سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
88. باب فِي التَّشْدِيدِ فِي الْكَذِبِ
باب: جھوٹ بولنے کی شناعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4990
حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" وَيْلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ فَيَكْذِبُ لِيُضْحِكَ بِهِ الْقَوْمَ وَيْلٌ لَهُ وَيْلٌ لَهُ".
معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: تباہی ہے اس کے لیے جو بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے تاکہ اس سے لوگوں کو ہنسائے، تباہی ہے اس کے لیے، تباہی ہے اس کے لیے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الزہد 10 (2315)، (تحفة الأشراف: 11381)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/2، 5، 7)، سنن الدارمی/الاستئذان 66 (2744) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (4834)
أخرجه الترمذي (2315 وسنده حسن)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4990 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4990
فوائد ومسائل:
اپنی طرف سے لطیفے بنانا اور خوش طبعی کےلیے جھوٹ بولنا کہ لوگ ہنسیں صاحب ایمان کو قطعا زیب نہیں دیتا ہے، البتہ ایسا مزاح اور خوش طبعی جو مبنی بر حقیقت ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور شرعی حدود قیود کے اندرہو جائز اور مباح ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4990
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1311
لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولنا بھی ہلاکت کا باعث ہے
«وعن بهز بن حكيم عن ابيه عن جده رضي الله عنهم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ويل للذي يحدث فيكذب ليضحك به القوم ويل له ثم ويل له . اخرجه الثلاثة وإسناده قوي.»
”بہز بن حکیم اپنے باپ سے وہ اس (بہز) کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ویل ہے اس شخص کے لئے جو بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے تاکہ اس کے ساتھ لوگوں کو ہنسائے ویل ہے اس کے لیے پھر ویل ہے اس کے لیے۔“ اسے تینوں نے روایت کیا اور اس کی اسناد قوی ہیں۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1311]
تخریج:
«صحيح»
[ ابوداود 4990]،
[ ترمذي 2315]،
[ السنن الكبري للنسائي التفسير /410۔ ]
ترمذی اور البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔ دیکھئے: [صحيح الترمذي 1885]، [غاية 376]، [مشكوة 4838]
فوائد:
➊ ہنسانے کے لیے جھوٹ بولنا بھی باعث ہلاکت ہے:
جھوٹ بولنے سے ممانعت کے متعلق بہت سی احادیث آئی ہیں دیکھئے اسی کتاب کی حدیث (1400) اور (1432) کی تشریح زیر بحث حدیث میں جھوٹ کی ایک خاص صورت کو حرام قرار دیا گیا ہے جسے معمولی سمجھا جاتا ہے یعنی لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولنا۔ فرمایا ایسا کرنے والے کے لیے بار بار ہلاکت ہے۔
➋ ہنسانے کے لیے جھوٹ سننا بھی منع ہے:
جب لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹی باتیں کرنا باعث ہلاکت ہے تو اس گناہ پر خاموش رہنا بلکہ سن کر لطف اٹھانا بھی اس گناہ میں شریک ہونا ہے اس لیے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ جب کسی شخص سے اس قسم کی بات سنے تو اسے منع کر دے اگر وہ باز نہ آئے اور یہ اسے بزور بازو بھی نہ روک سکتا ہو تو اس کی مجلس سے اٹھ جائے۔
«فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ» [6-الأنعام:68]
”یاد آنے کے بعد ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھیں۔“
➌ وہ صورتیں جن میں جھوٹ بولنا جائز ہے:
ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان صلح کروائے اور اچھی بات کہے اور اچھی بات پہنچائے۔ [مسلم البروالصلة 1/باب27 ]
اور فرماتی ہیں کہ لوگ جو کچھ (جھوٹ) کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا کہ اس میں سے کسی چیز کی رخصت دیتے ہوں سوائے تین چیزوں کے۔ لڑائی میں، لوگوں کے درمیان صلح کروانے میں، اور خاوند کی بیوی کے ساتھ بات چیت اور بیوی کی خاوند کے ساتھ بات چیت میں۔ [مسلم البروالصله /باب27 ]
➍ چغلی اور اصلاح کا موازنہ:
اللہ تعالیٰ کو مسلمانوں کی باہمی محبت اور دلی الفت کس قدر عزیز ہے اس کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ اس سچ کو حرام فرما دیا جو چغلی کی صورت میں ہو اور باہمی بگاڑ کا باعث بنے اور اس جھوٹ کی اجازت دے دی جس سے لوگوں کے درمیان صلح ہوتی ہو یا میاں بیوی کے درمیان تعلقات بہتر ہوتے ہوں۔
