سنن ابي داود
كِتَاب الْحُدُودِ
کتاب: حدود اور تعزیرات کا بیان
12. باب مَا لاَ قَطْعَ فِيهِ
باب: جن چیزوں کی چوری میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ان کا بیان۔
حدیث نمبر: 4388
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، أَنَّ عَبْدًا سَرَقَ وَدِيًّا مِنْ حَائِطِ رَجُلٍ فَغَرَسَهُ فِي حَائِطِ سَيِّدِهِ فَخَرَجَ صَاحِبُ الْوَدِيِّ يَلْتَمِسُ وَدِيَّهُ فَوَجَدَهُ، فَاسْتَعْدَى عَلَى الْعَبْدِ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ وَهُوَ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ يَوْمَئِذٍ، فَسَجَنَ مَرْوَانُ الْعَبْدَ وَأَرَادَ قَطْعَ يَدِهِ فَانْطَلَقَ سَيِّدُ الْعَبْدِ إِلَى رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ فَسَأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ فَأَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا قَطْعَ فِي ثَمَرٍ وَلَا كَثَرٍ، فَقَالَ الرَّجُلُ: إِنَّ مَرْوَانَ أَخَذَ غُلَامِي وَهُوَ يُرِيدُ قَطْعَ يَدِهِ وَأَنَا أُحِبُّ أَنْ تَمْشِيَ مَعِي إِلَيْهِ فَتُخْبِرَهُ بِالَّذِي سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَشَى مَعَهُ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ حَتَّى أَتَى مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ فَقَالَ لَهُ رَافِعٌ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: لَا قَطْعَ فِي ثَمَرٍ وَلَا كَثَرٍ فَأَمَرَ مَرْوَانُ بِالْعَبْدِ فَأُرْسِلَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: الْكَثَرُ الْجُمَّارُ.
محمد بن یحییٰ بن حبان سے روایت ہے کہ ایک غلام نے ایک کھجور کے باغ سے ایک شخص کے کھجور کا پودا چرا لیا اور اسے لے جا کر اپنے مالک کے باغ میں لگا دیا، پھر پودے کا مالک اپنا پودا ڈھونڈنے نکلا تو اسے (ایک باغ میں لگا) پایا تو اس نے مروان بن حکم سے جو اس وقت مدینہ کے حاکم تھے غلام کے خلاف شکایت کی مروان نے اس غلام کو قید کر لیا اور اس کا ہاتھ کاٹنا چاہا تو غلام کا مالک رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، اور ان سے اس سلسلہ میں مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے اسے بتایا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”پھل اور جمار (کھجور کے درخت کے پیڑی کا گابھا) کی چوری میں ہاتھ نہیں کٹے گا“ تو اس شخص نے کہا: مروان نے میرے غلام کو پکڑ رکھا ہے وہ اس کا ہاتھ کاٹنا چاہتے ہیں میری خواہش ہے کہ آپ میرے ساتھ ان کے پاس چلیں اور اسے وہ بتائیں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، تو رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ اس کے ساتھ چلے، اور مروان کے پاس آئے، اور ان سے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”پھل اور گابھا کے (چرانے میں) ہاتھ نہیں کٹے گا“ مروان نے یہ سنا تو اس غلام کو چھوڑ دینے کا حکم دے دیا، چنانچہ اسے چھوڑ دیا گیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «کثر» کے معنیٰ «جمار» کے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الحدود 19 (1449)، سنن النسائی/قطع السارق 10 (4964)، سنن ابن ماجہ/الحدود 27 (2593)، (تحفة الأشراف: 3581، 3588)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الحدود 11 (32)، مسند احمد (3/463، 464، 5/140، 142)، سنن الدارمی/الحدود 7 (2350) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «جمار» کھجور کے درخت کی پیڑی کے اندر سے نکلنے والا نرم جو چربی کے طرح سفید ہوتا ہے، اور کھایا جاتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
