Note: Copy Text and to word file

سنن ابي داود
كِتَاب السُّنَّةِ
کتاب: سنتوں کا بیان
17. باب فِي الْقَدَرِ
باب: تقدیر (قضاء و قدر) کا بیان۔
حدیث نمبر: 4709
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: قِيلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ أَعُلِمَ أَهْلُ الْجَنَّةِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَفِيمَ يَعْمَلُ الْعَامِلُونَ؟ قَالَ: كُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا جنتی اور جہنمی پہلے ہی معلوم ہو چکے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اس نے کہا: پھر عمل کرنے والے کس بنا پر عمل کریں؟ آپ نے فرمایا: ہر ایک کو توفیق اسی بات کی دی جاتی ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/القدر 2 (6596)، والتوحید 53 (7551)، صحیح مسلم/القدر 1 (2649)، (تحفة الأشراف: 10859)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/427، 431) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (6556) صحيح مسلم (2649)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4709 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4709  
فوائد ومسائل:
اس حدیث میں تقدیرکو صراحتًا (اللہ کا) علم قراردیا گیا ہے، اس معنی کی احادیث میں اہل خیر کو ایک حد تک خیر کی بشارت اور امید دلائی گئی ہے اور دوسروں کے لئے تنبیہ اور توبہ کی دعوت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4709   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 87  
´قسمت میں لکھا پورا ہو کر رہتا ہے`
«. . . ‏‏‏‏وَعَن عمرَان بن حضين: إِن رجلَيْنِ من مزينة أَتَيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ مَا يَعْمَلُ النَّاسُ الْيَوْمَ وَيَكْدَحُونَ فِيهِ أَشِيءٌ قُضِيَ عَلَيْهِمْ وَمَضَى فيهم من قدر قد سَبَقَ أَوْ فِيمَا يَسْتَقْبِلُونَ بِهِ مِمَّا أَتَاهُمْ بِهِ نَبِيُّهُمْ وَثَبَتَتِ الْحُجَّةُ عَلَيْهِمْ فَقَالَ لَا بَلْ شَيْءٌ قُضِيَ عَلَيْهِمْ وَمَضَى فِيهِمْ وَتَصْدِيقُ ذَلِكَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ (وَنَفْسٍ وَمَا سواهَا فألهمها فجورها وتقواها) ‏‏‏‏رَوَاهُ مُسلم ‏‏‏‏ . . .»
. . . سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ مزینہ قبیلہ کے دو آدمیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ یہ فرمائیے جو کچھ آج کل لوگ کام کرتے ہیں اور اس کے حاصل کرنے میں محنت و مشقت کرتے ہیں، کیا وہ ایسی چیز ہے جو ان کے مقدر میں لکھی جا چکی ہے اور ان کی تقدیر میں گزر چکی ہے یعنی جو کچھ لوگ کرتے ہیں یہ سب پہلے تقدیر میں لکھا جا چکا ہے یا آئندہ وہ چیز ہونے والی ہے جن کو ان کا نبی لایا ہے اور ان پر حجت و دلیل ثابت ہو چکی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں! اس کا فیصلہ ہو چکا اور یہ چیز ان پر گزر چکی ہے اس کی تصدیق اللہ عزوجل کی کتاب میں ہے «ونفس وما سواها ٭فألهمها فجورها وتقواها» الایۃ یعنی قسم ہے جان کی اور اس کے بنانے والے کی، پھر اس کے دل میں بھلائی و برائی ڈال دی ہے۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 87]
تخریج:
[صحيح مسلم 6739]

فقہ الحدیث:
➊ معلوم ہوا کہ تقدیر پہلے سے مقرر شدہ ہے اور انسان مجبور محض نہیں، بلکہ اپنے اعمال میں خود مختار ہے۔
➋ حدیث اور قرآن ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 87   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6739  
ابو الاسود ولی کہتے ہیں،مجھے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کیا جانتے ہو؟آج لوگ جو عمل کر رہے ہیں اور اس کے لیے جو مشقت برداشت کر رہے ہیں،کیا یہ ایسی چیز ہے جس کا ان کے بارے میں فاصلہ کر دیا گیا ہے وہ سابقہ تقدیر سے یہ طے ہو چکے ہیں؟یا ان کا نبی جو شریعت لایا اور ان پر حجت قائم ہو گئی ہے، اس کی روشنی میں نئے سرے سے ہو رہے ہیں؟ تو میں نے کہا بلکہ یہ ایسی چیز ہے، جس کا ان کے بارے میں فیصلہ ہو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6739]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوا،
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو بدی اور تقویٰ کے درمیان امتیاز کرنے کی صلاحیت اور شعور بخشا ہے اور اس سے کام لے کر،
وہ نیکی یا بدی کر رہا ہے،
لیکن اللہ کو پہلے سے پتہ ہے،
اس نے نیکی کرنی ہے یا بدی،
اس لیے اپنے علم کے مطابق اس نے لکھ دیا ہے کہ اس نے کون سے عمل کرنے ہیں اور اس کے مطابق وہ عمل کر رہا ہے،