➎ لڑائی میں جھوٹ بولنا کیوں جائز ہے؟ :
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے ایک جان کو قتل کیا کسی جان کے بغیر یا زمین میں کسی فساد کے بغیر تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا اور جس نے اسے بچایا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو بچایا۔ [المائده: 32 ]
اب جنگ میں اگر دشمن کو اپنی تمام باتیں صحیح صحیح بتا دی جائیں تو اس کا نتیجہ مسلمانوں کی ہلاکت کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا اور اس سچ کا نقصان ناقابل تلافی ہو گا۔ اسی طرح دشمن پر جنگی چالیں استعمال نہ کی جائیں تو اس کا نتیجہ بھی اہل اسلام کی شکست ہو سکتا ہے۔
اہل علم اس حدیث کو مدنظر رکھ کر فرماتے ہیں کہ اگر کوئی ظالم کسی شخص کی جان یا مال کے درپے ہو اور ہمیں علم ہو کہ وہ کہاں ہے یا اس کا مال کہاں ہے اور سچ بولنے سے اس کے قتل کا یا مال کے لٹنے کا خطرہ ہو تو اس موقعہ پر جھوٹ بول کر اس کی جان اور مال بچانا فرض ہے۔
اس قسم کے تمام موقعوں پر اگر ممکن ہو کہ انسان صاف جھوٹ سے بچے اور ذومعنی بات کہہ کر کام نکال لے کے سننے والا اس کا مطلب کچھ اور سمجھتا رہے اور کہنے والے کی مراد کچھ اور ہو تو یہ سب سے بہتر ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی کیا کرتے تھے اور دوسرے انبیاء اور اللہ کے برگزیدہ بندوں کا بھی یہی طریقہ تھا۔ جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے تین موقعوں پر بظاہر خلاف واقعہ جو بات کی ان کی نیت میں ان کا وہ مطلب تھا جو بالکل درست تھا۔
اسی طرح ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ہجرت کے سفر میں کسی نے پوچھا: تمہارے ساتھ کون ہے تو فرمایا: «هذا الرجل يهديني السبيل» ”یہ آدمی مجھے راستہ بتاتا ہے“ [ بخاري، مناقب الانصار/45 ]
اسی قسم کے الفاظ کو معاریض کہتے ہیں اور ان کے ذریعے آدمی صریح جھوٹ سے بچ جاتا ہے: «ان فى المعاريض لمندوحة عن الكذب» ”معاریض میں جھوٹ سے بچنے کی بہت گنجائش ہے۔“ لیکن اگر صاف جھوٹ کے بغیر حالت جنگ میں گزارا نہ ہو تو اس کی اجازت ہے۔
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 229
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1311
´برے اخلاق و عادات سے ڈرانے اور خوف دلانے کا بیان`
سیدنا بہز بن حکیم اپنے باپ سے اور انہوں نے اپنے دادا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ہلاکت ہے اس شخص پر جو جھوٹی باتیں سنا کر لوگوں کو ہنسائے۔ اس پر ہلاکت ہے۔ پھر اس پر ہلاکت ہے۔“ اسے تینوں نے قوی سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1311»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الأدب، باب في التشديد في الكذب، حديث:4990، والترمذي، الزهد، حديث:2315، والنسائي في الكبرٰي:6 /329، حديث: 11126، 6 /509، حديث:11655.»
تشریح:
جھوٹ بولنا تو قرآن و سنت کی روشنی میں ویسے ہی حرام اور گناہ کبیرہ ہے مگر اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جھوٹ بیان کر کے لوگوں کو ہنسانا اور ان کی دلچسپی و دل لگی کا سامان مہیا کرنا بھی حرام ہے کیونکہ خوشی کا اظہار تو کسی اچھی بات پر ہونا چاہیے نہ کہ جھوٹی بات پر۔
جو شخص ایسے جرم کا مرتکب ہو اسے روک دینا چاہیے یا کم از کم جھوٹ کی اس مجلس کو چھوڑ دینا چاہیے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1311
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2315
´غیر شرعی طور پر ہنسنے ہنسانے کی بات کرنے والے پر وارد وعید کا بیان۔`
معاویہ بن حیدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”تباہی و بربادی ہے اس شخص کے لیے جو ایسی بات کہتا ہے کہ لوگ سن کر ہنسیں حالانکہ وہ بات جھوٹی ہوتی ہے تو ایسے شخص کے لیے تباہی ہی تباہی ہے“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2315]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہوا کہ ہنسی کی وہ بات جو جھوٹی ہے قابل مذمت ہے،
لیکن بات اگرسچی ہے تو اس کے ذریعہ کبھی کبھارہنسی کی فضا ہموارکرنا اس میں کوئی مضائقہ نہیں،
چنانچہ رسول اللہﷺ سے بعض مواقع پر ہنسی کی بات کرنا ثابت ہے،
جیسے ایک بار آپ نے ایک بڑھیا سے فرمایا کہ کوئی بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائے گی،
اسی طرح عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺکو اس وقت ہنسے پر مجبورکردیا جب آپ اپنی ازواج مطہرات سے ناراض تھے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2315