Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْوُضُوءِ
کتاب: وضو کے بیان میں
33. بَابُ الْمَاءِ الَّذِي يُغْسَلُ بِهِ شَعَرُ الإِنْسَانِ:
باب: جس پانی سے آدمی کے بال دھوئے جائیں اس پانی کا استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟
حدیث نمبر: 170
حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، قَالَ: قُلْتُ لِعُبَيْدَةَ: عِنْدَنَا مِنْ شَعَرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَبْنَاهُ مِنْ قِبَلِ أَنَسٍ أَوْ مِنْ قِبَلِ أَهْلِ أَنَسٍ، فَقَالَ:" لَأَنْ تَكُونَ عِنْدِي شَعَرَةٌ مِنْهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا".
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے عاصم کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابن سیرین سے نقل کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں نے عبیدہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ بال (مبارک) ہیں، جو ہمیں انس رضی اللہ عنہ سے یا انس رضی اللہ عنہ کے گھر والوں کی طرف سے ملے ہیں۔ (یہ سن کر) عبیدہ نے کہا کہ اگر میرے پاس ان بالوں میں سے ایک بال بھی ہو تو وہ میرے لیے ساری دنیا اور اس کی ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 170 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:170  
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا تھا کہ انسان کے بال بدن سے الگ ہونے کے بعد بھی پاک ہیں، اگر پانی میں گرجائیں تو پانی ناپاک نہیں ہوتا۔
اس سلسلے میں انھوں نے حضرت عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ کا قول پیش کیا تھا کہ ان سے سوت اور رسیاں بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
احناف کے ہاں بھی بال پاک تو ہیں لیکن ان کی حرمت وتعظیم کی بنا پر ان کے استعمال کی اجازت نہیں۔
بالوں کی طہارت کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اب ایک مرفوع روایت پیش کی ہے۔
جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کے تبرکات کا ذکر ہے۔
استدلال بایں طور ہے کہ اگر بال ناپاک ہوتے تو اسے بطور تبرک کیوں رکھا جاتا، لیکن اس استدلال پر اشکال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں سے عام انسانی بالوں کی طہارت کو قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے کیونکہ دعویٰ عام اوردلیل خاص ہے۔
اس بنا پر یہ تقریب ناتمام ہے۔
لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے مذاقِ استدلال کے اعتبار سے یہ درست ہے کیونکہ یہاں دو باتیں ہیں، ایک بالوں کی طہارت اور دوسرا ان سے تبرک حاصل کرنا۔
اب یہ بات کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کی طہارت، آپ کی خصوصیت ہے، اس خصوصیت کے لیے دلیل درکار ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقسیم کے وقت بھی اس خصوصیت کا ذکر نہیں فرمایا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام انسانوں کے بال جسم سے الگ ہو کر پاک رہتے ہیں۔
رہا تبرک کا معاملہ تو مخصوص تبرک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی خاص رہے گا۔

مدعیان تدبر کی طرف سے احادیث میں تشکیک پیدا کرنے کے لیے یہ دعویٰ کیا گیا ہے:
امام صاحب نے جو باب باندھا تھا وہ اس پانی کے بارے میں تھا جس سے بال دھوئے جائیں یا جس میں کتے نے منہ ڈال دیا ہو، روایتوں میں اس طرح کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
(تدبر حدیث: 274/1)
پہلی بات تو یہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ان اشیاء سے متعلق جو وقتاً فوقتاً پانی میں گرتی رہتی ہیں شرعی حکم بتانا ہے کہ ایسی چیزیں پانی میں گرا کر اسے نجس کردیتی ہیں یا نہیں؟ یہاں پانی کا ذکرمحل وقوع کے اعتبار سے تبعاً آگیا ہے، پانی کے مسائل بیان کرنا اصل مقصود نہیں کیونکہ پانی سے متعلقہ مسائل آئندہ بیان کریں گے۔
چونکہ عام طور پر یہ چیزیں پانی میں گرتی ہیں اس لیے یہاں پانی کا ذکر کر دیا ورنہ یہ چیزیں پانی کی طرح کھانے کی چیزوں یا دودھ وغیرہ میں بھی گرتی رہتی ہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان میں بالوں کامسئلہ بیان کیا ہے، خواہ وہ پانی میں گریں یاکھانے میں۔
دوسری بات یہ ہے کہ پانی میں بالوں کے گرنے یا ڈالنے کا ذکر دوسری روایات میں موجود ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن موہب کہتے ہیں کہ مجھے میرے گھر والوں نے پانی کا ایک پیالہ دے کر ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس بھیجا کیونکہ ان کے پاس ایک خوبصورت چاندی کی ڈبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک محفوظ تھے۔
آپ انھیں پانی میں ڈال کر ہلاتیں پھر وہ پانی نظر بد یا بخار والے مریض کو پلایا جاتا۔
میں نے اس وقت ڈبیہ میں سرخ رنگ کے موئے مبارک دیکھے تھے۔
(صحیح البخاري، اللباس، حدیث: 5896)
باقی رہا کتے کا پانی میں منہ ڈالنے کا معاملہ، تو اس پرامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب در باب کے طور پرآئندہ ایک مستقل عنوان قائم کیا ہےاور اس کے متعلق روایات بھی ذکر کی ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک کے متعلق اس طرح کا والہانہ اظہار عقیدت حضرات تدبر کی مزعومہ عقلیت پسندی کے خلاف تھا، اس لیے حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پرجذباتی اور جوشیلے ہونے کی پھبتی کسی ہے کیونکہ انھوں نے آپ کے بالوں کو محفوظ کیا تھا۔
اور جن روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود انھیں بال تقسیم کرنے پر مامور کیا تھا اور انھیں موئے مبارک اس مقصد کے لیے عطا فرمائے تھے وہ تمام روایات ان کے نزدیک محل نظر ہیں۔
(تدبرحدیث: 273/1)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں سے یہ حسن عقیدت تنہا ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہ تھی بلکہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اسی قسم کے جذبات تھے چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جبکہ حجام آپ کے سرمبارک کو صاف کررہا تھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کے گرد تھے، وہ چاہتے تھے کہ آپ کا کوئی بال زمین پر گرنے کے بجائے کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرے۔
(صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 6043(2325)
بلکہ عروہ بن مسعود کا بیان اس سے بھی زیادہ حیران کن ہے کیونکہ وہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت وعقیدت بایں الفاظ بیان کرتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کرتے ہیں تو آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین زمین پر گرنے والے پانی کو لینے دوڑ پڑتے ہیں جب آپ لعاب دہن تھوکتے ہیں توجلدی سے اسے اپنے ہاتھوں اورچہروں پرمل لیتے ہیں اور جب کبھی آپ کا موئے مبارک گرتا ہے تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔
(صحیح البخاري، الشروط، حدیث: 2731،2732، و مسند احمد: 324/4)
اس مسئلہ کی مزید تفصیل كتاب اللباس میں آئے گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 170