سنن ابي داود
كِتَاب الْمَلَاحِمِ
کتاب: اہم معرکوں کا بیان جو امت میں ہونے والے ہیں
17. باب الأَمْرِ وَالنَّهْىِ
باب: امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا بیان۔
حدیث نمبر: 4342
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، أَنَّ عَبْدَ الْعَزِيزِ بْنَ أَبِي حَازِمٍ حَدَّثَهُمْ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" كَيْفَ بِكُمْ وَبِزَمَانٍ أَوْ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ زَمَانٌ يُغَرْبَلُ النَّاسُ فِيهِ غَرْبَلَةً تَبْقَى حُثَالَةٌ مِنَ النَّاسِ قَدْ مَرِجَتْ عُهُودُهُمْ وَأَمَانَاتُهُمْ وَاخْتَلَفُوا، فَكَانُوا هَكَذَا وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ، فَقَالُوا: وَكَيْفَ بِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: تَأْخُذُونَ مَا تَعْرِفُونَ وَتَذَرُونَ مَا تُنْكِرُونَ وَتُقْبِلُونَ عَلَى أَمْرِ خَاصَّتِكُمْ وَتَذَرُونَ أَمْرَ عَامَّتِكُمْ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَكَذَا رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا اس زمانہ میں کیا حال ہو گا؟“ یا آپ نے یوں فرمایا: ”عنقریب ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ لوگ چھن اٹھیں گے، اچھے لوگ سب مر جائیں گے، اور کوڑا کرکٹ یعنی برے لوگ باقی رہ جائیں گے، ان کے عہد و پیمان اور ان کی امانتوں کا معاملہ بگڑ چکا ہو گا (یعنی لوگ بدعہدی اور امانتوں میں خیانت کریں گے) آپس میں اختلاف کریں گے اور اس طرح ہو جائیں گے“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر بتایا، تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس وقت ہم کیا کریں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بات تمہیں بھلی لگے اسے اختیار کرو، اور جو بری لگے اسے چھوڑ دو، اور خاص کر اپنی فکر کرو، عام لوگوں کی فکر چھوڑ دو“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً اس سند کے علاوہ سے بھی مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الفتن 10 (3957)، (تحفة الأشراف: 8893)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصلاة 88 (480)، مسند احمد (2/212) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
أخرجه ابن ماجه (3957 وسنده حسن)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4342 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4342
فوائد ومسائل:
یہ کیفیت بالکل آخری دور کی ہے، جب دین و ا یمان اور خیر و صلاح کی بات پر پر کان نہیں دھرا جائے گا۔
تب یہی حکم ہے کہ انسان اپنی فکر کرے لیکن اس سے پہلے اشاعتِ حق کے لیئے اپنی وسعت بھر افراد اور میدان کی تلاش جاری رکھنا لازمی ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحا بہ و آئمہ کی سیرتوں سے نمایاں ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4342
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4343
´امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران آپ نے فتنہ کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم لوگوں کو دیکھو کہ ان کے عہد فاسد ہو گئے ہوں، اور ان سے امانتداریاں کم ہو گئیں ہوں“ اور آپ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر بتایا کہ ان کا حال اس طرح ہو گیا ہو عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: یہ سن کر میں آپ کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا، اور میں نے عرض کیا: اللہ مجھے آپ پر قربان فرمائے! ایسے وقت میں میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ عل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الملاحم /حدیث: 4343]
فوائد ومسائل:
عہد اور وعدے میں بے وفائی اور امانت میں خیانت۔
۔
۔
۔
جہاں نفاق کی علامتیں ہیں وہاں ایامِ فتن کی بھی علامتیں ہیں۔
کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ ان عیوب میں ملوث ہو خواہ حالات کیسے بھی دگرگوں کیوں نہ ہوں۔
جن مشکلات اس قدر بڑھ جائیں کہ انکا مقابلہ انتہائی کٹھن ہو جائے تب دوسروں کی فکر سے آزاد ہو جانے کی اجازت ہے ورنہ اس سے پہلے صاحبِ ایمان کو جائز نہیں کہ دوسروں سے بے فکر ہو کر اپنے میں مگن ہو کر زندگی گزارے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4343
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3957
´فتنے کے وقت تحقیق کرنے اور حق پر جمے رہنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا اس زمانہ میں کیا حال ہو گا جو عنقریب آنے والا ہے؟ جس میں لوگ چھانے جائیں گے (اچھے لوگ سب مر جائیں گے) اور خراب لوگ باقی رہ جائیں گے (جیسے چھلنی میں آٹا چھاننے سے بھوسی باقی رہ جاتی ہے)، ان کے عہد و پیمان اور امانتوں کا معاملہ بگڑ چکا ہو گا، اور لوگ آپس میں الجھ کر اور اختلاف کر کے اس طرح ہو جائیں گے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھائیں، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3957]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دور صحابہ میں نیک لوگ زیادہ تھے، بعد میں مرور ایام کے ساتھ ساتھ صورت حال بدلتی گئی اس لیے نبی ﷺ کے بعد صحابہ وتابعین کا دور بہترین زمانہ ہے۔
(2)
نیک لوگ ہر دور میں موجود رہیں گے تاہم ان کی تعداد بعض زمانوں میں زیادہ اور بعض میں کم ہوسکتی ہے۔
(3)
وعدہ پورا نہ کرنا اختلاف اور فساد کا باعث ہے۔
(4)
خرابی کے ایام میں صحیح اور غلط کا معیار قرآن وحدیث اور صحابہ وتا بعین کا عمل ہے۔
(5)
جو شخص عوام کی اصلاح نہ کرسکے اسے اپنے اعمال میں بہر حال صحیح راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3957