Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
19. باب مَنْ يُؤْمَرُ أَنْ يُجَالَسَ
باب: کن لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا چاہئے؟
حدیث نمبر: 4834
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الزَّرْقَاءِ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ يَعْنِي ابْنَ بُرْقَانَ، عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ الْأَصَمِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يَرْفَعُهُ، قَالَ:" الْأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ فَمَا تَعَارَفَ مِنْهَا ائْتَلَفَ وَمَا تَنَاكَرَ مِنْهَا اخْتَلَفَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روحیں (عالم ارواح میں) الگ الگ جھنڈوں میں ہوتی ہیں یعنی (بدن کے پیدا ہونے سے پہلے روحوں کے جھنڈ الگ الگ ہوتے ہیں) تو ان میں سے جن میں آپس میں (عالم ارواح میں) جان پہچان تھی وہ دنیا میں بھی ایک دوسرے سے مانوس ہوتی ہیں اور جن میں اجنبیت تھی وہ دنیا میں بھی الگ الگ رہتی ہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/البر والصلة 49 (3638)، (تحفة الأشراف: 14820)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/295، 527، 539) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (2638)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4834 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4834  
فوائد ومسائل:
اگر کسی کو صالحین کی صحبت میسر ہو اور انکے ساتھ انس بھی ہو تو یہ اللہ کی نعمت ہے۔
اس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس تعلق کو اور زیادہ مضبوط بنانا چاہیئے۔
لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو صاحبِ ایمان ہونے کے ناطے چاہیئے کہ بندہ اپنے عمل اور مزاج میں تبدیلی لائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4834   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 201  
´سلیم الفطرت لوگ`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «النَّاسُ مَعَادِنُ كَمَعَادِنِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقِهُوا» . رَوَاهُ مُسلم . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ کان ہیں، جس طرح سونے اور چاندی کی کانیں ھوتی ہیں۔ جو لوگ جاہلیت میں اچھے تھے وہ اسلام میں بھی اچھے ہیں بشرطیکہ وہ سمجھدار ہوں۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 201]

تخریج الحدیث:
[صحيح مسلم 6709]

فقہ الحدیث:
➊ انسانوں میں بعض کو بعض پر فضیلت حاصل ہے۔
➋ جو شخص ناسمجھی میں اخلاص سے اسلام کی مخالفت کرتا تھا تو جب خلوص دل سے مسلمان ہو جاتا ہے، پھر دین اسلام کا دفاع بھی انتہائی خلوص اور عظیم قربانیوں کے ساتھ سرانجام دیتا ہے۔ جو لوگ جاہلیت میں اسلام کے کٹر مخالف تھے مثلاً سیدنا عکرمہ بن ابی جہل (رضی اللہ عنہ) وغیرہ، جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو اپنا مال و جان اور سب کچھ اسلام پر نچھاور کر دیا۔ رضی اللہ عنہم اجمعین
➌ جو شخص دین اسلام (کتاب و سنت) کی نشر و اشاعت میں دل و جان سے ہر وقت مصروف رہے، یہی شخص فقیہ اور صاحب فضل و خیر ہے۔
➍ بہترین اور افضل کو دوسری بہترین چیزوں کے ساتھ تشبیہ دینا جائز ہے، بشرطیکہ توہین و تحقیر مراد نہ ہو لیکن یاد رہے کہ تشبیہ میں ہر لحاظ سے مماثلت ضروری نہیں ہے۔
➎ افضل کو افضل کے ساتھ ہی تشبیہ دینا جائز ہے۔
