سنن ابي داود
كِتَاب الْحُدُودِ
کتاب: حدود اور تعزیرات کا بیان
25. باب الْمَرْأَةِ الَّتِي أَمَرَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِرَجْمِهَا مِنْ جُهَيْنَةَ
باب: قبیلہ جہینہ کی ایک عورت کا ذکر جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کرنے کا حکم دیا۔
حدیث نمبر: 4442
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ الْمُهَاجِرِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ امْرَأَةً يَعْنِي مِنْ غَامِدَ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ:" إِنِّي قَدْ فَجَرْتُ، فَقَالَ: ارْجِعِي فَرَجَعَتْ، فَلَمَّا أَنْ كَانَ الْغَدُ أَتَتْهُ، فَقَالَتْ: لَعَلَّكَ أَنْ تَرُدَّنِي كَمَا رَدَدْتَ مَاعِزَ بْنَ مَالِكٍ فَوَاللَّهِ إِنِّي لَحُبْلَى، فَقَالَ لَهَا: ارْجِعِي فَرَجَعَتْ، فَلَمَّا كَانَ الْغَدُ أَتَتْهُ، فَقَالَ لَهَا: ارْجِعِي حَتَّى تَلِدِي فَرَجَعَتْ، فَلَمَّا وَلَدَتْ أَتَتْهُ بِالصَّبِيِّ، فَقَالَتْ: هَذَا قَدْ وَلَدْتُهُ، فَقَالَ لَهَا: ارْجِعِي فَأَرْضِعِيهِ حَتَّى تَفْطِمِيهِ فَجَاءَتْ بِهِ وَقَدْ فَطَمَتْهُ وَفِي يَدِهِ شَيْءٌ يَأْكُلُهُ، فَأَمَرَ بِالصَّبِيِّ فَدُفِعَ إِلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَأَمَرَ بِهَا فَحُفِرَ لَهَا وَأَمَرَ بِهَا فَرُجِمَتْ، وَكَانَ خَالِدٌ فِيمَنْ يَرْجُمُهَا فَرَجَمَهَا بِحَجَرٍ فَوَقَعَتْ قَطْرَةٌ مِنْ دَمِهَا عَلَى وَجْنَتِهِ فَسَبَّهَا، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَهْلًا يَا خَالِدُ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ تَابَهَا صَاحِبُ مَكْسٍ لَغُفِرَ لَهُ، وَأَمَرَ بِهَا فَصُلِّيَ عَلَيْهَا فَدُفِنَتْ".
بریدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ قبیلہ غامد کی ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور عرض کیا: میں نے زنا کر لیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واپس جاؤ“، چنانچہ وہ واپس چلی گئی، دوسرے دن وہ پھر آئی، اور کہنے لگی: شاید جیسے آپ نے ماعز بن مالک کو لوٹایا تھا، اسی طرح مجھے بھی لوٹا رہے ہیں، قسم اللہ کی میں تو حاملہ ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ واپس جاؤ“ چنانچہ وہ پھر واپس چلی گئی، پھر تیسرے دن آئی تو آپ نے اس سے فرمایا: ”جاؤ واپس جاؤ بچہ پیدا ہو جائے پھر آنا“ چنانچہ وہ چلی گئی، جب اس نے بچہ جن دیا تو بچہ کو لے کر پھر آئی، اور کہا: اسے میں جن چکی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ واپس جاؤ اور اسے دودھ پلاؤ یہاں تک کہ اس کا دودھ چھڑا دو“ دودھ چھڑا کر پھر وہ لڑکے کو لے کر آئی، اور بچہ کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی جسے وہ کھا رہا تھا، تو بچہ کے متعلق آپ نے حکم دیا کہ اسے مسلمانوں میں سے کسی شخص کو دے دیا جائے، اور اس کے متعلق حکم دیا کہ اس کے لیے گڈھا کھودا جائے، اور حکم دیا کہ اسے رجم کر دیا جائے، تو وہ رجم کر دی گئی۔ خالد رضی اللہ عنہ اسے رجم کرنے والوں میں سے تھے انہوں نے اسے ایک پتھر مارا تو اس کے خون کا ایک قطرہ ان کے رخسار پر آ کر گرا تو اسے برا بھلا کہنے لگے، ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خالد! قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ ٹیکس اور چنگی وصول کرنے والا بھی ایسی توبہ کرتا تو اس کی بھی بخشش ہو جاتی“، پھر آپ نے حکم دیا تو اس کی نماز جنازہ پڑھی گئی اور اسے دفن کیا گیا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحدود 5 (1695)، (تحفة الأشراف: 1947)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/547، 348)، سنن الدارمی/الحدود 14 (2366) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1695)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4442 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4442
فوائد ومسائل:
1) فوائد اوپر کی روایت میں مذکور ہو چکے ہیں۔
مزید یہ کہ جس مسلمان کو حد لگائی جا رہی ہو اسکو برا بھلا کہنا جائز نہیں۔
2) بھتا لینا کبیرہ گناہ اور حرام ہے۔
3) ولد الزنا بحثییت انسانی جان کےایک معصوم جان ہے، اس میں اس کا اپنا کوئی قصوروعیب نہیں، حکومت اسلامیہ کے ذمے ہے کہ ایسے بچے کے دودھ پلانے، پالنے پوسنے اور عمدہ تعلیم وتربیت کا معقول انتظام کرے اور اخراجات برداشت کرے۔
4) ایسا شخص اپنے نسب کے اعتبار سے اگرچہ عام لوگوں سے عزت نہیں پاتا، لیکن اگر کسی طرح منصب امامت (صغری یاکبٰری) پر آجائے تواس کے اعمال صحیح اور درست ہوں گے اور اس کی اقتداء بھی صحیح ہوگی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4442
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 445
´جسے شرعی حد لگی ہوا اور وہ جاں بحق ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی`
”سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے غامدیہ کے قصہ میں مروی ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارتکاب زنا کی پاداش میں رجم و سنگساری کا حکم دیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ ادا کرنے کا حکم دیا پھر خود اس کی جنازہ پڑھی اور اسے دفن کیا گیا۔“ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 445]
لغوي تشريح:
«فِي قِصَّةِ الْغَامِدِيَّةِ» غامد کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے انہیں غامدیہ کہا جاتا ہے جو کہ قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ تھی۔ اس کا قصہ یہ ہے کہ اس خاتون نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو اعتراف کیا کہ وہ زنا سے حاملہ ہے، لہٰذا نبی صلى الله عليه وسلم نے بچے کی ولادت اور مدت رضاعت مکمل ہو جانے کے بعد اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔ رجم کا مطلب یہ ہے کہ مجرم کو پتھروں سے مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔
«فَصَّلّٰي عَلَيْهَا» اکثر شارحین کے نزدیک یہ معروف کا صیغہ ہے اور بعض کے نزدیک صیغہ مجہول ہے۔
فوائد و مسائل:
➊ یہ حدیث اس کی دلیل ہے کہ جسے شرعی حد لگی ہوا اور وہ جاں بحق ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [ارواء الغليل، حديث: 2323 ونيل الاوطار، باب الصلاة على من قتل فى حد]
➋ صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود غامدیہ کی نماز جنازہ ادا فرمائی تھی۔ کبیرہ گناہوں کا ارتکا ب کرنے والے، مثلاً خودکشی کرنے اور زنا وغیرہ کرنے والے کے بارے میں قاضی عیاض نے کہا ہے کہ علماء کے نزدیک ان کا جنازہ پڑھا جائے گا، البتہ امام مالک رحمہ الله فرماتے ہیں کہ امام (کبیر) اور مفتی کو فاسق کا جنازہ پڑھانے سے گریز کرنا چاہیے تاکہ فساق کو اس سے عبرت حاصل ہو۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 445
