صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
140. بَابُ إِذَا رَمَى الْجَمْرَتَيْنِ يَقُومُ وَيُسْهِلُ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ:
باب: جب حاجی دونوں جمروں کی رمی کر چکے تو ہموار زمین پر قبلہ رخ کھڑا ہو جائے۔
حدیث نمبر: 1751
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،" أَنَّهُ كَانَ يَرْمِي الْجَمْرَةَ الدُّنْيَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ عَلَى إِثْرِ كُلِّ حَصَاةٍ، ثُمَّ يَتَقَدَّمُ حَتَّى يُسْهِلَ، فَيَقُومَ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ، فَيَقُومُ طَوِيلًا وَيَدْعُو وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ، ثُمَّ يَرْمِي الْوُسْطَى، ثُمَّ يَأْخُذُ ذَاتَ الشِّمَالِ فَيَسْتَهِلُ، وَيَقُومُ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ، فَيَقُومُ طَوِيلًا وَيَدْعُو وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ، وَيَقُومُ طَوِيلًا ثُمَّ يَرْمِي جَمْرَةَ ذَاتِ الْعَقَبَةِ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي وَلَا يَقِفُ عِنْدَهَا، ثُمَّ يَنْصَرِفُ، فَيَقُولُ: هَكَذَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ".
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے طلحہ بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے یونس نے زہری سے بیان کیا، ان سے سالم نے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما پہلے جمرہ کی رمی سات کنکریوں کے ساتھ کرتے اور ہر کنکری پر «الله اكبر» کہتے تھے، پھر آگے بڑھتے اور ایک نرم ہموار زمین پر پہنچ کر قبلہ رخ کھڑے ہو جاتے اسی طرح دیر تک کھڑے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے، پھر جمرہ وسطیٰ کی رمی کرتے، پھر بائیں طرف بڑھتے اور ایک ہموار زمین پر قبلہ رخ ہو کر کھڑے ہو جاتے، یہاں بھی دیر تک کھڑے کھڑے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرتے رہتے، اس کے بعد والے نشیب سے جمرہ عقبہ کی رمی کرتے اس کے بعد آپ کھڑے نہ ہوتے بلکہ واپس چلے آتے اور فرماتے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا تھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1751 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1751
حدیث حاشیہ:
یہ آخری رمی گیارہویں تاریخ میں سب سے پہلے رمی جمرہ کی ہے، یہ جمرہ مسجد خیف سے قریب پڑتا ہے یہاں نہ کھڑا ہونا ہے نہ دعا کرنا، ایسے مواقع پر عقل کا دخل نہیں ہے، صرف شارع ؑ کی اتباع ضروری ہے۔
ایمان اور اطاعت اسی کا نام ہے جہاں جو کام منقول ہوا ہے وہاں وہی کام سر انجام دینا چاہئے اور اپنی ناقص عقل کا دخل ہرگز ہرگز نہ ہوناچاہئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1751
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1751
حدیث حاشیہ:
(1)
جمرۂ دنیا، مسجد خیف کے قریب اور مکہ سے دور ہے۔
گیارہ ذوالحجہ کو سب سے پہلے اسی کو کنکریاں ماری جاتی ہیں۔
کنکریاں مارنے کے بعد ایک طرف ہٹ کر کھڑے ہونا چاہیے تاکہ دوسرے لوگوں کے لیے رکاوٹ نہ بنے اور ان کی کنکریوں سے بھی بچا جا سکے۔
(2)
روایات میں یہ بھی صراحت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سورۂ بقرہ پڑھنے کی مقدار وہاں کھڑے نہایت خشوع سے دعا کرتے رہتے۔
(المصنف لابن أبي شیبة: 419/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1751
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 629
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ سب سے قریبی جمرہ کو سات سنگریزے مارتے اور ہر کنکری مارتے وقت تکبیر کہتے۔ پھر آگے تشریف لے جاتے اور میدان میں آ کر کھڑے ہو جاتے اور قبلہ رخ ہو کر طویل قیام فرماتے اور اپنے ہاتھ اوپر اٹھا کر دعا کرتے۔ پھر جمرہ وسطی (درمیانہ شیطان) کو کنکریاں مارتے۔ پھر بائیں جانب ہو جاتے اور میدان میں آ کر قبلہ رخ کھڑے ہو جاتے۔ پھر اپنے ہاتھ اوپر اٹھاتے اور دعا فرماتے اور طویل قیام فرماتے۔ اس کے بعد جمرہ عقبہ کو کنکریاں وادی کی نچلی جگہ سے مارتے مگر وہاں قیام نہ فرماتے۔ پھر واپس تشریف لے آتے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح عمل کرتے دیکھا ہے۔ (بخاری) [بلوغ المرام/حدیث: 629]
