Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الْمَلَاحِمِ
کتاب: اہم معرکوں کا بیان جو امت میں ہونے والے ہیں
7. باب ارْتِفَاعِ الْفِتْنَةِ فِي الْمَلاَحِمِ
باب: دشمن سے جنگ کے وقت اندرونی فتنہ دبا رہے گا۔
حدیث نمبر: 4301
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل. ح وَحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سَوَّارٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ جَابِرٍ الطَّائِيِّ، قَالَ هَارُونُ فِي حَدِيثِهِ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَنْ يَجْمَعَ اللَّهُ عَلَى هَذِهِ الْأُمَّةِ سَيْفَيْنِ سَيْفًا مِنْهَا وَسَيْفًا مِنْ عَدُوِّهَا".
عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس امت پر دو تلواریں (بلائیں) اکٹھی نہیں کرے گا کہ ایک تلوار تو خود اسی کی ہو، اور ایک تلوار اس کے دشمن کی ہو ۲؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 10917)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/26) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: فتنہ سے مراد خود مسلمانوں کی آپس کی جنگ ہے۔
۲؎: یعنی ایسا نہیں ہو گا کہ ایک ہی وقت میں وہ آپس میں بھی لڑیں، اور اپنے دشمن سے بھی لڑیں، جب دوسری قومیں ان پر حملہ آور ہوں گی تو اللہ ان کی آپسی اختلافات کو ختم کر دے گا، اور اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے کے لئے سارے مسلمان مل کر اپنے دشمن سے لڑیں گے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
يحيي بن جابر لم يلق عوف بن مالك
فالسند منقطع
انظر التحرير (79/4 رقم 7518)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 153

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4301 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4301  
فوائد ومسائل:
مسلمانوں کا آپس میں لڑنا بھڑنا بہت برا فتنہ ہے، مگر اس امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ جب بھی باہر کا کوئی دشمن ان پر حملہ آور ہوگا تو مسلمان آپس میں اکھٹے ہو جائیں گے۔
معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے داخلی تنازعات کو ختم کرنے کے لیئے مشترک بڑے دشمن سے جہاد کا عمل جاری رکھا جانا ضروری ہے۔
ویسے بھی جہاد کے حالات ہر دور میں موجود رہیں گے۔
یہ الگ بات ہے کہ مسلما ن اس فریضہ جہاد کی ادائیگی میں کو تاہی کریں گے۔
بعض محقیقین نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4301