➏ تمام لوگ اعمال میں برابر نہیں بلکہ مختلف ہوتے ہیں۔
➐ دین میں سوجھ بوجھ (تفقہ) حاصل کرنے کے لئے ہمہ وقت مصروف اور سرگرم رہنا چاہئے۔
➑ جس طرح سونے چاندی کو آگ کی بھٹی میں مختلف عوامل اور حالتوں سے گزارا جاتا ہے، تب کہیں جاکر خالص سونا چاندی تیار ہوتے ہیں، اسی طرح اہل ایمان بھی مختلف تکالیف اور مشقتوں میں صبر سے نکلنے کے بعد کندن (اعلیٰ درجے کے مومنین) بن جاتے ہیں۔
➒ اگر ایمان و اسلام کی نعمت نصیب نہ ہو تو پھر موروثی برتری اور قومی و خاندانی غلبے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 201   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6454  
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگوں کو معدنیات کی طرح پاؤ گے۔ تو جو لوگ جاہلیت کے دورمیں بہتر تھے وہ اسلام کےدورمیں بھی بہتر ہیں بشرط یہ کہ دین کی سوجھ بوجھ حاصل کرلیں،یا اس میں ملکہ پیدا کرلیں اور تم دین کے معاملہ یا حکومت واقتدار میں ان لوگوں کوبہتر پاؤگے،جواس کو سب سے زیادہ ناپسند کرتے تھے،جبکہ وہ اس میں داخل نہیں ہوئےتھے اور تم بدترین لوگ ان کوپاؤگے،جودورخے ہیں،جن کے دو چہرے ہیں،جو ان لوگوں کے پاس ایک چہرے سے آتے ہیں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6454]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
الناس معادن:
لوگ معدنیات کی طرح ہیں اور معدنیات کی خوبیاں اور کمالات اور ان کی قدروقیمت اللہ تعالیٰ نے طبعی طور پر مختلف رکھی ہے۔
سونا چاندی کا درجہ یکساں نہیں ہے،
لعل و جواہر اور پتھر کا درجہ برابر نہیں ہے،
یہی حالت انسانی قبائل اور خاندانوں کی ہے،
اللہ تعالیٰ نے قدرتی طور پر ان میں الگ صفات اور خصوصیات رکھی ہیں،
جن کی بنا پر انہیں ایک دوسرے پر شرف اور برتری حاصل ہے،
لیکن یہ چیز چونکہ قدرتی ہے،
کسبی نہیں ہے،
اس لیے معیار فضیلت نہیں ہے،
معیار فضیلت کسبی چیز ہے،
جس میں انسان کا دخل ہے،
وہ تقویٰ اور دین ہے،
اگر دونوں چیزیں مل جائیں تو یہ نور علی نور ہے،
تقویٰ کے سبب،
نسب خاندان کی فضیلت کو بھی اہمیت حاصل ہو جاتی ہے۔
(2)
هذا الامر ياهذاالشان:
امر اور شان سے مراد دین اور اسلام بھی ہو سکتا ہے کہ جو لوگ اسلام کے شدید مخالف تھے،
وہ اسلام لانے کے بعد اسلام کے شدید حامی ہوں گے،
جیسا کہ حضرت عمر،
حضرت خالد بن ولید،
حضرت عمرو بن عاص،
حضرت عکرمہ بن ابی جہل وغیرہم،
صحابہ کرام کے حالات زندگی اس کی بین دلیل ہیں اور امر و شان سے مراد وہ عہدہ اور منصب بھی ہو سکتے ہیں،
کہ جو لوگ عہدہ منصب کو ناپسند کرتے ہیں،
پھر حالات کی مجبوری سے اس کو قبول کر لیتے ہیں تو وہ ان کے مقابلہ میں بہت بہتر ثابت ہوتے ہیں،
جو ان کے حریص اور خواہاں ہوتے ہیں،
کیونکہ پہلے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی نصرت و حمایت حاصل ہوتی ہے اور اس کی توفیق ان کے شامل حال ہوتی ہے،
جبکہ دوسرا گروہ اللہ کی توفیق و نصرت سے محروم رہتا ہے،
اس لیے حالات اس کے لیے سازگار نہیں رہتے،
بلکہ خراب سے خراب تر ہو جاتے ہیں،
جس کی روشن دلیل آج کی جمہوری حکومتیں ہیں۔
(3)
ذاالوجهين:
دو رخا،
مفادات کا اسیر،
جس کا مذہب چاپلوسی اور تملق ہے،
جس کے پاس گیا،
اس کا ہو گیا اور دوسرے میں عیوب و نقائص ڈالنے شروع کر دیے،
یعنی سامنے تعریف میں آسمان و زمین کے قلابے ملاتے ہیں اور پس پشت اس میں کوئی خوبی نظر نہیں آتی،
ہر عیب نظر آتا ہے،
یعنی ہنر بھی عیب بن جاتے ہیں اور ان کا سکہ کچھ عرصہ تو چلتا ہے،
