہ کاشت کریں تو ان کے استعمال میں بھی کوئی حرج نہیں۔
(فتح الباري: 58/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1832
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 104
´مکہ میں خون ریزی جائز نہیں`
«. . . ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، فَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا، وَلَا يَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً . . .»
”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پہلے) اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا کہ مکہ کو اللہ نے حرام کیا ہے، آدمیوں نے حرام نہیں کیا۔ تو (سن لو) کہ کسی شخص کے لیے جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو جائز نہیں ہے کہ مکہ میں خون ریزی کرے، یا اس کا کوئی پیڑ کاٹے، پھر اگر کوئی اللہ کے رسول (کے لڑنے) کی وجہ سے اس کا جواز نکالے تو اس سے کہہ دو اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اجازت دی تھی، تمہارے لیے نہیں دی اور مجھے بھی دن کے کچھ لمحوں کے لیے اجازت ملی تھی . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 104]
� تشریح:
عمرو بن سعید یزید کی طرف سے مدینہ کے گورنر تھے، انھوں نے ابوشریح سے حدیث نبوی سن کر تاویل سے کام لیا اور صحابی رسول حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو باغی فسادی قرار دے کر مکہ شریف پر فوج کشی کا جواز نکالا حالانکہ ان کا خیال بالکل غلط تھا۔ حضرت ابن زبیر نہ باغی تھے نہ فسادی تھے۔ نص کے مقابلہ پر رائے و قیاس و تاویلات فاسدہ سے کام لینے والوں نے ہمیشہ اسی طرح فسادات برپا کر کے اہل حق کو ستایا ہے۔ حضرت ابوشریح کا نام خویلد بن عمرو بن صخر ہے اور بخاری شریف میں ان سے صرف تین احادیث مروی ہیں۔ 68ھ میں آپ نے انتقال فرمایا رحمہ اللہ و رضی اللہ عنہ۔
چونکہ حضرت عبداللہ بن زبیر نے یزید کی بیعت سے انکار کر کے حرم مکہ شریف کو اپنے لیے جائے پناہ بنایاتھا۔ اسی لیے یزید نے عمرو بن سعید کو مکہ پر فوج کشی کرنے کا حکم دیا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شہید کئے گئے۔ اور حرم مکہ کی سخت بے حرمتی کی گئی انا للہ وانا الیہ راجعون۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نواسے تھے۔ آج کل بھی اہل بدعت حدیث نبوی کو ایسے بہانے نکال کر رد کر دیتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 104
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4295
4295. حضرت ابو شریح عدوی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے عمرو بن سعید سے کہا جب وہ مکہ میں لشکر بھیج رہا تھا: اے امیر! اگر مجھے اجازت ہو تو میں تم سے ایک حدیث بیان کروں جو رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے اگلے روز فرمائی تھی۔ میرے کانوں نے وہ سنا، میرے دل نے اسے محفوظ کیا اور میری آنکھوں نے آپ ﷺ کو دیکھا جب آپ گفتگو کر رہے تھے۔ آپ نے پہلے اللہ تعالٰی کی حمد و ثنا کی، پھر فرمیا: ”اللہ تعالٰی نے مکہ کو حرام ٹھہرایا ہے، لوگوں نے اسے حرام قرار نہیں دیا۔ اللہ پر ایمان اور قیامت پر یقین رکھنے والے کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس (مکے) میں خونریزی کرے اور اس کے کسی درخت ہی کو کاٹے۔ اگر کوئی رسول اللہ ﷺ کے قتال و جنگ سے رخصت ثابت کرنا چاہے تو اسے کہہ دو: بےشک اللہ تعالٰی نے اپنے رسول ﷺ کو اجازت دی تھی تمہیں اجازت نہیں دی۔ اور میرے لیے بھی دن کی ایک گھڑی میں اس کی اجازت تھی، پھر آج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4295]
حدیث حاشیہ:
حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ نے یزید کی بیعت نہیں کی تھی۔
