Note: Copy Text and Paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
15. باب فِي الْجُلُوسِ بَيْنَ الظِّلِّ وَالشَّمْسِ
باب: کچھ دھوپ اور کچھ سائے میں بیٹھنا کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 4821
حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، وَمَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ فِي الشَّمْسِ، وَقَالَ مَخْلَدٌ: فِي الْفَيْءِ، فَقَلَصَ عَنْهُ الظِّلُّ وَصَارَ بَعْضُهُ فِي الشَّمْسِ وَبَعْضُهُ فِي الظِّلِّ، فَلْيَقُمْ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی دھوپ میں ہو (مخلد کی روایت) سایہ میں ہو، پھر سایہ اس سے سمٹ گیا ہو اس طرح کہ اس کا کچھ حصہ دھوپ میں آ جائے اور کچھ سایہ میں رہے تو چاہیئے کہ وہ اٹھ جائے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 15504)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/383) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس لئے کہ اس سے ضرر کا اندیشہ ہے، جیسے بیک وقت گرم و سرد چیز کا استعمال مضر ہوتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4821 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافظ زبير علي زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود4821  
فوائد و مسائل
مشکوٰۃ والی روایت سنن ابی داؤد (کتاب الادب، باب 15 ح 4821) مسند الحمیدی (بتحقیقی: 1145) اور السنن الکبریٰ للبیہقی (236، 237/3) میں «محمد بن المنكدر قال: حدثني من سمع أباهريرة» کی سند سے موجود ہے۔
اس میں حدثنی کا فاعل «من سمع» مجہول ہے۔ لہٰذا یہ سند ضعیف ہے۔
منذری نے کہا:
«وتابعيه مجهول»
اور اس کا (راوی) تابعی مجہول ہے۔ [الترغيب و الترهيب 59/4]

تنبیہ:
اس مجہول تابعی کا ذکر مسند احمد (383/2 ح 8976) وغیرہ سے گر گیا ہے۔
شرح السنۃ للبغوی (301/12 ح 3335) والی روایت موقوف اور منقطع ہے۔
اور اس میں محمد بن المنکدر اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اس حدیث میں مجہول واسطہ گر گیا ہے۔
شرح السنہ والی روایت مصنف عبدالرزاق میں بھی موجود ہے۔ [ج11 ص 23، 24 ح 19799]
صاحبِ مصنف: عبدالرزاق الصنعانی رحمہ اللہ مدلس تھے،
لہٰذا جب تک ان کی بیان کردہ سند میں ان کے سماع کی تصریح نہ ہو، اس سے استدلال جائز نہیں ہے۔
امام عبدالرزاق کی تدلیس کے لئے دیکھیے کتاب الضعفاء للعقیلی ج3 ص 110، 111 و سندہ صحیح
عبدالرزاق نے ضعیف سند کے ساتھ محمد بن المنکدر سے نقل کیا ہے کہ وہ دھوپ اور چھاؤں میں بیٹھنا جائز سمجھتے تھے۔ [ح19801 عن اسماعيل بن ابراهيم بن ابان]
امام عبدالرزاق نے «عن معمر عن قتادة» کی سند سے نقل کیا ہے کہ قتادہ (تابعی) دھوپ اور چھاؤں میں بیٹھنا مکروہ سمجھتے تھے۔ (ح 19800) اس کی سند تدلیسِ عبدالرزاق کی وجہ سے ضعیف ہے۔

مجہول تابعی والی مرفوع روایت کے دو شاہدوں کی تحقیق درج ذیل ہے:
«قتادة عن كثير (بن أبى كثير البصري) عن أبى عياض (عمرو بن الأسود العنسي) عن رجل من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم إلخ» [مسند احمد 413، 414/3 ح 15421]
اس میں قتادہ راوی مدلس ہے اور روایت عن سے ہے۔ شیخ البانیؒ نے ابوبکر الشافعی کی «حديثه» (قلمی 2/4) سے نقل کیا ہے کہ اس شعبہ نے قتادہ سے بیان کیا ہے۔ [السلسلة الصحيحه: 838]
شیخ صاحب نے شعبہ تک سند بیان نہیں کی لہٰذا یہ حوالہ بھی مردود ہے۔
اس کے برعکس مسدد بن مسرهد نے «يحييٰ (بن سعيد القطان) عن شعبه» کی سند سے اس روایت کو مرسلاً بیان کیا ہے۔ دیکھیے اتحاف المھرۃ [16/2 ص 763 ح 21215]
معلوم ہوا کہ متصل سند میں تدلیس کی وجہ سے گڑ بڑ ہے۔
تدلیس والی یہی روایت مستدرک الحاکم [271/4 ح 7710] میں «عن أبى هريرة» کی سند سے موجود ہے،
اسے حاکم اور ذہبی دونوں نے صحیح کہا ہے لیکن اس کی سند قتادہ کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔
قتادہ کی ایک مرسل رویت کے لئے دیکھیے: مصنف ابن ابی شیبہ [491/8 ح 25949]

«أبو المنيب عن ابن بريدة عن أبيه أن النبى صلى الله عليه وسلم نهي أن يقعد بين الظل و الشمس»
بریدہ (بن الحصیبؓ) سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوپ اور چھاؤں میں بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔ [ابن ماجه 3722، ابن ابي شيبه فى المصنف 491/8 ح 25954، المستدرك 272/4 ح 7714]
اس کی سند حسن ہے۔ [تسهيل الحاجة، قلمي ص 261]
اسے بوصیری نے حسن قرار دیا ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ «مجلس الشيطان» یا «مقعد الشيطان» کے الفاظ کے بغیر یہ روایت حسن ہے لہٰذا سنن ابی داؤد والی روایت بھی اس سے حسن بن جاتی ہے۔
عکرمہ تابعی فرماتے ہیں:
کہ جو شخص دھوپ اور چھاؤں میں بیٹھتا ہے تو ایسا بیٹھنا شیطان کا بیٹھنا ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 4891/8 ح 25953 وسنده صحيح]
عبید بن عمیر (تابعی) نے فرمایا:
دھوپ اور چھاؤں میں بیٹھنا شیطان کا بیٹھنا ہے۔ [ابن ابي شيبه: 25952 و سنده صحيح]
لہٰذا ایسے بیٹھنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔
«وما علينا إلا البلاغ»
(19 صفر 1427؁ھ)
   تحریر الشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1