سنن ابي داود
أَبْوَابُ النَّوْمِ
ابواب: سونے سے متعلق احکام و مسائل
117. باب فِي الصَّبِيِّ يُولَدُ فَيُؤَذَّنُ فِي أُذُنِهِ
باب: بچہ پیدا ہو تو اس کے کان میں اذان دینا کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 5106
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ. ح وحَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ،عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُؤْتَى بِالصِّبْيَانِ، فَيَدْعُو لَهُمْ بِالْبَرَكَةِ"، زَادَ يُوسُفُ: وَيُحَنِّكُهُمْ، وَلَمْ يَذْكُرْ بِالْبَرَكَةِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بچے لائے جاتے تھے تو آپ ان کے لیے برکت کی دعا فرماتے تھے، (یوسف کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ) آپ ان کی تحنیک فرماتے یعنی کھجور چبا کر ان کے منہ میں دیتے تھے، البتہ انہوں نے برکت کی دعا فرمانے کا ذکر نہیں کیا ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 16854، 17241)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/46) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: تبرک کے لئے ضروری ہے کہ شخصیت متبرک ہو، رسول معصوم سے تحنیک کا فائدہ برکت کے یقینی طور پر حصول کی توقع تھی، بعد میں دوسری شخصیات سے تبرک اور تبریک کی بات خوش خیالی ہے، تحنیک کے اس واقعہ سے استدلال صحیح نہیں ہے، لیکن اگر تحنیک کا عمل حصول تبرک کے علاوہ دوسرے فوائد کے لئے کیا جائے تو اور بات ہے ایک تو یہی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کے جذبہ سے، دوسرے طب و صحت کے قواعد و ضوابط کے نقطہ نظر سے وغیرہ وغیرہ۔ واللہ اعلم۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح، صحيح بخاري (6355) صحيح مسلم (286)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 5106 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5106
فوائد ومسائل:
بچے کے کان میں اذان گھر کا کوئی بھی فرد کہہ سکتا ہے۔
یہ تکلیف اور اہتمام کہ کسی بڑے اور صالح بندے کو اس کام کے لئے بلوایا جائے یا بچے کو اس کے پاس لے جایا جائے غیر ضروری ہے۔
البتہ گھٹی کے سلسلے میں یہ استنباط کیا جا سکتا ہے۔
مگر رسول اللہﷺ کی ذات تو بلاشک وشبہ مبارک تھی۔
امت کے دیگر صالحین کے بارے میں تفائول تو ہو سکتا ہے کوئی مسنون عمل نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5106