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4433
´ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کے رجم کا بیان۔`
بریدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز کا منہ سونگھا (اس خیال سے کہ کہیں اس نے شراب نہ پی ہو)۔ [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4433]
فوائد ومسائل:
ازخود اقراری کے لئے یہ یقین کرلینا ضروری ہے کہ کہیں نشےمیں نہ ہو۔
اس سےیہ بھی معلوم ہوا کہ نشے اور بے ہوشی کے اعمال معتبر نہیں ہوتے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4433
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4431
حضرت سلیمان بن بریدہ اپنے باپ حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے (حد لگا کر) پاک کر دیجئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پر افسوس، واپس جاؤ، اللہ سے معافی مانگو اور اس کی طرف رجوع کرو۔“ تو وہ تھوڑی دور واپس چلے گئے، پھر آ کر کہنے لگے، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے پاک... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4431]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
فاستنكهه،
اس کے منہ کو سونگھا کہ اس کے منہ سے شراب کی بو تو محسوس نہیں ہوتی،
اس حدیث سے جمہور ائمہ نے یعنی امام مالک،
امام ابو حنیفہ اور امام احمد نے یہ استدلال کیا ہے کہ زنا کے بارے میں سکران (نشئی)
کے اقرار کا اعتبار نہیں ہے،
لیکن امام شافعی کے نزدیک سکران کے اقرار کو معتبر سمجھا جائے گا،
لیکن سکر (نشہ)
کی حالت میں اس پر حد قائم نہیں کی جائے گی،
لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔
(2)
ثم جاء رسول الله صلی الله عليه وسلم وهم جلوس:
اس حدیث سے بعض حضرات نے یہ استدلال کیا ہے کہ میت کے لیے جہاں لوگ بیٹھتے ہیں،
وہاں آنے والا دعا کرنے کے لیے کہہ سکتا ہے،
حالانکہ صورت حال یہ ہے کہ صحابہ کرام میت کے سوگ کے لیے تین دن بیٹھنے کا اہتمام ہی نہیں کرتے تھے،
یہ کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے کہ وہ سوگ کے لیے تین دن مجلس قائم کرتے تھے،
یہاں تو صرف اس قدر بات ہے کہ ماعز پر حد قائم کرنے کے بعد،
صحابہ کرام دو گروہوں میں بٹ گئے،
ایک کے بقول وہ تباہ و برباد ہو گئے اور اپنے گناہ کی بھینٹ چڑھ گئے،
دوسرے کے نزدیک انہوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے کامیابی حاصل کی،
لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دن چونکہ ان کے لیے دعا نہیں کی،
اس لیے یہ اختلاف دو تین دن تک قائم رہا،
آپ نے یہ اختلاف ختم کرنے کے لیے جہاں وہ عام طور پر بیٹھتے تھے یا مسجد جہاں وہ جمع ہوتے تھے،
میں دونوں گروہوں کو بیٹھے دیکھ کر،
ان کے لیے بخشش طلب کرنے کے لیے فرمایا اور ان کو توبہ کی فضیلت بھی بیان کیا،
تاکہ وہ اختلاف ختم ہو جائے،
اس کا سوگ کی مجلس میں دعا کرنے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے اور نہ ہی کسی شارح نے یہ معنی کیا ہے کہ وہ مجلس سوگ تھی،
اگر بالفرض یہ مان لیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوگ کی مجلس میں آ کر دعا منگوائی تو اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی محترم اور بزرگ شخصیت اگر آئے تو وہ دعا کروا سکتی ہے،