629 لغوی تشریح:
«الجمرة الدنيا» «الدنيا» کے ”دال“ ”پر ضمہ اور کسرہ دونوں جائز ہیں۔ اس کے معنی ”قریب کے“ ہیں۔ یہ مسجد خیف کے قریب ہے اور یہ پہلا جمرہ ہے جسے ایام تشریق میں کنکریاں ماری جاتی ہیں۔
«ثمه يسهل» «يسهل» کی ”یا“ پر ضمہ ہے۔ اس کے معنی ہیں: سھل کی طرف جانا اور وہ زمین کے نشیبی حصے کو کہتے ہیں۔
«يرمي الوسطيٰ» «وسطيٰ» سے مراد جمرہ ثانیہ (دوسرا جمرہ) ہے جو دونوں جمروں کے درمیان ہے۔
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمروں کو کنکریاں مار کر وہیں کھڑے نہ رہتے بلکہ وہاں سے چل کر میدان میں آ کھڑے ہوتے اور پورے اطمینان کے ساتھ قبلہ رخ ہو کر طویل دعا فرماتے، لہٰذا کنکریاں مارے جانے کے بعد وہیں کھڑے رہنا چاہیے بلکہ میدان میں کھلی جگہ آ کر ہاتھ اٹھا کر طویل دعا کرنی چاہیے۔ اس طرح حاجی ہجوم کی زد سے بھی محفوظ رہے گا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 629
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1752
1752. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ جمرہ اولیٰ کو سات کنکریاں مارتے۔ ہر کنکری مارنے کے بعد وہ اللہ أکبر کہتے۔ پھر آگے بڑھتے اور نرم زمین میں قبلہ رو کھڑے ہوجاتے اور دیر تک کھڑے رہتے دعا کرتے اوراپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے۔ پھر جمرہ وسطی کو رمی کرتے اور بائیں جانب نرم زمین میں چلے جاتے اور دیر تک قبلہ رو ہوکر کھڑے رہتے دعا کرتے اور دونوں ہاتھ اٹھاتے۔ اس کے بعد جمرہ عقبہ کو وادی کے نشیب سے رمی کرتے اور اس کے پاس نہ ٹھہرتے اور فرماتے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1752]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث کئی جگہ نقل ہوئی ہے اور اس سے حضرت مجتہد مطلق امام بخاری ؒ نے بہت سے مسائل کا اخراج فرمایا ہے، جو آپ کے تفقہ کی دلیل ہے ان لوگوں پر بے حد افسوس جو ایسے فقیہ اعظم فاضل مکرم امام معظم ؒ کی شان میں تنقیص کرتے ہوئے آپ کی فقاہت اور درایت کا انکار کرتے ہیں اور آپ کو محض ناقل مطلق کہہ کر اپنی ناسمجھی یا تعصب باطنی کا ثبوت دیتے ہیں، بعض علماء احناف کا رویہ اس بارے میں انتہائی تکلیف دہ ہے جو محدثین کرام خصوصاً امام بخاری ؒ کی شان میں اپنی زبان بے لگام چلا کر خود ائمہ دین مجتہدین کی تنقیص کرتے ہیں۔
امام بخاری ؒ کو اللہ پاک نے جو مقام عظمت عطا فرمایا ہے وہ ایسی واہی تباہی باتوں سے گرایا نہیں جاسکتا ہاں ایسے کور باطن نام نہاد علماءکی نشان دہی ضرور کردیتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1752
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1752
1752. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ جمرہ اولیٰ کو سات کنکریاں مارتے۔ ہر کنکری مارنے کے بعد وہ اللہ أکبر کہتے۔ پھر آگے بڑھتے اور نرم زمین میں قبلہ رو کھڑے ہوجاتے اور دیر تک کھڑے رہتے دعا کرتے اوراپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے۔ پھر جمرہ وسطی کو رمی کرتے اور بائیں جانب نرم زمین میں چلے جاتے اور دیر تک قبلہ رو ہوکر کھڑے رہتے دعا کرتے اور دونوں ہاتھ اٹھاتے۔ اس کے بعد جمرہ عقبہ کو وادی کے نشیب سے رمی کرتے اور اس کے پاس نہ ٹھہرتے اور فرماتے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1752]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پہلے اور دوسرے جمرے کو رمی کرنے کے بعد دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا سنت ہے، اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔
صرف امام مالک ؒ سے انکار منقول ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مقابلے میں اس اختلاف کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
(2)
یہ بھی معلوم ہوا کہ جمرہ عقبہ کے پاس کھڑے ہونا اور وہاں دعا کرنا ثابت نہیں۔
ایسے مواقع پر عقل کو کوئی دخل نہیں۔
صرف رسول اللہ ﷺ کی اتباع ضروری ہے۔
ایمان اور اطاعت اسی کا نام ہے کہ جہاں جو کام منقول ہو وہاں وہی کام سرانجام دیا جائے، اپنی ناقص عقل کو اس میں دخل کا کوئی حق نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1752