اس لیے یزید نے ان کو زیر کرنے کے لیے گورنر مدینہ عمروبن سعید کو مامور کیا تھا جس پر ابو شریح نے ان کو یہ حدیث سنائی اور مکہ پر حملہ آور ہونے سے روکا مگر عمرو بن سعید طاقت کے نشہ میں چور تھا۔
اس نے حدیث نبوی کو نہیں سنا اور مکہ پر چڑھائی کردی اور ساتھ ہی یہ بہانے بنائے جو یہاں مذکور ہیں۔
اس طرح تاریخ میں ہمیشہ کے لیے بد نامی کو اختیار کیا اور حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ کے خون نا حق کا بوجھ اپنی گردن پر رکھا اور حدیث میں فتح مکہ وحرمت مکہ پر اشارہ ہے یہی مقصود باب ہے۔
حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ اسدی قریشی ہیں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے نواسے ہیں۔
مدینہ میں مہاجرین میں یہ پہلے بچے ہیں جو سنہ 1 ھ میں پیدا ہوئے۔
محترم نانا حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے ان کے کانوں میں اذان کہی انکی والدہ حضرت اسماءبنت ابوبکر صدیق ؓ ہیں۔
مقام قبا میں جناب آنحضرت ﷺ نے چھو ہارہ چبا کر اپنے لعاب دہن کے ساتھ ان کے منہ میں ڈالا اور برکت کی دعا کی۔
بہت ہی بار عب صاف چہرے والے موٹے تازے بڑے قوی بہادر تھے۔
ان کی دادی حضرت صفیہ ؓ آنحضرت ﷺ کی پھوپھی تھیں ان کی خالہ حضرت عائشہ ؓ تھیں۔
آٹھ سال کی عمر میں حضور ﷺ سے بیعت کی اور انہوں نے آٹھ حج کئے اور حجاج بن یوسف نے انکو مکہ میں منگل کے دن 17۔
جمادی الثانی سنہ73 ھ کو شہید کر ڈالا۔
ایسی ہی ظالمانہ حرکتوں سے عذاب الہی میں گرفتار ہو کر حجاج بن یوسف بڑی ذلت کی موت مرا۔
اس نے جس بزرگ کو آخر میں ظلم سے قتل کیا وہ حضرت سعید بن جبیر ہیں۔
جب بھی حجاج بن یوسف سوتا حضرت سعید خواب میں آکر اس کا پاؤں پکڑ کر ہلا د یتے اور اپنے خون نا حق کی یاد دلاتے۔
﴿إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِأُولِي الْأَبْصَارِ﴾ (آل عمران: 13)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4295
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2879
´مکہ مکرمہ میں جنگ و جدال کی حرمت کا بیان۔`
ابوشریح سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرو بن سعید سے کہا، اور وہ (عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما پر حملہ کے لیے) مکہ پر چڑھائی کے لیے فوج بھیج رہے تھے، امیر (محترم)! آپ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں آپ سے ایک ایسی بات بیان کروں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن کہی تھی اور جسے میرے دونوں کانوں نے سنی ہے میرے دل نے یاد رکھا ہے اور میری دونوں آنکھوں نے دیکھا ہے جس وقت آپ نے اسے زبان سے ادا کیا ہے آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2879]
اردو حاشہ:
(1) ”عمرو بن سعید“ یہ یزید کی طرف سے مدینہ منورہ کا گورنر تھا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت نہیں کی تھی بلکہ مدینہ منورہ سے نکل کر مکہ مکرمہ چلے گئے تھے تاکہ حکومت جبر نہ کر سکے۔ یزید نے عمرو بن سعید کو حضرت عبداللہ بن ز بیر رضی اللہ عنہ کے خلاف کارروائی کے لیے لکھا تھا۔ یہ 61 یا 63 ہجری کی بات ہے۔
(2)”لوگوں نے نہیں“ بعض اوقات لوگ بھی تو اپنے طور پر ہی کسی علاقے کی حرمت کے قائل ہو جاتے ہیں جیسے آج کل عوام الناس بعض پیروں کی گدیوں اور ان سے ملحقہ علاقوں کو حرم کی طرح سمجھتے ہیں اور کسی قسم کے تصرف کو گناہ سمجھتے ہیں، اسی لیے نفی فرمائی کہ مکہ مکرمہ کی حرمت منجانب اللہ ہے، اس میں لوگوں کا کوئی دخل نہیں، نیز یہ حرمت ازلی وابدی ہے، کسی ایک ملت یا شریعت کے ساتھ خاص نہیں۔
(3) ”تھوڑی دیر کے لیے“ حملے کے آغاز سے لے کر تسلط قائم ہونے تک۔ اور یہ وقت طلوع شمس سے عصر تک تھا۔ اس میں بھی رسول اللہﷺ کے لشکر نے از خود کسی کو قتل نہیں کیا بلکہ جس نے مزاحمت کی، وہی قتل ہوا۔ یا ان چند مجرموں کو قتل کیا گیا جنھوں نے ناقابل معافی گناہوں کا ارتکاب کیا تھا۔ اور یہ شرعی حکم تھا۔
