Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
137. بَابُ مَنْ رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ فَجَعَلَ الْبَيْتَ عَنْ يَسَارِهِ:
باب: اس شخص کے متعلق جس نے جمرہ عقبہ کی رمی کی تو بیت اللہ کو اپنی بائیں طرف کیا۔
حدیث نمبر: 1749
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ،" أَنَّهُ حَجَّ مَعَ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَرَآهُ يَرْمِي الْجَمْرَةَ الْكُبْرَى بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ، فَجَعَلَ البيت عَنْ يَسَارِهِ وَمِنًى عَنْ يَمِينِهِ، ثُمَّ قَالَ: هَذَا مَقَامُ الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم بن عتبہ نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے عبدالرحمٰن بن یزید نے کہ انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا انہوں نے دیکھا جمرہ عقبہ کی سات کنکریوں کے ساتھ رمی کے وقت آپ نے بیت اللہ کو تو اپنی بائیں طرف اور منی کو دائیں طرف کر لیا پھر فرمایا کہ یہی ان کا بھی مقام تھا جن پر سورۃ البقرہ نازل ہوئی تھی یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1749 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1749  
حدیث حاشیہ:
قسطلانی نے کہا کہ یہ دسویں تاریخ کی رمی ہے گیارہویں بارہویں تاریخ کو اوپر سے مارنا چاہئے اور جمرہ عقبہ جس کو آج کل عوام بڑا شیطان کہتے ہیں چار باتوں میں اور جمرات سے بہتر ہے، ایک تو یہ کہ یوم النحر کو فقط اسی کی رمی ہے دوسرے یہ کہ اس کی رمی چاشت کے وقت ہے، تیسرے یہ کہ نشیب میں اس کو مارنا ہے، چوتھے یہ کہ دعا وغیرہ کے لیے اس کے پاس نہیں ٹھہرنا چاہئے اور دوسرے جمروں کے پاس رمی کے بعد ٹھہر کر دعا کرنا مستحب ہے۔
جمرات کی رمی کرنا یہ اس وقت کی یادگار ہے جب کہ حضرت اسماعیل ؑ کو بہکانے کے لیے ان مقامات پر شیطان ظاہر ہوا تھا اور حضرت اسماعیل ؑ کو ارشاد الٰہی کی تعمیل سے روکنے کی کوشش کی تھی۔
ان تینوں مقامات پر بطور نشان پتھروں کے مینارے سے بنا دئے گئے ہیں اور ان ہی پرمقررہ شرائط کے ساتھ کنکریاں مار کر گویا شیطان مردود کو رجم کیا جاتا ہے اور حاجی گویا اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ شیطان مردود کی مخالفت اور ارشاد الٰہی کی اطاعت میں پیش پیش رہے گا اور تاعمر اس یادگار کو فراموش نہ کرکے اپنے آپ کو ملت ابراہیمی کا سچا پیرو کار ثابت کرنے کی کوشش کرے گا۔
جمرہ عقبہ کو جمرہ کبریٰ بھی کہتے ہیں اور یہ جہت مکہ میں منی کی آخری حد پر واقع ہے۔
آپ ﷺ نے ہجرت کے لیے انصار سے اسی جگہ بیعت لی تھی۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ جمرہ عقبہ کی رمی سے فارغ ہو کر یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔
اللهم اجعله حجا مبروراً و ذنبا مغفوراً۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1749   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1749  
حدیث حاشیہ:
(1)
جمرۂ عقبہ کو جمرۂ کبریٰ بھی کہتے ہیں۔
منیٰ میں تین جمرات ہیں جنہیں رمی کی جاتی ہے۔
ان تینوں مقامات پر بطور نشانات مینارے بنا دیے گئے ہیں۔
انہیں مقررہ شرائط کے ساتھ کنکریاں مار کر گویا شیطان مردود کو رجم کیا جاتا ہے اور اس بات کا عہد کیا جاتا ہے کہ ہم آئندہ زندگی میں شیطان مردود کی مخالفت اور احکام الٰہی کی اطاعت میں پیش پیش رہیں گے۔
(2)
جمرۂ عقبہ مکہ کی طرف منیٰ کی آخری حد پر واقع ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اسے رمی کرتے وقت مکہ مکرمہ کو بائیں جانب اور منیٰ کو دائیں جانب کیا تھا۔
رمی کرنے کا مسنون طریقہ یہی ہے، البتہ جائز ہے کہ مکہ مکرمہ کو پچھلی جانب اور منیٰ کو آگے کر کے رمی کی جائے۔
اسی طرح بیت اللہ کی طرف منہ کر کے اور منیٰ کو اپنی پچھلی جانب کر کے بھی رمی کی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی مدنظر رہے کہ رمی کرنا ضروری ہے، وہاں کنکر رکھ دینے سے کام نہیں چلے گا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1749