Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْوُضُوءِ
کتاب: وضو کے بیان میں
33M. بَابُ إِذَا شَرِبَ الْكَلْبُ فِي إِنَاءِ أَحَدِكُمْ فَلْيَغْسِلْهُ سَبْعًا:
باب: جب کتا برتن میں پی لے (تو کیا کرنا چاہیے)۔
حدیث نمبر: 173
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، سَمِعْتُ أَبِي، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" أَنَّ رَجُلًا رَأَى كَلْبًا يَأْكُلُ الثَّرَى مِنَ الْعَطَشِ، فَأَخَذَ الرَّجُلُ خُفَّهُ، فَجَعَلَ يَغْرِفُ لَهُ بِهِ حَتَّى أَرْوَاهُ، فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ، فَأَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ".
ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالصمد نے خبر دی، کہا ہم کو عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے اپنے باپ سے سنا، وہ ابوصالح سے، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص نے ایک کتے کو دیکھا، جو پیاس کی وجہ سے گیلی مٹی کھا رہا تھا۔ تو اس شخص نے اپنا موزہ لیا اور اس سے پانی بھر کر پلانے لگا، حتیٰ کہ اس کو خوب سیراب کر دیا۔ اللہ نے اس شخص کے اس کام کی قدر کی اور اسے جنت میں داخل کر دیا۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 173 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:173  
حدیث حاشیہ:

ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص جس نے پیاسے کتے کو پانی پلایا، اس کا تعلق بنی اسرائیل سے تھا، نیزاس قسم کا ایک واقعہ بنی اسرائیل کی ایک زانیہ عورت کے متعلق بھی احادیث میں مذکور ہے، اس نے بھی اپنے موزے سے پیاسے کتے کو پانی پلایا تھا۔
(صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3321 وأحادیث الأنبیاء علیهم السلام، حدیث: 3467)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کتے کا پس خوردہ نجس نہیں ہے مگر یہ استدلال کئی لحاظ سے کمزور ہے۔
(الف)
۔
ممکن ہے کہ اس نے موزے سے پانی نکال کر کسی دوسری چیز یا زمین کے گڑھے میں ڈال کر پلایا ہو۔
(ب)
۔
یہ ممکن ہے کہ اس نے موزے ہی سے پانی پلا کر اس کو دھولیا ہو۔
(ج)
۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اس نے موزے کو ناپاک سمجھ کر پھینک دیا ہو اور استعمال ہی نہ کیا ہو۔
ان سب احتمالات کی موجودگی میں مذکورہ استدلال درست نہیں۔
(د)
۔
علاوہ ازیں امم سابقہ کے واقعات ہمارے لیے حجت نہیں۔
کیا ایک شخص کا جزوی عمل اس قابل ہوسکتا ہے کہ اسے طہارت ونجاست کے باب میں قول فیصل کی حیثیت دی جائے؟ زیادہ سے زیادہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی مخلوق پر شفقت کرنا اللہ کے ہاں معافی کا باعث ہے۔
(فتح الباري: 364/1)

ایک روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ بیان کیا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کہا:
کیا ہمیں حیوانات سے حسنِ سلوک کرنے میں بھی اجر ملے گا؟ آپ نے فرمایا:
ہرزندہ جگر رکھنے والے حیوان میں تمہارے لیے اجروثوا ب ہے۔
(صحیح البخاري،المظالم، حدیث: 2466)
ہماری شریعت میں ایسے حیوانات قابل احترام ہیں جو دوسروں کے لیے ضرر رساں نہ ہوں۔
(فتح الباري: 53/5)

اس حدیث سے مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں:
(الف)
۔
ایک شخص اکیلا اور زاد سفر کے بغیر سفر کرسکتا ہے۔
بشرطیکہ اس طرح سفر کرنے میں کسی خطرے کا اندیشہ نہ ہو۔
(ب)
۔
لوگوں سے حسنِ سلوک کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے، کیونکہ جب کتے کو پانی پلانے سے مغفرت ہوگئی تو انسان سے ہمدردی تو اس سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔
(ج)
۔
اگر کوئی مسلمان شخص نفلی صدقات کا مستحق موجود نہ ہوتو مشرکین پرصدقہ وخیرات کیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح اگر آدمی اور حیوان دونوں مساویانہ طور پر ضرورت مندوں اور صرف ایک کی مدد کی جاسکتی ہو تو آدمی حیوانات سے زیادہ قابل احترام ہے،اس کی مدد کرنی چاہیے۔
(فتح الباري: 53/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 173