(4) ”ہر حاضر، غائب کو پہنچا دے“ تاکہ سب کو معلوم ہو جائے کہ نبی اکرمﷺ نے حرم کی حرمت کو قائم رکھا ہے۔
(5) حلال وحرام کا اختیار اللہ تعالیٰ کو ہے، کسی بشر کو اس میں دخل نہیں۔ رسولوں کا کام بھی احکام لوگوں تک پہنچانا ہے۔ اپنی طرف سے چیز حلال وحرام کرنے کا اختیار انھیں بھی نہیں ہے۔
(6) امراء کے شریعت کے خلاف دیے گئے اوامر کا انکار اور حق بات کی تبلیغ علمائے کرام کی ذمہ داری ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2879
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 809
´مکہ کی حرمت کا بیان۔`
ابوشریح عدوی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرو بن سعید ۲؎ سے - جب وہ مکہ کی طرف (عبداللہ بن زبیر سے قتال کے لیے) لشکر روانہ کر رہے تھے کہا: اے امیر! مجھے اجازت دیجئیے کہ میں آپ سے ایک ایسی بات بیان کروں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن فرمایا، میرے کانوں نے اسے سنا، میرے دل نے اسے یاد رکھا اور میری آنکھوں نے آپ کو دیکھا، جب آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: ”مکہ (میں جنگ و جدال کرنا) اللہ نے حرام کیا ہے۔ لوگوں نے حرام نہیں کیا ہے، لہٰذا کسی شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 809]
اردو حاشہ:
1؎: (حج کے احکام و مناسک کی وضاحت ہے) حج اسلام کا پانچواں بنیادی رکن ہے اس کی فرضیت 5ھ یا 6ھمیں ہوئی اور بعض نے 9ھ یا 10ھکہا ہے،
زادالمعاد میں ابن القیم کا رجحان اسی طرف ہے۔
2؎:
عمرو بن سعید:
یزید کی طرف سے مدینہ کا گونر تھا اور یزید کی حکومت کا عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما کی خلافت کے خلاف لشکر کشی کرنا اور وہ بھی مکہ مکرمہ پر قطعا غلط تھی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 809
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3304
حضرت ابو شریح عدوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرو بن سعید سے کہا جبکہ وہ (یزید کی طرف سے گورنر تھا اور اس کے حکم سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے خلاف) مکہ پر چڑھائی کرنے کے لیے لشکر تیار کر کے روانہ کر رہا تھا کہ: اے امیر! مجھے اجازت دیجئے، کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان بیان کروں، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے اگلے دن (مکہ میں) ارشاد فرمایا تھا، میں نے اپنے کانوں سے وہ فرمان سنا تھا،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3304]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
خُرْبَةٌ يا خَرْبَةٌ کا اصل معنی اونٹ چرانا ہے،
اس سے مراد زمین میں چوری یا ڈاکہ سے فساد پھیلانا بھی مراد لیا جاتا ہے۔
فوائد ومسائل:
1۔
حرم کےاندر جنگ وجدال کسی صورت میں جائز نہیں ہے،
اگر اہل مکہ کسی عادل حکمران کے خلاف بغاوت کردیں،
تو اس کے بارے میں دونظریات ہیں،
بقول امام ماوردی،
جمہور کے نزدیک،
جب تک لڑائی سے بچنا ممکن ہو،
لڑائی سے گریز کرتے ہوئے کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جائےگا،
جس سے بغاوت کو فرو کیا جاسکے،
اگرلڑائی کے بغیر چارہ نہ رہے تو پھر باغیوں سے لڑائی لڑی جائے گی لیکن ایسا طریقہ اختیار نہیں کیا جائے،
جس سے وہ لوگ بھی متاثر ہوں جوجنگ میں شریک نہیں ہوتے،
باغیوں سے جنگ حقوق اللہ میں داخل ہے،
اور حقوق اللہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،
لیکن دوسروں کے نزدیک قتال کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے۔
احادیث کے ظاہر کا تقاضا یہی ہے۔
(فتح الباری ج4 ص 63)
اور حضرت ابوشریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہی سمجھا تھا،
اس لیے ابوشریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمرو بن سعید کے جواب میں کہا تھا۔
