سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
37. باب فِي نَقْلِ الْحَدِيثِ
باب: راز کی باتوں کو افشاء کرنے کی ممانعت۔
حدیث نمبر: 4869
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَافِعٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ ابْنِ أَخِي جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْمَجَالِسُ بِالْأَمَانَةِ إِلَّا ثَلَاثَةَ مَجَالِسَ: سَفْكُ دَمٍ حَرَامٍ، أَوْ فَرْجٌ حَرَامٌ، أَوِ اقْتِطَاعُ مَالٍ بِغَيْرِ حَقٍّ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجلسیں امانت داری کے ساتھ ہیں (یعنی ایک مجلس کی بات دوسری جگہ جا کر بیان نہیں کرنی چاہیئے) سوائے تین مجلسوں کے، ایک جس میں ناحق خون بہایا جائے، دوسری جس میں بدکاری کی جائے اور تیسری جس میں ناحق کسی کا مال لوٹا جائے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 3168)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/342) (ضعیف)»
وضاحت: ۱؎: ان تینوں صورتوں میں سننے والے کے لئے اس کا چھپانا جائز نہیں، بلکہ اس کا افشاء برائی کے دفعیہ کے لیے ضروری ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ابن أخي جابر: مجهول،لم أجد له ترجمة
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 169
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4869 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4869
فوائد ومسائل:
یہ روایت ضعیف ہے۔
مگر حکمت و اخلاق اور دوسرے دلائل کو تقاضا یہی ہے کہ مجلسِ مشاورت میں ہونے والی گفتگو راز اور امانت ہوتی ہے۔
اس کی حفاظت کرنا اصحابِ مجلس پر لازم ہے الا یہ کہ کسی کی جان و مال اور عزت لوٹنے کی بات ہو تو ایسے رازوں کو راز رکھنا حرام ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4869