سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
13. باب فِي الْجُلُوسِ فِي الطُّرُقَاتِ
باب: راستوں میں بیٹھنے کے حقوق و آداب کا بیان۔
حدیث نمبر: 4819
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ امْرَأَةً كَانَ فِي عَقْلِهَا شَيْءٌ، بِمَعْنَاهُ.
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت تھی جس کی عقل میں کچھ فتور تھا پھر انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/ الفضائل 23 (2326)، (تحفة الأشراف: 326)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/285) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2326)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4819 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4819
فوائد ومسائل:
1) کسی ضرورت کی بنا پر کہیں سرِراہ بیٹھنا پڑ جائے تو کو ئی معیوب نہیں۔
اس حدیث کا یہ مفہوم بھی لیا گیا ہے کہ آپ ﷺ نے سرِ راہ بیٹھنے کی بجائے کسی ایک طرف الگ ہو کر بیٹھنے کا کہا تھا۔
2) سادہ لوح اور بے عقل قسم لوگوں کی دلداری کرنا بھی شرعی اور اخلاقی فریضہ ہے۔
اس طرح یہ لوگ کافی حد تک خوش اور پرسکون ہو جا تے ہیں۔
ورنہ پریشان ہونے کی وجہ سے کئی طرح کی حرکتیں کرتے ہیں۔
ایسے لوگوں سے استہزاہ کرنا اور اُنھیں مسخرہ بنانا قطعاَ روا نہیں۔
ایسا عمل اُن پر بہت بڑا ظلم ہے اور ایسا کرنے والے بہت بڑے ظالم ہوتے ہیں۔
اسلام اس کی قطعاََ اجازت نہیں دیتا۔
3) قضاء الحاجة ايک عام تركيب اور جملہ ہے، جیسے اس روایت میں آیا ہے اور اس کے معنی بھی واضح ہیں کہ وہ جو بات کرنا چاہتی تھی وہ اس نے کر لی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4819