(قد كنتُ شاهدًا وكنتَ غائبًا وقد أمرنا أن يبلغ شاهدُنا غائبنَا وقد بلغتُكَ) (میں حاضرتھا،
اور تم موجود نہیں تھے،
اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا تھا کہ جو یہاں موجود ہیں،
وہ ان تک بات پہنچا دیں،
جو حاضر نہیں ہیں،
اور میں نے تم تک یہ بات پہنچا دی ہے۔
)
(فتح الباری ج4 ص59)
حضرت ابوشریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مقصد منشاء سمجھنے کے زیادہ حق دار وہ لوگ ہیں،
جن کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی،
اور جنھوں نے اس کا موقع اورمحل دیکھا۔
2۔
اس حدیث میں ہے جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے اس کے لیے مکہ میں خون بہانا جائز نہیں ہے اور اللہ نے اپنے رسول کو کچھ وقت کے لیے قتال کی اجازت دی تھی،
اس سے جمہور نے یہ استدلال کیا ہے کہ مکہ جبروقوت سے فتح ہوا تھا،
اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ پر احسان وکرم فرماتے ہوئے انہیں طُلَقَاء (آزاد)
قرار دیا،
ٰ اور ان کے اموال کو غنیمت کا مال نہ ٹھہرایا اور نہ ان کے اہل وعیال کوقیدی بنایا،
لیکن امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مکہ صلحاً فتح ہوا(سبل السلام ج2 ص 292)
3۔
اگر کوئی انسان حرم کے اندر قابل حد جرم کا ارتکاب کرتا ہے،
تو بالاتفاق اس پر حد جاری کی جائے گی،
لیکن اگر کوئی انسان حرم سے باہر جرم کا ارتکاب کر کے حرم میں پناہ لیتا ہے،
تو اس کے بارے میں اختلاف ہے،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس پر حد قائم کی جائے گی،
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔
اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حرم کے اندرحد نہ لگائی جائےگی،
بلکہ اس کا معاشرتی مقاطعہ کر کے یا وعظ ونصیحت کر کے حرم سے باہر نکالا جائے گا اور خارج حرم،
حد قائم کی جائے گی،
حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے اس مؤقف کی پرزور انداز میں تائید کی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3304
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:104
104. حضرت ابوشریح ؓ سے روایت ہے، انہوں نے (گورنر مدینہ) عمرو بن سعید سے کہا جب کہ وہ مکے کی طرف فوج بھیج رہا تھا: امیر (گورنر) صاحب! مجھے اجازت دے کہ میں تجھے وہ حدیث سناؤں جو نبی ﷺ نے فتح مکہ کے دوسرے دن بیان فرمائی تھی۔ جسے میرے کانوں نے سنا، دل نے یاد رکھا اور میری دونوں آنکھوں نے آپ کو دیکھا جب آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی۔ آپ نے اللہ کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا: ”مکے (میں جنگ و جدال کرنے) کو اللہ نے حرام کیا ہے لوگوں نے اسے حرام نہیں کیا، لہٰذا اگر کوئی شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ مکے میں خون ریزی کرے، یا وہاں سے کوئی درخت کاٹے۔ اگر کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کے قتال سے جواز پیدا کرے تو اس سے کہہ دینا کہ اللہ نے اپنے رسول کو تو اجازت دی تھی لیکن تمہیں نہیں دی ہے۔ اور مجھے بھی دن میں کچھ وقت کے لیے اجازت تھی اور آج اس کی حرمت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:104]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ”جو شخص یہاں حاضر ہے اسے چاہیے کہ غائب کو یہ خبر پہنچادے“ ہمیں خبر دار کرتا ہے کہ اگر علمی مجلس میں کوئی دین کی بات کسی کے کان میں پڑے اور وہ اسے محفوظ کرنے میں بھی کامیاب ہو گیا ہو تو اسے چاہیے کہ مجلس سے غیر حاضر کو وہ بات پہنچا دے تاکہ اس ذریعے سے عمل و کردار کی اصلاح ہوتی رہے۔
2۔
