Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
72. باب فِيمَنْ يَتَكَنَّى بِأَبِي عِيسَى
باب: ابوعیسیٰ کنیت رکھنا کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 4963
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الزَّرْقَاءِ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ:" أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ضَرَبَ ابْنًا لَهُ تَكَنَّى: أَبَا عِيسَى، وَأَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ تَكَنَّى بابي عِيسَى، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ" أَمَا يَكْفِيكَ أَنْ تُكْنَى بابي عَبْدِ اللَّهِ , فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَنَّانِي , فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، وَمَا تَأَخَّرَ، وَإِنَّا فِي جَلْجَتِنَا، فَلَمْ يَزَلْ يُكْنَى بابي عَبْدِ اللَّهِ حَتَّى هَلَكَ".
اسلم کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک بیٹے کو مارا جس نے اپنی کنیت ابوعیسیٰ رکھی تھی اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے بھی ابوعیسیٰ کنیت رکھی تھی، تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کیا تمہارے لیے یہ کافی نہیں کہ تم ابوعبداللہ کنیت اختیار کرو؟ ۱؎ وہ بولے: میری یہ کنیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی رکھی ہے، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تو اگلے پچھلے سب گناہ بخش دئیے گئے تھے، اور ہم تو اپنی ہی طرح کے چند لوگوں میں سے ایک ہیں ۲؎ چنانچہ وہ ہمیشہ ابوعبداللہ کی کنیت سے پکارے جاتے رہے، یہاں تک کہ انتقال فرما گئے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11487) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: عمر رضی اللہ عنہ نے ابوعیسیٰ کنیت رکھنے سے اس وجہ سے منع کیا کہ اس بات کا خدشہ تھا کہ لوگ اس وہم میں نہ مبتلا ہو جائیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کا بھی کوئی باپ تھا، یہی وجہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ کنیت رکھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے۔
۲؎: مقصد یہ ہے کہ ہم لوگ عام مسلمان ہیں، اور یہ نہیں معلوم کہ ہمارا انجام کیا ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4963 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4963  
فوائد ومسائل:
ابو عیسی ٰ کنیت رکھ لینا جائز ہے، تاہم اس سے احتراز کرنا بہتر ہے۔
تاکہ حضرت عیسی ؑ کا شرف لفظی طور پر بھی محفوط رہے اور کسی کو شُبہ نہ ہو کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے بھی باپ تھے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4963