لیکن انجام کار رسوائی اور ذلت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا،
لیکن بدقسمتی سے آج کل عوام اور خواص سب اس مرض میں مبتلا ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6454   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6709  
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرفوعاً بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا:" لوگ سونے چاندی کی معدن (کان) کی طرح معدنیات ہیں ان میں جو لوگ جاہلیت کے دور میں بہتر تھے وہ اسلام میں بھی بہتر ہیں بشرطیکہ دین کی سوجھ بوجھ پیدا کر لیں۔اور ارواح مجتمع لشکر ہیں چنانچہ جن میں جان پہچان تھی۔ان میں الفت ہو گئی اور جن میں غیریت تھی اجنبی تھیں وہ الگ الگ رہیں گی۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6709]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو معدنیات سے تشبیہ دی ہے،
جن کی صفات و خصوصیات جدا جدا ہیں،
اس طرح لوگوں کی طبائع اور مزاج الگ الگ ہیں اور ان کی قدروقیمت ان خوبیوں اور صفات کے مطابق ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6709   

  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 901  
فوائد ومسائل:
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو مختلف صفات کا حامل بنایا ہے تخلیق اجسام سے پہلے روحیں عالم ارواح میں اکٹھی تھیں۔ اچھی بری صفات کے اختلاف سے وہاں بھی نیکوں اور بروں کے الگ الگ گروہ تھے۔ اسی حساب سے دنیا میں بھی ان کی باہمی محبت اور اختلاف ہے۔ برے لوگ برے لوگوں کے دوست ہیں اور اچھے اچھوں کے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 901   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3353  
3353. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نےکہا کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! لوگوں میں سب سے زیادہ مکرم کون ہے؟ آپ نے فرمایا: جو ان میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔ لوگوں نے عرض کیا: ہم نے یہ سوال نہیں۔ تو آپ نے فرمایا: سب سے زیادہ بزرگ اللہ کے نبی حضرت یوسف ؑ ہیں جو خود نبی تھے، باپ نبی، دادا نبی اور پردادابھی نبی جو اللہ تعالیٰ کے خلیل ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا: ہم نے آپ سے یہ نہیں پوچھا۔ آپ نے فرمایا: تم خاندان عرب کے متعلق پوچھتے ہو؟ ان سب سے جو زمانہ جاہلیت میں بہتر تھے وہی اسلام میں بھی بہتر ہیں بشرطیکہ وہ دین میں فقاہت حاصل کر لیں۔ ابو اسامہ اور معتمر نے عبیداللہ، سعید اور ابو ہریرہ ؓکے واسطے سے اسے نبی ﷺ سے روایت کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3353]
حدیث حاشیہ:

حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ کے پہلے جواب میں اعمال صالحہ کے شرف کی طرف اشارہ تھا۔
جب لوگوں نے اس سے انکار کیا تو آپ نے نسب صالح کے اعتبار سے جو شرف حاصل ہوتا ہے اسے بیان فرمایا۔
جب لوگوں نے اسے بھی تسلیم نہ کیا تو آپ نے وہ صفات بیان فرمائیں جو انسان میں جبلی اور فطری طورپر موجود ہوتی ہیں۔
کسب کاان میں دخل نہیں ہوتا اور لوگ ان پر فخر بھی کرتے ہیں۔
پھر آپ نے دین کی فقاہت بیان کرکے حسب ونسب دونوں کو جمع کردیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ ہرحالت میں عالم دین کو شریف جاہل پرفوقیت حاصل ہے۔