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حالات کی نزاکت کے پیش نظر نمائندگان بلاد کی مشاورت سے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد مقرر کر لیا تھا، ان میں انتظامی صلاحیت اور امور خلافت کی قابلیت موجود تھی، پھر بلاد اسلامیہ کے گورنروں کے ذریعے سے باشندگان سے بیعت لی گئی لیکن حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیعت نہ کی، حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہل کوفہ کی دعوت پر مدینہ منورہ چھوڑ گئے اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکہ مکرمہ پہنچ کر وہاں کے انتظامات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔
یزید نے مدینے کے گورنر عمرو بن سعید کو لکھا کہ مکے میں عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قتال کے لیے لشکر کشی کی جائے۔
جب انھوں نے مدینے سے مکہ مکرمہ لشکر بھیجنے کا ارادہ کیا تو حضرت ابو شریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فریضہ تبلیغ ادا کیا جس کا حدیث میں ذکر ہے۔
3۔
حضرت ابو شریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حق و صداقت پر مبنی باتیں سن کر عمرو بن سعید نے جو جواب دیا وہ (كلمة حق أريد بها الباطل)
”بات صحیح مگر مقاصد برے“ کا آئینہ دار ہے کیونکہ دو مسئلے ہیں۔
ایک ہے حرم مکہ پر فوج کشی اور دوسرا حدود حرم میں مجرم کو سزا دینا۔
اس کا جواب اس لیے غلط تھا کہ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جلیل القدر اور صاحب منقبت صحابی ہیں وہ نہ تو خون ناحق کرنے کے بعد مکہ میں روپوش ہوئے تھے اور نہ انھوں نے چوری ہی کا ارتکاب کر کے یہاں پناہ لی تھی بہر حال گورنرمدینہ عمرو بن سعید کا یہ اقدام فوج کشی کسی طرح بھی درست نہ تھا۔
(فتح الباري: 263/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 104
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4295
4295. حضرت ابو شریح عدوی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے عمرو بن سعید سے کہا جب وہ مکہ میں لشکر بھیج رہا تھا: اے امیر! اگر مجھے اجازت ہو تو میں تم سے ایک حدیث بیان کروں جو رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے اگلے روز فرمائی تھی۔ میرے کانوں نے وہ سنا، میرے دل نے اسے محفوظ کیا اور میری آنکھوں نے آپ ﷺ کو دیکھا جب آپ گفتگو کر رہے تھے۔ آپ نے پہلے اللہ تعالٰی کی حمد و ثنا کی، پھر فرمیا: ”اللہ تعالٰی نے مکہ کو حرام ٹھہرایا ہے، لوگوں نے اسے حرام قرار نہیں دیا۔ اللہ پر ایمان اور قیامت پر یقین رکھنے والے کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس (مکے) میں خونریزی کرے اور اس کے کسی درخت ہی کو کاٹے۔ اگر کوئی رسول اللہ ﷺ کے قتال و جنگ سے رخصت ثابت کرنا چاہے تو اسے کہہ دو: بےشک اللہ تعالٰی نے اپنے رسول ﷺ کو اجازت دی تھی تمہیں اجازت نہیں دی۔ اور میرے لیے بھی دن کی ایک گھڑی میں اس کی اجازت تھی، پھر آج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4295]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے یزید بن معاویہ ؓ کی بیعت نہیں کی تھی، بلکہ حجاز کے علاقے میں خود خلافت کا دعویٰ کیا اور لوگوں سے بیعت لی۔
یزید نے انھیں زیر کرنے کے لیے گورنر مدینہ عمرو بن سعید کو مامورکیا، جسے حضرت ابوشریح ؓ نے حدیث سنائی اور مکہ پر فوج کشی سے روکا مگرعمرو بن سعید اپنی طاقت کے نشے میں چور تھا، اس لیے اس نے مکے پر چڑھائی کردی، حالانکہ اس نے جن بہانوں کا ذکر کیا ہے ان میں سے ایک بھی حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ میں نہ تھا،انہوں نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا تھا۔
اس نے تاریخ میں ہمیشہ کے لیے بدنامی کو اختیار کیا اور حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے خون ناحق سے اپنے ہاتھوں کو رنگا۔
2۔
چونکہ اس حدیث میں فتح مکہ کے حوالے سے حرمت کو بیان کیا گیا تھا، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4295