سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
88. باب فِي التَّشْدِيدِ فِي الْكَذِبِ
باب: جھوٹ بولنے کی شناعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4991
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ مَوَالِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ الْعَدَوِيّ حَدَّثَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ، أَنَّهُ قَالَ:" دَعَتْنِي أُمِّي يَوْمًا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ فِي بَيْتِنَا، فَقَالَتْ: هَا تَعَالَ أُعْطِيكَ , فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:وَمَا أَرَدْتِ أَنْ تُعْطِيهِ , قَالَتْ: أُعْطِيهِ تَمْرًا , فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَا إِنَّكِ لَوْ لَمْ تُعْطِهِ شَيْئًا كُتِبَتْ عَلَيْكِ كَذِبَةٌ".
عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میری ماں نے مجھے بلایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر بیٹھے ہوئے تھے، وہ بولیں: سنو یہاں آؤ، میں تمہیں کچھ دوں گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: تم نے اسے کیا دینے کا ارادہ کیا ہے؟ وہ بولیں، میں اسے کھجور دوں گی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: سنو، اگر تم اسے کوئی چیز نہیں دیتی، تو تم پر ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 5355)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/447) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ جب ماں کے لئے بچہ کو اپنی کسی ضرورت کے لئے جھوٹ بول کر پکارنا صحیح نہیں تو بھلا کسی بڑے کے ساتھ جھوٹی بات کیونکر کی جاسکتی ہے، گویا ازراہ ہنسی ہی کیوں نہ ہو وہ حرام ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
مولي عبد اللّٰه مجهول
وللحديث شاهد ضعيف عند أحمد (452/2) وابن وھب في الجامع (80)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 173
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4991 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4991
فوائد ومسائل:
سچ اور جھوٹ بولنے کا تعلق بڑے آدمیوں ہی سےنہیں، چھوٹے بچوں کے ساتھ بھی ہے بلکہ بعض صالحین نے تو اسے جانوروں تک وسیع کیا ہےکہ آدمی کسی جانور کو ایسی آواز دے یا جھولی بنا کر اسے ہلائےاور اسے تاثر دے کہ اس میں گھاس دانہ وغیرہ ہے، حالانکہ اس میں کچھ نہ ہو تو وہ اسے چھوٹ قرار دیتے ہیں۔
بہرحال جھوٹ ایک قبیح خصلت ہے۔
اس سے ہمیشہ بچنا چاہئے۔
سوائے تین مقامات کے جن کا ذکر پیچھے (حدیث:4920-21) گزر چکا ہے۔
بعض محققین نے مذکورہ روایت کو حسن قرار دیا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4991