سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
70. باب فِي تَغْيِيرِ الاِسْمِ الْقَبِيحِ
باب: برے نام کو بدل دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4956
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ:" مَا اسْمُكَ , قَالَ: حَزْنٌ , قَالَ: أَنْتَ سَهْلٌ , قَالَ: لَا، السَّهْلُ يُوطَأُ وَيُمْتَهَنُ" , قَالَ سَعِيدٌ: فَظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُصِيبُنَا بَعْدَهُ حُزُونَةٌ، قَالَ أبو داود: وَغَيَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْمَ الْعَاصِ، وَعَزِيزٍ، وَعَتَلَةَ، وَشَيْطَانٍ، وَالْحَكَمِ، وَغُرَابٍ، وَحُباب، وَشِهَابٍ، فَسَمَّاهُ: هِشَامًا، وَسَمَّى حَرْبًا: سَلْمًا، وَسَمَّى الْمُضْطَجِعَ: الْمُنْبَعِثَ، وَأَرْضًا تُسَمَّى عَفِرَةَ سَمَّاهَا: خَضِرَةَ، وَشَعْبَ الضَّلَالَةِ سَمَّاهُ: شَعْبَ الْهُدَى، وَبَنُو الزِّنْيَةِ سَمَّاهُمْ: بَنِي الرِّشْدَةِ، وَسَمَّى بَنِي مُغْوِيَةَ: بَنِي رِشْدَةَ , قَالَ أبو داود: تَرَكْتُ أَسَانِيدَهَا لِلِاخْتِصَارِ.
سعید بن مسیب کے دادا (حزن رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے؟ کہا: حزن ۱؎ آپ نے فرمایا: ”تم سہل ہو، انہوں نے کہا: نہیں، سہل روندا جانا اور ذلیل کیا جانا ہے، سعید کہتے ہیں: تو میں نے جانا کہ اس کے بعد ہم لوگوں کو دشواری پیش آئے گی (اس لیے کہ میرے دادا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا ہوا نام ناپسند کیا تھا)۔ ابوداؤد کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عاص (گنہگار) عزیز (اللہ کا نام ہے)، عتلہ (سختی) شیطان، حکم (اللہ کی صفت ہے)، غراب (کوے کو کہتے ہیں اور اس کے معنی دوری اور غربت کے ہیں)، حباب (شیطان کا نام) اور شہاب (شیطان کو بھگانے والا ایک شعلہ ہے) کے نام بدل دیئے اور شہاب کا نام ہشام رکھ دیا، اور حرب (جنگ) کے بدلے سلم (امن) رکھا، مضطجع (لیٹنے والا) کے بدلے منبعث (اٹھنے والا) رکھا، اور جس زمین کا نام عفرۃ (بنجر اور غیر آباد) تھا، اس کا خضرہ (سرسبز و شاداب) رکھا، شعب الضلالۃ (گمراہی کی گھاٹی) کا نام شعب الہدی (ہدایت کی گھاٹی) رکھا، اور بنو زنیہ کا نام بنو رشدہ اور بنو مغویہ کا نام بنو رشدہ رکھ دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے اختصار کی غرض سے ان سب کی سندیں چھوڑ دی ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأداب 107 (6190)، 108 (6193)، (تحفة الأشراف: 3400)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/433) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: حزن کے معنی سخت اور دشوار گزار زمین کے ہیں اور سہل کے معنی: نرم اور عمدہ زمین کے ہیں حزن کی ضد۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (6190)
مشكوة المصابيح (4776)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4956 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4956
فوائد ومسائل:
مذکورہ بالا ناموں کے معنی یہ ہیں: عاص نافرمانی کرنے والا، قبول نہ کرنے والا۔
عزیز عزت اور غلبے والا یہ اللہ عزوجل کا نام ہے۔
عتله سخت طبيعت۔
حکم عمدہ فیصلے کرنے والا۔
یہ اللہ عزوجل کا نام ہے۔
غراب کوے کو کہتے ہیں اور اس میں دوری اور فراق کے معنی بھی ہیں۔
کوا نجاستیں بھی کھاتا ہے۔
حباب شیطان کا نام ہے یا سانپ کا یا اس کی ایک قسم بھی ہے۔
شھاب آگ کے شعلے کو کہتے ہیں۔
حرب لڑائی یا بہت زیادہ لڑنے والا۔
سلم سلامتی اور صلح والا۔
مضطجع لیٹنے اور سونے والا۔
المُنبعث جاگنے اور اُٹھنے والا۔
عفرہ بنجر زمین۔
خَضِرہ سرسبز و شاداب زمین۔
شَعب الضلاله بھٹکا دینے والی گھاٹی۔
شَعب الھُدی سیدھی راہ والی گھاٹی۔
بنو الزنية بدکاروں کی اولاد۔
بنو الرُشدہ ہدایت یافتہ لوگوں کی اولاد۔
بنو مغویہ گمراہوں کی اولاد۔
امام بخاری ؒ کی روایت میں ہے: حزن نے کہا: نہیں میرے باپ نے جو نام رکھ دیا ہے وہ میں نہیں بدلتا۔
