Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
أبواب السلام
ابواب: السلام علیکم کہنے کے آداب
171. باب فِي اتِّخَاذِ الْغُرَفِ
باب: بالاخانے بنانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5238
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ مُطَرِّفٍ الرُّؤَاسِيُّ , حَدَّثَنَا عِيسَى , عَنْ إِسْمَاعِيل , عَنْ قَيْسٍ , عَنْ دُكَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ الْمُزَنِيِّ , قَالَ:" أَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَسَأَلْنَاهُ الطَّعَامَ , فَقَالَ: يَا عُمَرُ , اذْهَبْ فَأَعْطِهِمْ , فَارْتَقَى بِنَا إِلَى عِلِّيَّةٍ , فَأَخَذَ الْمِفْتَاحَ مِنْ حُجْرَتِهِ فَفَتَحَ".
دکین بن سعید مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے غلہ مانگا تو آپ نے فرمایا: عمر! جاؤ اور انہیں دے دو، تو وہ ہمیں ایک بالاخانے پر لے کر چڑھے، پھر اپنے کمرے سے چابی لی اور اسے کھولا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3540)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/174) (صحیح الإسناد)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
مشكوة المصابيح (5184)
إسماعيل بن أبي خالد صرح بالسماع عند الحميدي بتحقيقي (895 وسنده صحيح) قيس ھو ابن أبي حازم

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 5238 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5238  
فوائد ومسائل:
فی الواقع ضرورت ہو تو مکان کے اوپر مکان بنانا جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5238   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:917  
917- سیدنا دکین بن سعید مزنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم 400 سواروں کے ہمراہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کھانے کے لیے مانگا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمر! جاؤ انہیں کھانا کھلاؤ اور انہیں عطیات دو۔‏‏‏‏ انہوں نے عرض کی: یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! میرے پاس تو کھجوروں کے چند صاع ہیں۔ جو صرف میرے گھر والوں کے اس موسم کی خوارک کے لیے کفایت کریں گے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے: تم اطاعت وفرمانبرداری کرو تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: میں اطاعت وفرمانبرداری کرتا ہوں۔ راوی کہتے ہیں: پھر سیدنا عمر رضی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:917]
فائدہ:
اس حدیث میں ذکر ہے کہ ضرورت مندوں کی ضرورت کا خیال رکھنا چاہیے، جس چیز کی کسی کو ضرورت ہو، وہی چیز صدقہ و خیرات کر دینی چاہیے محتاج کی حمایت میں اپیل اور تائید کر دینی چاہیے، اگر کسی کو پتہ بھی ہو کہ فلاں شخص ضرورت مند ہے، پھر وہ شخص لوگوں کو اس کے ساتھ تعاون پر رغبت بھی نہیں دلاتا، وہ گناہ کا کام کر رہا ہے، اور دین کو جھٹلا رہا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ ‎ ➊ ‏ فَذَٰلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ ‎ ➋ ‏ وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ ➌ ﴾(الماعون: 1 تا 3)
کیا تو نے اسے بھی دیکھا ہے جو روز جزا کو جھٹلاتا ہے، یہی وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے، اور مسکین کو کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔
اس حدیث سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سخاوت بھی ثابت ہوتی ہے، اور یہ بھی ثابت ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں تالے تھے، اور وہ اپنی قیمتی چیزوں کو تالے میں رکھتے تھے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 916