سنن ابي داود
أَبْوَابُ النَّوْمِ
ابواب: سونے سے متعلق احکام و مسائل
110. باب مَا يَقُولُ إِذَا أَصْبَحَ
باب: صبح کے وقت کیا پڑھے؟
حدیث نمبر: 5080
حَدَّثَنَا , وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ , وَعَلِيُّ بْنُ سَهْلٍ الرَّمْلِيُّ , وَمُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ الْحَرَّانِيُّ , عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ الْحِمْصِيُّ , قَالُوا: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ،حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حَسَّانَ الْكِنَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُسْلِمُ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ مُسْلِمٍ التَّمِيمِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ نَحْوَهُ: إِلَى قَوْلِهِ: جِوَارٌ مِنْهَا إِلَّا أَنَّهُ قَالَ فِيهِمَا قَبْلَ أَنْ يُكَلِّمَ أَحَدًا، قَالَ عَلِيُّ بْنُ سَهْلٍ فِيهِ: إِنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، وَقَالَ عَلِيٌّ وَابْنُ الْمُصَفَّى: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ، فَلَمَّا بَلَغْنَا الْمُغَارَ اسْتَحْثَثْتُ فَرَسِي فَسَبَقْتُ أَصْحَابِي , وَتَلَقَّانِي الْحَيُّ بِالرَّنِينِ، فَقُلْتُ لَهُمْ: قُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ تُحْرَزُوا، فَقَالُوهَا، فَلَامَنِي أَصْحَابِي، وَقَالُوا: حَرَمْتَنَا الْغَنِيمَةَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرُوهُ بِالَّذِي صَنَعْتُ، فَدَعَانِي فَحَسَّنَ لِي مَا صَنَعْتُ، وَقَالَ: أَمَا إِنَّ اللَّهَ قَدْ كَتَبَ لَكَ مِنْ كُلِّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ كَذَا وَكَذَا" , قال عَبْدُ الرَّحْمَنِ: فَأَنَا نَسِيتُ الثَّوَابَ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَا إِنِّي سَأَكْتُبُ لَكَ بِالْوَصَاةِ بَعْدِي , قال: فَفَعَلَ، وَخَتَمَ عَلَيْهِ، فَدَفَعَهُ إِلَيَّ وَقَالَ لِي، ثُمَّ ذَكَرَ مَعْنَاهُمْ، وقَالَ ابْنُ الْمُصَفَّى قَالَ: سَمِعْتُ الْحَارِثَ بْنَ مُسْلِمِ بْنِ الْحَارِثِ التَّمِيمِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ.
حارث بن مسلم تمیمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح فرمایا جیسے اوپر گزرا «كتب لك جوار منها» تک مگر اس میں دونوں میں اتنا اضافہ ہے کہ: یہ دعا کسی سے بات کرنے سے پہلے پڑھے۔ اور علی اور ابن مصفٰی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا پھر جب ہم اس جگہ کے قریب پہنچے جہاں ہمیں چھاپہ مارنا اور حملہ کرنا تھا، تو میں نے اپنے گھوڑے کو تیزی سے آگے بڑھایا اور اپنے ساتھیوں سے آگے نکل گیا، بستی والے (ہمیں دیکھ کر) چیخنے چلانے لگے، میں نے ان سے کہا: «لا إله إلا الله» کہہ دو (ایمان لے آؤ) تو بچ جاؤ گے، تو انہوں نے «لا إله إلا الله» کہہ دیا، میرے ساتھی مجھے ملامت کرنے لگے اور کہنے لگے: تو نے ہمیں غنیمت سے محروم کر دیا، جب وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو ان لوگوں نے میں نے جو کیا تھا اس سے آپ کو باخبر کیا، تو آپ نے مجھے بلایا اور میرے کام کی تعریف کی اور فرمایا: سن! اللہ نے تمہیں اس بستی کے ہر ہر فرد کے بدلے اتنا اتنا ثواب دیا ہے (عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں ثواب بھول گیا)، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تیرے لیے ایک وصیت نامہ لکھ دیتا ہوں (وہ میرے بعد تیرے کام آئے گا)، پھر آپ نے لکھا، اس پر اپنی مہر ثبت کی اور مجھے دے دیا اور فرمایا، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3281) (ضعیف)» (صحابی کے بیٹے مسلم مجہول ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
مشكوة المصابيح (انظر الحديث السابق (5079))