اس سے ہر آنے والے کے لیے فاتحہ پڑھنے کا جواب کیسے نکلا؟ کیا آپ کے بعد بھی مجلس میں کوئی نہیں آیا تھا یا اس مجلس سوگ کے سوا آپ کسی اور مجلس سوگ میں شریک نہیں ہوئے تھے اور کسی مجلس ماتم میں دعا کیوں نہیں کروائی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کی اقتدا میں یہ سلسلہ کیوں جاری نہیں رکھا،
احناف تو عمل صحابہ سے صحیح حدیث کو منسوخ ٹھہرا دیتے ہیں۔
(3)
قال رجل من الانصار الي رضاعه،
فرجمها:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غامدیہ عورت کے بچے کو دودھ پلانے کی مدت کے آغاز ہی میں رجم کروایا اور رضاعت انصاری کے ذمہ لگا دی،
حالانکہ آگے جو حدیث آ رہی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رجم اس وقت کروایا،
جب بچہ مدت رضاعت کے بعد (دودھ چھوڑنے کے بعد)
روٹی کھانے لگا تھا،
امام نووی نے دوسری روایات کو ترجیح دی ہے اور اس روایت کی تاویل کی ہے کہ یہاں رضاعت سے مراد بچے کی کفالت اور تربیت کا انتظام کرنا ہے،
لیکن حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے تھذیب السنن حدیث نمبر 4277،
میں آنے والی حدیث کے بارے میں لکھا ہے،
اس حدیث میں دو باتیں تمام روایات کے خلاف ہیں،
(1)
اقرار اور تردید (لوٹانا)
کا کام متعدد مجالس میں ہوا جب کہ باقی تمام احادیث سے ثابت ہوتا ہے یہ ایک ہی مجلس میں ہوا،
درمیان میں کسی دن کا فصل یا وقفہ نہیں ہے۔
(2)
اس میں گڑھا کھودنے کا ذکر ہے،
حالانکہ گڑھا نہیں کھودا گیا تھا،
اس لیے وہ بھاگ کھڑا ہوا اور اس کا راوی بشری بن مہاجر ہے،
جس پر بخاری،
امام احمد،
ابو حاتم،
ابن عدی،
ابن حبان اور عقیلی نے جرح کی ہے،
اگرچہ ابن معین اور عجلی نے اس ثقہ قرار دیا ہے،
اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ یہ روایت صحیح ہو اور رجم مدت رضاعت ہی میں کر دیا گیا ہو اور زھام کا ذکر،
بشیر بن مہاجر کا دوسرے دو کلموں کی طرح ایک اور وہم ہو اور امام خطابی نے لکھا ہے یہ دو عورتوں کا الگ الگ واقعہ ہو سکتا ہے،
ایک کو وضع حمل کے بعد رجم کیا گیا اور دوسری کو مدت رضاعت کے بعد،
امام ابو حنیفہ،
مالک اور شافعی کے نزدیک عورت کو وضع حمل کے بعد رجم کر دیا جائے گا اور امام احمد کے نزدیک مدت رضاعت کے بعد،
جب بچہ دودھ پینا چھوڑ دے گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4431
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4432
حضرت بریدہ رضی اللہ تعلی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ماعز بن مالک اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں اپنے اوپر ظلم کر چکا ہوں، میں نے زنا کیا ہے اور میں چاہتا ہوں آپ مجھے پاک کر دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کر دیا، جب اگلا دن آیا، وہ پھر آیا اور کہنے لگا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! تو آپﷺ نے دوبارہ واپس کر دیا، رسول اللہ صلی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4432]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ماعز رضی اللہ عنہ کی قوم انہیں اپنے بہتر افراد میں شمار کرتی تھی،
قوم کی اس صریح شہادت کے باوجود صاحب تدبر قرآن کا،
