صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
147. بَابُ الْمُحَصَّبِ:
باب: وادی محصب کا بیان۔
حدیث نمبر: 1766
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: عَمْرٌو عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" لَيْسَ التَّحْصِيبُ بِشَيْءٍ، إِنَّمَا هُوَ مَنْزِلٌ نَزَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن عطاء بن ابی رباح نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ محصب میں اترنا حج کی کوئی عبادت نہیں ہے، یہ تو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کی جگہ تھی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1766 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1766
حدیث حاشیہ:
محصب میں ٹھہرنا کوئی حج کا رکن نہیں۔
آپ ﷺ وہاں آرام کے لیے اس خیال سے کہ مدینہ کی روانگی وہاں سے آسان ہوگی ٹھہر گئے تھے، چنانچہ عصرین و مغربین آپ نے وہیں ادا کیں، اس پر بھی جب آپ ﷺ وہاں ٹھہرے تو یہ ٹھہرنا مستحب ہو گیا اور آپ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ بھی وہاں ٹھہرا کرتے تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1766
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1766
حدیث حاشیہ:
(1)
وادئ محصب میں قیام کرنا سنت ہے یا نہیں؟ اس کے متعلق علمائے سلف میں اختلاف ہے۔
حضرت عائشہ اور ابن عباس ؓ وہاں پڑاؤ کرنے کو مسنون نہیں سمجھتے تھے کیونکہ رسول اللہ ﷺ وہاں زوال کے بعد صرف آرام کرنے کے لیے اترے تھے۔
وہاں عصرین اور مغربین ادا فرمائی تھیں۔
اس مقام پر پڑاؤ کرنا مناسک حج میں سے نہیں۔
حضرت ابن عمر ؓ وہاں پڑاؤ کرنے کو مسنون کہتے تھے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا وہاں نزول ثابت ہے اور خلفائے راشدین کا بھی اس پر عمل رہا ہے لیکن ان کے نزدیک بھی اس کا حج سے کوئی تعلق نہیں، البتہ اسے ایک الگ سنت قرار دیا جا سکتا ہے۔
(2)
ہمارے نزدیک رسول اللہ ﷺ کا وادئ محصب میں پڑاؤ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ دیا جبکہ مشرکین نے اسلام کو نیست و نابود کرنے کے لیے اس مقام پر قسمیں اٹھائی تھیں، اس بنا پر وہاں اترنے کو مستحب قرار دیا جا سکتا ہے جبکہ وہاں سے گزر ہو، البتہ وہاں پڑاؤ کرنے کا مناسک حج سے کوئی تعلق نہیں۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1766
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 922
´وادی ابطح میں قیام کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ وادی محصب میں قیام کوئی چیز نہیں ۱؎، یہ تو بس ایک جگہ ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 922]
اردو حاشہ:
1؎:
محصب میں نزول و اقامت مناسک حج میں سے نہیں ہے،
رسول اللہ ﷺ نے زوال کے بعد آرام فرمانے کے لیے یہاں اقامت کی،
ظہر و عصر اور مغرب اورعشاء پڑھی اور چودھویں رات گزاری،
چونکہ آپ نے یہاں نزول فرمایا تھا اس لیے آپ کی اتباع میں یہاں کی اقامت مستحب ہے،
خلفاء نے آپ کے بعد اس پر عمل کیا،
امام مالک امام شافعی اور جمہور اہل علم نے رسول اکرم ﷺ اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی اقتداء میں اسے مستحب قرار دیا ہے اگر کسی نے وہاں نزول نہ کیا تو بالاجماع کوئی حرج کی بات نہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 922
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:506
506- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: محصب میں پڑاؤ کرنا کوئی چیز نہیں ہے، وہ صرف ایک پڑاؤ کی جگہ ہے جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کیا تھا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:506]
فائدہ:
وادی محصب میں ہے لیکن اس کا تعلق مواضع حج سے نہیں ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 506