سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
64. باب فِي النَّهْىِ عَنِ اللَّعِبِ، بِالنَّرْدِ
باب: چوسر کھیلنے کی ممانعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4938
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ لَعِبَ بِالنَّرْدِ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے چوسر کھیلا اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الأدب 43 (3762)، موطا امام مالک/الرؤیا 2 (6)، (تحفة الأشراف: 8997)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/394، 397، 400) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ابن ماجه (3762)
سعيد بن أبي هند ثقة،
أرسل عن أبي موسي (تق: 2490) وحديث مسلم (2260) يغني عنه
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 172
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4938 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4938
فوائد ومسائل:
1) (نرد) کا ترجمہ (لُعُبة الطاو لة) کیا گیا ہے، یعنی لکڑی کے تختے پر کھیل جس سے چوسر، کیرم بورڈ، اور لڈو وغیرہ کی قسم کے کھیل مراد ہو سکتے ہیں۔
2) ہمارے فاضل محقق مذکورہ روایت کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ روایت سندََا ضعیف ہے، لیکن صحیح مسلم کی حدیث نمبر 12260 اس روایت سے کفایت کرتی ہے، لہذا معلوم ہوا کہ یہ روایت معناََ قابلِ حجت ہے، نیز شیخ البانی ؒ نے بھی مذکورہ بالا روایت کو حسن قرار دیا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4938
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3762
´نرد (چوسر) کھیلنے کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے «نرد» (چوسر) کھیلا، اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3762]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ہمارے فاضل محقق نے مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ صحیح مسلم کی روایت اس سے کفالت کرتی ہے۔
علاوہ ازیں آئندہ آنے والی روایت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، نیز دیگر محققین نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے، لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل حجت اور قابل عمل ہے۔
واللہ أعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3762