بہرحال شرافت کی درجہ بندی یوں ہے کہ جو دور جاہلیت میں شریف النفس تھا اور اسلام لانے کے بعد بھی اس نے اپنی پیدائشی شرافت کو داغدار نہیں کیا، کیا وہ اللہ کے ہاں بلند مرتبہ ہے۔
اگر اس کے ساتھ دینی فقاہت و بصیرت بھی شامل ہوجائے تو اس کا مقام تو بہت اونچاہے، گویا سونے پر سہاگا ہے۔
البتہ بے دینی کی صورت میں شرافت نسبی کا کوئی مقام نہیں۔
لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں صرف حسب ونسب ہی شرافت کا میعار بنا ہوا ہے خواہ وہ معاشرے میں رسہ گیرہی کیوں نہ ہو۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3353   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3493  
3493. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: تم لوگوں کو کان کی طرح پاؤ گے۔ جو لوگ دور جاہلیت میں بہتر تھے وہ زمانہ اسلام میں بھی اچھی صفات کے حامل ہیں بشرط یہ کہ علم دین حاصل کریں۔ اور تم حکومت اور سرداری کے لائق اس شخص کو پاؤ گے جو اسے سخت ناپسند کرنے والا ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3493]
حدیث حاشیہ:

کان سے جب سونا چاندی نکالاجاتا ہے تو اس کی ذاتی صفت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، اسی طرح لوگوں میں جو ذاتی شرافت ہوتی ہے۔
وہ اسلام سے پہلے اور بعد دونوں زمانوں میں برقراررہتی ہے۔
اگر وہ دین میں فقاہت اور سمجھ پیدا کرلے تو اس کی ذاتی شرافت میں مزید چمک اور روئیدگی پیدا ہوجاتی ہے۔
اس اعتبار سے لوگوں کی اپنے مقابل کے اعتبار سے چارقسمیں ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۔
ایک آدمی دورجاہلیت میں شریف الطبع تھا وہ مسلمان ہوا اوردین میں خوب سمجھ پیدا کی تو اس کے مقابلے میں وہ شخص انتہائی براہے جو دورجاہلیت میں بدمعاش تھا، نہ اسلام لایا اور نہ اس نے کوئی اپنی سمجھ بوجھ ہی کو جلابخشی۔
۔
جو شخص زمانہ جاہلیت میں شریف الطبع تھا وہ مسلمان ہوا لیکن دینی معاملات میں بصیرت پیدا نہ کرسکاتو اس کے مقابلے میں وہ شخص ہے جو دور جاہلیت میں شرافت والا نہیں تھا، وہ مسلمان نہ ہوا، البتہ وہ صاحب البصیرت ضرورتھا۔
۔
دور جاہلیت میں شریف تھا لیکن وہ مسلمان نہ ہوا اور نہ فقاہت کا مالک ہی بنا، اس کے مقابلے میں وہ شخص ہے جو دور جاہلیت میں بدخصلت تھاوہ مسلمان ہوا اوردین میں سمجھ بوجھ پیدا کی۔
۔
دورجاہلیت میں شرافت کا حامل تھا لیکن وہ مسلمان نہ ہوا، البتہ صاحب بصیرت تھا،اس کے مقابلے میں وہ شخص ہے جو زمانہ جاہلیت میں شرارتی تھا، وہ مسلمان تو ہوا لیکن دینی معاملات میں سمجھ بوجھ پیدا نہ کرسکا۔
ان میں سب سے افضل وہ شخص ہے جو زمانہ جاہلیت میں شریف الطبع تھا، پھر مسلمان ہوا اور اپنے دین میں فہم وبصیرت پیدا کی۔
اس کےبعد وہ شخص جو زمانہ جاہلیت میں کمینہ خصلت تھا لیکن اسلام لایا اور علم دین حاصل کیا۔
اس کے بعد اس شخص کا درجہ ہے جو زمانہ جاہلیت میں شریف تھا، اسلام لایا لیکن علم دین حاصل نہ کیا۔
سب سے آخر میں وہ شخص ہے جو زمانہ جاہلیت میں بری خصلتوں کاحامل تھا، وہ مسلمان ہوا لیکن بصیرت حاصل نہ کرسکا۔
اگرکوئی مسلمان نہیں ہواتو اسے دورجاہلیت کی شرافت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، خواہ وہ صاحب بصیرت ہویا اس کے بغیر رہا ہو۔
شرافت سے مراد اچھے اخلاق، مثلاً:
سخاوت، عفت اور بردباری سے متصف ہو اور اس کے برعکس بری صفات، مثلاً:
بخل، فسق وفجور اور ظلم وستم کرنے سے اجتناب کرنے والا ہو۔
(فتح الباري: 638/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3493