سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
69. باب فِي تَغْيِيرِ الأَسْمَاءِ
باب: نام بدل دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4950
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعِيدٍ الطَّالْقَانِيُّ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُهَاجِرِ الْأَنْصَارِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَقِيلُ بْنُ شَبِيبٍ، عَنْ أَبِي وَهْبٍ الْجُشَمِيِّ وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ، قَالَ: قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَسَمَّوْا بِأَسْمَاءِ الْأَنْبِيَاءِ، وَأَحَبُّ الْأَسْمَاءِ إِلَى اللَّهِ: عَبْدُ اللَّهِ،وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، وَأَصْدَقُهَا: حَارِثٌ، وَهَمَّامٌ، وَأَقْبَحُهَا: حَرْبٌ، وَمُرَّةُ".
ابو وہب جشمی رضی اللہ عنہ، انہیں شرف صحبت حاصل ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انبیاء کے نام رکھا کرو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب و پسندیدہ نام ”عبداللہ“ اور ”عبدالرحمٰن“ ہیں، اور سب سے سچے نام ”حارث“ و ”ہمام“ ہیں ۱؎، اور سب سے نا پسندیدہ و قبیح نام ”حرب“ و ”مرہ“ ہیں ۲؎۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الخیل 2 (3595)، (تحفة الأشراف: 15521)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/345) (صحیح)(اس میں تسموا باسماء الأنبیاء کاٹکڑاصحیح نہیں ہے) (الصحیحة 1040،904، والارواء 1178 وتراجع الالبانی 46)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ یہ دونوں اپنے مشتق منہ سے معنوی طور پر مطابقت رکھتے ہیں چنانچہ حارث کے معنی ہیں کمانے والا، اور ہمام کے معنی قصد و ارادہ رکھنے والے کے ہیں، اور کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو قصد وارادہ سے خالی ہو، یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں نام سچے ہیں۔
۲؎: ان دونوں ناموں میں ان کے ذاتی وصف کے اعتبار سے جو قباحت ہے وہ بالکل واضح ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله تسموا بأسماء الأنبياء
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
نسائي (3595)
ولبعض الحديث شواهد صحيحة
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 172
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4950 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4950
فوائد ومسائل:
1) عبداللہ اور عبد الرحمن جیسے ناموں میں اللہ عزوجل کی طرف بندگی کی نسبت اور اس کا اظہار ہے تو سعادت ہے، اس بندے کے لیے جسے اُٹھتے بیٹھتے موقع بے موقع اس عالی نسب سے پکارا جائے۔
اس کے بالمقابل انسانوں میں کون ہوگا، جسے اسبابِ رزق کی فکر نہ ہو یا کسی طرح کے رنج و الم سے محفوظ ہو؟ اس لیے حارث اور حمام ایسے نام ہیں جو حقیقت سے قریب تر ہیں۔
نیز بقول بعض نام کا اپنے مسمی پر کچھ معنوی اثر بھی ہوتا ہے، اس لیئے اچھے نام رکھنے چاہیئں۔
حرب (لڑاکا) اور مرہ (کڑوہ) بہت برے نام ہیں، لہذا ان سے بچنا چاہیئے۔
2) مذکورہ روایت کی تحقیق کی بابت ہمارے فاضل محقق لکھتے ہیں کہ یہ روایت سنداَ ضعیف ہے، تاہم اس کے شواہد ہیں۔
لیکن اس شواہد کی تفصیل ذکر نہیں کی وہ شواہد کس درجے کے ہیں۔
۔
۔
۔
مذکورہ بالا روایت کے الفاظ (أحب الأسماء عبدالله و الرحمن) صحیح مسلم (حدیث 2132) اور سنن ابو داؤد (حدیث 4949) میں صحیح سند سے مروی ہیں جنہیں خود اُنھوں نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔
نیز روایت کے باقی الفاظ: (تسمو بأسماء الأنبياء) کے الفاظ کے سوا صحیح ہے، جیسا کہ شیخ البانی ؒ نے ذکر کیا ہے۔
تفصیل کے لیئے دیکھئے: (الصحیحة، حديث: 904)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4950
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3595
´کس طرح کا گھوڑا اچھا اور پسندیدہ ہوتا ہے۔`
صحابی رسول ابو وہب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم (اپنے بچوں کے) نام انبیاء کے ناموں پر رکھو، اور اللہ کے نزدیک سب ناموں میں زیادہ پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہے ۱؎، گھوڑے باندھو، ان کی پیشانی سہلاؤ اور ان کے پٹھوں کی مالش کرو، ان کے گلے میں قلادے لٹکاؤ، لیکن تانت کے نہیں، کمیتی (سرخ سیاہ رنگ والے) گھوڑے رکھو جن کی پیشانی اور ٹانگیں سفید ہوں یا اشقر (سرخ زرد رنگ والے) گھوڑے رکھو جن کی پیشا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الخيل/حدیث: 3595]
اردو حاشہ:
(1) نام کا بھی شخصیت پر اثر ہوتا ہے‘ لہٰذا نام اچھا رکھنا چاہیے۔ حدیث کا وہ حصہ جس میں انبیاء علیہم السلام کے نام رکھنے حکم ہے وہ ضعیف ہے‘ تاہم انبیاء والے نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ مستحب ہے۔ نبی اکرمﷺ نے اپنے بیٹے کا نام ابراہیم رکھا تھا۔ ذاتی طور پر انبیاءعلیہم السلام کے نام افضل ہیں اور اپنے بچوں کے نام ان کے نام پر رکھنا ان سے محبت کی علامت ہے۔ لیکن معنی کے لحاظ سے عبداللہ اور عبدالرحمن افضل ہیں جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے کیونکہ ان میں اعتراف عبدیت ہے۔ ان جیسے دیگر ناموں‘ مثلا: عبدالرحیم‘ عبدالحمید وغیرہ کا بھی ان شاء اللہ یہی حکم ہے۔ واللہ أعلم۔
(2) ”ہاتھ پھیرا کرو“ دوسرے معنیٰ یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ انہیں صاف ستھرا رکھا کرو‘ ان کی خوب دیکھ بھال کیا کرو۔
(3) ”تندی نہ ڈالو“ کیونکہ یہ سخت اور تیز ہوتی ہے‘ اس سے گلا کٹنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
(4) ”قرمزی“ سیاہ وسرخ دونوں رنگوں کے امتزاج سے یہ رنگ بنتا ہے۔ اس قسم کے گھوڑوں کا بہتر ثابت ہونا تجربے کی بنیاد پر تھا نہ کہ وحی سے۔ کسی اور علاقے اور زمانے میں اس کی خلاف بھی ممکن ہے۔ ویسے ان رنگوں کے گھوڑے خوب صورت معلوم ہوتے ہیں۔ ماتھے پرپھول کی طرح سفیدی اور چاروں پاؤں گھٹنوں سے نیچے سفید‘ کیا ہی بھلے لگتے ہیں!
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3595