ابنِ مسیب ؒ کہتے ہیں چناچہ اس وجہ سے (کہ رسول اللہ ﷺ کی بات قبول نہیں کی گئی) ہم پر غمگینی کے اثرات نمایان رہے ہیں۔
وَ لاَ حولَ وَلاَ قُوَۃ إلاَباللہ۔
۔
دیکھئے: (صحیح البخاري، الأدب، باب اسم الحزن، حدیث: 6190)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4956
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6190
6190. حضرت مسیب ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے دریافت فرمایا: تمہارا نام کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میرا نام حزن ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم سہل ہو۔“ انہوں نے کہا: میں اس نام کو تبدیل نہیں کروں گا جو میرے والد رکھ گئے ہیں۔ ابن مسیب نے کہا: اس کے بعد ہمارے خاندان میں ہمیشہ سختی اور مصیبت کا دور رہا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6190]
حدیث حاشیہ:
یہ سزا تھی اس بات کی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشورہ قبول نہیں کیا اورحزن بمعنی سختی قساوت کی جگہ سہل بمعنی نرمی نام پسند نہیں کیا اور یہ نہ جانا کہ نام کا اثر مسمیٰ میں ضرور ہوتا ہے۔
معلوم ہوا کہ ایسا غلط نام والدین اگر رکھ دیں تووہ نام بعد میں بدل کر اچھا نام رکھ دینا چاہیے۔
اکثر عوام اپنے بچوں کا نام غلط ملط رکھ دیتے ہیں۔
حالانکہ سب سے بہتر نام وہ ہے جس میں اللہ پاک کی طرف عبدیت پائی جائے جیسے عبداللہ عبدالرحمن وغیرہ۔
انبیاء کرام کے نام پر نام رکھ دینا بھی جائز درست ہے جیسے ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، عیسیٰ، موسیٰ وغیرہ وغیرہ۔
بعض لوگ شرکیہ نام رکھ دیتے ہیں وہ بہت ہی غلط ہوتے ہیں جیسے عبدالنبی عبدالرسول غلام جیلانی وغیرہ وغیرہ۔
سہل حزن کی ضد ہے۔
یعنی نرم اور ہموار زمین۔
اس سے یہ بھی نکلا کہ بڑا آدمی اگر کوئی مفید مشورہ دے تو اسے قبول کر لینا بہتر ہے خواہ وہ آباء واجداد کی رسموں کے خلاف ہی کیوں نہ پڑتا ہو۔
ماں باپ کے طور طریقے وہیں تک قابل عمل ہوتے ہیں جو شریعت اسلامی کے موافق ہوں ورنہ ماں باپ کی اندھی تقلید کوئی چیز نہیں ہے۔
حضرت سعید بن مسیب کبار تابعین میں سے ہیں۔
خلافت فاروقی کے دوسرے سال یہ پیدا ہوئے اور خلافت ولید بن عبدالملک 94ھ میں ان کا انتقال ہوا۔
ان کے والد حضرت مسیب رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے شجرہ کے نیچے بیعت کی تھی۔
مسیب ہی کے باپ کا نام حزن تھا۔
حزن بن ذبیب بن عمر القریشی المخزومی جو مہاجرین میں سے تھے اور جاہلیت میں اشراف قریش میں ان کا شمار ہوتا تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6190
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6190
6190. حضرت مسیب ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے دریافت فرمایا: تمہارا نام کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میرا نام حزن ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم سہل ہو۔“ انہوں نے کہا: میں اس نام کو تبدیل نہیں کروں گا جو میرے والد رکھ گئے ہیں۔ ابن مسیب نے کہا: اس کے بعد ہمارے خاندان میں ہمیشہ سختی اور مصیبت کا دور رہا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6190]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت حزن رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درست مشورہ قبول نہ کیا جس کی سزا یہ ملی جو ان کے پوتے ابن مسیب بیان کرتے ہیں کیوں کہ حزن کے معنی ہیں:
دشوار اور سخت ہے جبکہ سہل کے معنی ہیں:
نرمی اور لطافت۔
(2)
اس سے معلوم ہوا کہ نام کا اثر مسمی پر ضرور ہوتا ہے۔
اگر والدین جہالت کی وجہ سے غلط نام رکھ دیں تو اسے بعد میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
بہتر نام وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف عبدیت منسوب ہو، پھر انبیائے کرام علیہم السلام کے نام پر نام بھی رکھے جا سکتے ہیں۔
شرکیہ اور غلط ناموں سے بچنا ضروری ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6190