صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
134. بَابُ رَمْيِ الْجِمَارِ:
باب: کنکریاں مارنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1746
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ وَبَرَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،" مَتَى أَرْمِي الْجِمَارَ؟ , قَالَ: إِذَا رَمَى إِمَامُكَ فَارْمِهْ، فَأَعَدْتُ عَلَيْهِ الْمَسْأَلَةَ، قَالَ: كُنَّا نَتَحَيَّنُ، فَإِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ رَمَيْنَا".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے مسعر نے بیان کیا، ان سے وبرہ نے کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ میں کنکریاں کس وقت ماروں؟ تو آپ نے فرمایا کہ جب تمہارا امام مارے تو تم بھی مارو، لیکن دوبارہ میں نے ان سے یہی مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم انتظار کرتے رہتے اور جب سورج ڈھل جاتا تو کنکریاں مارتے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1746 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1746
حدیث حاشیہ:
افضل وقت کنکریاں مارنے کا یہی ہے کہ یوم النحر کو چاشت کے وقت مارے، اور جائز ہے دسویں شب کی آدھی رات کے بعد سے، اور غروب آفتاب تک دسویں تاریخ کو اس کا آخری وقت ہے اور گیارہویں یا بارہویں کو زوال کے بعدظہر کی نماز سے پہلے مارنا افضل ہے، کنکریاں سات سے کم نہ ہوں، جمہور علماءکا یہی قول ہے:
و فیه دلیل علی أن السنة أن یرمی الجمار في غیر یوم الأضحیٰ بعد الزوال و به قال الجمهور۔
(فتح الباري)
یعنی اس حدیث میں دلیل ہے کہ دسویں تاریخ کے بعد سنت یہ ہے کہ رمی جمار زوال کے بعد ہو اور جمہور کا یہی فتویٰ ہے۔
جب امام مارے تم بھی مارو، یہ ہدایت اس لیے فرمائی تاکہ امرائے وقت کی مخالفت کی وجہ سے کوئی تکلیف نہ پہنچ سکے، اگر امرائے جور ہوں تو ایسے احکام میں مجبوراً ان کی اطاعت کرنی ہے جیسا کہ نماز کے لیے فرمایا کہ ظالم امیر اگر دیر سے پڑھیں تو ان کے ساتھ بھی ادا کرلو اور ان کو نفل قرار دے لو، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے اس دور میں حجاج بن یوسف جیسے سفاک ظالم کا زمانہ تھا اس بنا پر آپ ؓ نے ایسا فرمایا، نیک عادل امراءکی اطاعت نیک کاموں میں بہرحال فرض ہے اور موجب ثواب ہے اور یہ چیز امراء ہی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ نیک امر میں ادنی سے ادنی آدمی کی بھی اطاعت لازم ہے۔
و إن کان عبداً حبشیا کا یہی مطلب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1746
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1746
حدیث حاشیہ:
(1)
تینوں جمرات کو کنکریاں ماری جاتی ہیں، البتہ دس ذوالحجہ کو صرف جمرۂ عقبہ کو کنکریاں ماری جاتی ہیں جو مکہ کی طرف منیٰ کی سرحد پر ہے۔
اس کے بعد گیارہ، بارہ اور تیرہ تاریخ کو تینوں جمرات کو کنکریاں مارنی ہوتی ہیں۔
سب سے پہلے جمرۂ ادنیٰ کو جو منیٰ سے مکہ جاتے ہوئے پہلے آتا ہے، پھر جمرۂ وسطیٰ کو جو اس کے بعد اور جمرۂ عقبہ سے پہلے ہے، اس کے بعد جمرۂ عقبہ کو جو آخر میں ہے۔
یہ آخری جمرہ دوسرے جمرات کے مقابلے میں چار امتیازی حیثیتوں کا حامل ہے:
٭ اسے دس تاریخ کو رمی کی جاتی ہے۔
٭ رمی کے بعد اس کے پاس کھڑے نہیں ہونا چاہیے۔
٭ اسے دس تاریخ کو چاشت کے وقت رمی کرنی چاہیے۔
٭ اسے وادی کے نشیب سے رمی کی جاتی ہے۔
(2)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے یہ خطرہ محسوس کیا کہ مبادا وبرہ بن عبدالرحمٰن اپنے امیر کی مخالفت کرے، اس لیے اسے تنبیہ فرمائی کہ جب تیرا امیر رمی کرے تو اس وقت تو بھی رمی کر کہ امیر کی مخالفت سے کوئی نقصان نہ ہو۔
ایک روایت میں ہے کہ اس نے کہا:
اگر میرا امیر تاخیر سے رمی کرے تو میں کیا کروں؟ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے حدیث بیان کر دی کہ ہم رمی کرنے کے لیے زوالِ آفتاب کا انتظار کرتے تھے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایام تشریق میں رمی کا وقت زوال آفتاب کے بعد ہے۔
(فتح الباري: 732/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1746