اس کو نہایت بدخصلت غنڈہ قرار دینا اور اس کی مغفرت کے لیے پہلے دن دعا نہ کرنے کو اس کے کٹر منافق ہونے کی شہادت قرار دینا ایک عملی بددیانتی اور خیانت ہے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے دن اس کے لیے دعائے مغفرت کروائی ہے اور اس کی توبہ کی تعریف بھی کی ہے۔
(2)
فَلَمَّا كَانَ الغَد:
یہاں بھی بشیر بن مہاجر دوسری روایات کی مخالفت کرتے ہیں،
باقی روایات سے ثابت ہے واپسی اور اعتراف،
ایک ہی مجلس میں ہوا ہے،
اس کو اگلے دن قرار دینا وہم ہے۔
(3)
حُفِرَلَهَا إِلَي صَدْرِهَا:
غامدیہ کے لیے اس کے سینہ تک گڑھا کھودا،
اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کو رجم کرتے وقت گڑھا کھودا جائے گا،
گڑھا کھودنے کے بارے میں ائمہ کے مندرجہ ذیل نظریات ہیں،
امام نووی لکھتے ہیں،
امام مالک،
امام ابو حنیفہ اور امام احمد کے نزدیک ان حضرات کے مشہور قول کے مطابق مرد اور عورت دونوں میں سے کسی کے لیے گڑھا نہیں کھودا جائے گا،
قتادہ،
ابو ثور،
ابو یوسف اور امام ابو حنیفہ کے ایک قول کے مطابق دونوں کے لیے گڑھا کھودا جائے گا اور بعض مالکیہ کے نزدیک،
ثبوت بینہ کی صورت میں گڑھا کھودا جائے گا اور اقرار کی صورت میں نہیں،
شوافع کے نزدیک مرد کے لیے کسی صورت میں گڑھا نہیں کھودا جائے گا اور عورت کے بارے میں تین اقوال ہیں،
(1)
پردہ پوش کے لیے سینے تک گڑھا کھودا مستحب ہے۔
(2)
امام کو اختیار ہے۔
(3)
زنا،
بینہ سے ثابت ہوا ہے تو کھودنا بہتر ہے اور اگر اقرار سے ثابت ہے تو نہیں کھودا جائے گا،
علامہ تقی نے لکھا ہے کہ احناف کا مختار موقف یہ ہے کہ عورت کے لیے گڑھا کھودا جائے گا اور مرد کے لیے نہیں کھودا جائے گا،
امام نووی نے جو لکھا ہے وہ احناف کے اکثر کتابوں کے مخالف ہیں،
(تکملہ،
ج 2،
ص 451)
۔
اس روایت میں ماعز کے لیے گڑھا کھودنے کا مسئلہ بھی راوی کا وہم ہے،
اگر گڑھا کھودا ہوتا تو وہ بھاگ کیسے گئے۔
(4)
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ 8ھ ماہ صفر میں مسلمان ہو کر مدینہ آئے ہیں،
جس سے ثابت ہوتا ہے کہ غامدیہ کا واقعہ سورہ نور کے نزول کے بعد پیش آیا ہے کیونکہ سورہ نور 5 یا 1 ہجری میں اتری ہے اور جمہور فقہاء کے نزدیک اخبار آحاد سے قرآنی حکم کی تخصیص جائز ہے کیونکہ وہ بیان ہے فسخ نہیں ہے اور احناف کے نزدیک مشہور اور متواتر روایات سے تخصیص جائز ہے اور احادیث رجم معنی متواتر ہیں،
امام ابن ھمام اور علامہ آلوسی اور شاہ ولی اللہ نے اس کی تصریح کی ہے اور حدیث 52 صحابہ سے مروی ہے۔
(تفصیل کے لیے دیکھئے،
تکملہ،
ج 2،
ص 420 تا 423) (5)
لَوْ تَابَهَا صَاحِبُ مكس:
اگر اس قسم کی توبہ ظلما ٹیکس وصول کرنے والا کرتا تو اس کو بھی معافی مل جاتی،
اس سے ثابت ہوتا ہے،
ظلما،
چنگی،
محصول یا ٹیکس وصول کرنا بہت بڑا جرم اور گناہ ہے جو تباہی و ہلاکت کا باعث ہے،
کیونکہ بے شمار لوگوں سے بار بار وصول کیا جاتا ہے اور اس کو عیش و عشرت کے کاموں میں لٹا دیا جاتا ہے۔
(6)
فَصلي عَلَيْهَا:
بعض حضرات نے اس کو مجہول کا صیغہ بنایا ہے اور اس کی بناء پر امام مالک اور امام احمد کے نزدیک امام اور اصحاب علم و فضل مرجوم کا (جس کو رجم کیا گیا ہے)
جنازہ نہیں پڑھیں گے،
لیکن عام طور پر اس کو معروف کا صیغہ قرار دیا گیا ہے،
اس لیے امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کے نزدیک،
سب جنازہ میں شریک ہوں گے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4432