اس لیے یہ جبر نہیں ہے کہ اس کو ظلم قرار دیا جائے،
بالفرض وہ اگر جبر بھی کرتا تو یہ ظلم نہ ہوتا،
کیونکہ وہ ہر چیز کا خالق اور مالک ہے،
اس لیے وہ کسی کو جواب دہ نہیں ہے،
انسان مخلوق ہونے کی بنا پر اپنے اعمال کا جوابدہ ہے،
اس سے سوال ہو گا تو نے یہ عمل کیوں کیا،
لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ ﴿٢٣﴾ (سورۃ الانبیاء)
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6739   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6596  
6596. حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا جنتی لوگ اہل جہنم سے پہچانے جا چکے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں اس نے عرض کی: پھر عمل کرنے والے عمل کیوں کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہر شخص وہی عمل کرتا ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے یا جواس کے لیے آسان کیا گیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6596]
حدیث حاشیہ:
رشك بکسر یزید کا لقب ہے، ان کی ڈاڑھی بہت ہی لمبی تھی۔
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کو لازم ہے کہ نیک کاموں کی کوشش کرے اور اللہ سے جنتی ہونے کی دعا بھی کرے کیونکہ دعا سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور دعا کرنا بھی تقدیر سے ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6596   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7551  
7551. حضرت عمرانؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! پھر لوگ عمل کس لیے کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا:ہر شخص کے لیے اس عمل میں آسانی پیدا کر دی گئی ہے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7551]
حدیث حاشیہ:
یعنی جس کی قسمت میں جنت ہے اس کو خود بخوداعمال خیر کو توفیق ہوگی وہ نیک کاموں میں راغب ہوگا اورجس کی تقدیر میں دوزخ ہے اس کو نیک کاموں سےنفرت اور برے کاموں کی رغبت ہوگی۔
یہ دونوں احادیث اوبرگزرچکی ہیں۔
یہاں لفظ تیسیر کی مناسبت سے ان کو لائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7551   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6596  
6596. حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا جنتی لوگ اہل جہنم سے پہچانے جا چکے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں اس نے عرض کی: پھر عمل کرنے والے عمل کیوں کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہر شخص وہی عمل کرتا ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے یا جواس کے لیے آسان کیا گیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6596]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اصل فیصلہ وہی ہوتا ہے جو قضا و قدر انسان کے متعلق کر چکی ہے، باقی رہے ہمارے ظاہری اعمال تو وہ انسان کے اچھے اور برے ہونے کی صرف ظاہری نشانیاں ہیں۔
اچھے اعمال سے حسن خاتمہ کی امید اور برے اعمال سے برے خاتمے کا اندیشہ ضرور ہوتا ہے۔
اس کی مزید وضاحت درج ذیل حدیث سے ہوتی ہے۔
(2)
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ قبیلۂ مزینہ کے دو آدمیوں نے عرض کی:
اللہ کے رسول! لوگ جو آج عمل کر رہے ہیں اور اس کے لیے محنت و کوشش کر رہے ہیں کیا یہ ایسی چیز ہے جس کا فیصلہ کیا جا چکا ہے اور پہلے سے جو تقدیر ہے وہ نافذ ہو چکی ہے یا وہ اس چیز کی طرف جا رہے ہیں جو ان کے نبی ان کے پاس لے کر آئے اور ان کے خلاف حجت قائم کی؟ آپ نے فرمایا:
نہیں، بلکہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا ان کے متعلق فیصلہ ہو چکا ہے اور تقدیر ان کے متعلق نافذ ہو چکی ہے اور اس بات کی تصدیق اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے:
اور نفس کی اور اس ذات کی قسم جس نے اسے درست کیا! پھر بدکاری اور پرہیزگاری (دونوں)
کی اسے سمجھ عطا کی۔
(الشمس 7/91، 8، و صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6739 (2650) (3)
واضح رہے کہ اس معنی کی دیگر احادیث میں اہل خیر کو ایک حد تک خیر کی بشارت اور امید دلائی گئی ہے اور دوسروں کے لیے تنبیہ اور توبہ کی دعوت ہے۔
بہرحال ہر شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ نیک اعمال کی کوشش کرے اور اللہ تعالیٰ سے جنتی ہونے کی دعا کرتا رہے۔
واللہ المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6596