مشكوة المصابيح (3593)
أخرجه النسائي (4964) وھو في الموطأ (2/839) وصححه ابن الجارود (826) وابن حبان (1505) وزاد بعض الرواة في السند، واسع بن حبان ثقة وھو من المزيد في متصل الأسانيد
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4388 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4388
فوائد ومسائل:
1) چونکہ درخت پر لگے پھل یا کھجوروں کی گری اور اسی طرح باغ میں لگے درخت غیر محفوظ ہوتے ہیں اور اصطلاحا چوری کی حد میں نہیں آتے۔
ان چیزوں کا بغیر اجازت یا چھپ کرلے لینا بلاشبہ جرم ہے، مگر اس پر ہاتھ نہیں کاٹا جاتا بلکہ مناسب تعزیزو تنبیہ یاجرمانہ ہوگا۔
2) فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معلوم ہوجانے کے بعد ذاتی، سیاسی یا دیگر مصالح کی ترجیح کا کوئی مقام نہیں رہ جاتا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4388
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1058
´چوری کی حد کا بیان`
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے سنا ” پھل اور درخت خرما کے گوند میں ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں ہے۔ “ اسے احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے۔ ترمذی اور ابن حبان نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1058»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الحدود، باب ما لا قطع فيه، حديث:4388، والترمذي، الحدود، حديث:1449، والنسائي، قطع السارق، حديث:4963، وابن ماجه، الحدود، حديث:2593، وأحمد:3 /463، 4 /140، 142، وابن حبان (الإحسان): 6 /318، حديث:4449.»
تشریح:
اس حدیث کے ظاہری معنی و مفہوم سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جو پھل ابھی درخت پر ہوں اور تر ہوں‘ وہ محفوظ جگہ میں ہوں یا غیر محفوظ جگہ میں، ان کی چوری میں قطع ید کی سزا نہیں ہے۔
پھر اسی پر قیاس کرتے ہوئے کہا ہے کہ گوشت‘ دودھ‘ مشروبات‘ روٹیاں وغیرہ کھانے کی اشیاء میں بھی قطع ید کی سزا نہیں ہے۔
لیکن جمہور نے یہ قید لگائی ہے کہ اگر یہ اشیاء غیر محفوظ ہوں تو ان کے لینے میں قطع ید نہیں ورنہ یہ چوری ہوگی اور قطع ید کی سزا بھی ہوگی۔
انھوں نے یہ قید اس حدیث اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کی
(دو احادیث کے بعد آنے والی) حدیث میں تطبیق پیدا کرنے کی غرض سے لگائی ہے۔
اور انھوں نے کہا کہ اس حدیث کا دراصل تعلق اہل مدینہ کی اس عمومی عادت کے ساتھ ہے کہ وہ اپنے باغات کو محفوظ و مامون نہیں رکھتے تھے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1058
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4971
´جن چیزوں کی چوری میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھل چرانے میں، اور نہ ہی گابا چرانے میں ہاتھ کاٹا جائے گا۔“ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ غلط ہے، میں ابومیمون کو نہیں جانتا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب قطع السارق/حدیث: 4971]
اردو حاشہ:
امام نسائی رحمہ اللہ کے کلام کا مطلب یہ ہے کہ ”ابو میمن“ مجہول ہے۔ میں نہیں جانتا کہ یہ کو ن ہے، لہذا یہ خطا ہے کیونکہ معروف روایت کی سند جو کہ حفاظ محدثین، مثلا: لیث اور سفیان ثوری کی ہے، اس طرح ہے: عن محمد بن يحي بن حبان عن عمه واسع عن رافع بن خديج اور: عن يحي بن سعيد عن محمد بن يحي بن حبان عن عمه أن رافع بن خديج .......، جیسا کہ مذکورہ روایت سے پہلے والی دو روایتیں ہیں۔ ابو میمون والی سند میں خطا اور غلطی ہے۔ واللہ أعلم، تاہم متن حدیث صحیح ہے کیونکہ دوسری صحیح اسناد سے بھی اسی طرح مروی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4971