حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يُوشِكُ أَنْ يَكُونَ خَيْرُ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمًا يَتَّبِعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنَ الْفِتَنِ".
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4267
فوائد ومسائل:
جس بندے کو اپنے رب اور اس کے دین و شریعت کی حقیقی معرفت نصیب ہو جائے اس کے لیئے اسکا سب سے بڑا سرمایہ اس کا دین بن جاتا ہے اور ہر دم اسے اس کی حفاظت ہی کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔
اسی بنا پر خالص مسلمان فتنوں کے ایام میں آبادیوں سے بھاگ کر جنگلوں اور وادیوں میں پناہ لے گا۔
اور دین کی حفاظت بڑی عزیمت کا کام ہے، جسے اللہ توفیق دے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4267
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 19
´فتنہ و فساد میں سب سے یکسوئی بہتر ہے`
«. . . عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُوشِكُ أَنْ يَكُونَ خَيْرَ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ، يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ، يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنَ الْفِتَنِ . . .»
”. . . ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ وقت قریب ہے جب مسلمان کا (سب سے) عمدہ مال (اس کی بکریاں ہوں گی)۔ جن کے پیچھے وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور برساتی وادیوں میں اپنے دین کو بچانے کے لیے بھاگ جائے گا . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ/بَابُ مِنَ الدِّينِ الْفِرَارُ مِنَ الْفِتَنِ:: 19]
� تشریح:
مقصد حدیث یہ ہے کہ جب فتنہ و فساد اتنا بڑھ جائے کہ اس کی اصلاح بظاہر ناممکن نظر آنے لگے تو ایسے وقت میں سب سے یکسوئی بہتر ہے۔ فتنہ میں فسق و فجور کی زیادتی، سیاسی حالات اور ملکی انتظامات کی بدعنوانی، یہ سب چیزیں داخل ہیں۔ جن کی وجہ سے مرد مومن کے لیے اپنے دین اور ایمان کی حفاظت دشوار ہو جاتی ہے۔ ان حالات میں اگر محض دین کی حفاظت کے جذبے سے آدمی کسی تنہائی کی جگہ چلا جائے۔ جہاں فتنہ و فساد سے بچ سکے تو یہ بھی دین ہی کی بات ہے اور اس پر بھی آدمی کو ثواب ملے گا۔
حضرت امام کا مقصد یہی ہے کہ اپنے دین کو بچانے کے لیے سب سے یکسوئی اختیار کرنے کا عمل بھی ایمان میں داخل ہے۔ جو لوگ اعمال صالحہ کو ایمان سے جدا قرار دیتے ہیں ان کا قول صحیح نہیں ہے۔
بکری کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ اس پر انسان آسانی سے قابو پا لیتا ہے اور یہ انسان کے لیے مزاحمت بھی نہیں کرتی۔ یہ بہت ہی غریب اور مسکین جانور ہے۔ اس کو جنت کے چوپایوں میں سے کہا گیا ہے۔ اس سے انسان کو نفع بھی بہت ہے۔ اس کا دودھ بہت مفید ہے۔ جس کے استعمال سے طبیعت ہلکی رہتی ہے۔ نیز اس کی نسل بھی بہت بڑھتی ہے۔ اس کی خوراک کے لیے بھی زیادہ اہتمام کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جنگلوں میں اپنا پیٹ خود بھر لیتی ہے۔ بہ آسانی پہاڑوں پر بھی چڑھ جاتی ہے۔ اس لیے فتنے فساد کے وقت پہاڑوں جنگلوں میں تنہائی اختیار کر کے اس مفید ترین جانور کی پر ورش سے گزران معیشت کرنا مناسب ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بطور پیشین گوئی فرمایا تھا۔ چنانچہ تاریخ میں بہت پرفتن زمانے آئے اور کتنے ہی بندگان الٰہی نے اپنے دین و ایمان کی حفاظت کے لیے آبادی سے ویرانوں کو اختیار کیا۔ اس لیے یہ عمل بھی ایمان میں داخل ہے کیونکہ اس سے ایمان و اسلام کی حفاظت مقصود ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 19
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3600
3600. حضر ت ابوصعصعہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کی مجھے ابو سعید خدری ؓ نے فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تمھیں بکریوں سے بہت محبت ہے اور تم انھیں پالتے ہوتو ان کی نگہداشت اچھی طرح کیا کرو اور ان کی بیماری کا بھی خیال رکھو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”لوگوں پر ایک ایسا دورآئے گا کہ مسلمان کا سب سے عمدہ مال اس ک بکریاں ہوں گی جنھیں لے کر وہ پہاڑ کی چوٹیوں پر چڑھ جائے گا یا وہ بارش برسنے کے مقامات میں چلاجائےگا، الغرض اپنے دین کو فتنوں سے بچانے کے لیے بھاگ نکلے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3600]
حدیث حاشیہ:
عہد نبوت کے بعد جو خانگی فتنے مسلمانوں میں پیدا ہوئے ان سے حضور صلی ﷺ کی پیش گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3600
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6495
6495. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جس میں مسلمان آدمی کا بہترین مال بکریاں ہوں گی۔ وہ انہیں لے کر پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش کے مقامات پر لے جائے گا۔ وہ اس زمانے میں برپا فتنوں سے اپنے دین کو بچا کر بھاگ نکلے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6495]
حدیث حاشیہ:
آج کی دور میں ایسی آزادانہ چوٹیاں بھی نابود ہو گئی ہیں اب ہر جگہ خطرہ ہے۔
اس حدیث سے ان لوگوں نے دلیل لی ہے جو کہتے ہیں عزلت بہتر ہے کبھی لوگوں سے مل کر رہنا بہتر ہوتا ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ عزلت کرنے والا شخص شہرت اور ریاونمود کی نیت سے عزلت نہ کرے بلکہ گناہوں سے بچنے کی نیت اور جمعہ جماعت فرائض اسلام ترک نہ کرے زیادہ تفصیل احیاء العلوم میں ہے (مذکورہ احادیث اور ان جیسی دوسرے احادیث میں جو عزلت کی ترغیب اور فضیلت بیان ہوئی ہے اس سے فتنوں کا زمانہ مراد ہے اور ماحول میں لوگوں سے ملنے کی صورت میں گناہوں سے بچنا مشکل ہو۔
ورنہ اسلام عام حالت میں تعلق جوڑنے اور آبادی بڑھانے کا حکم دیتا ہے۔
کیونکہ آپ سوچیں کہ تیمار داری کا ثواب، سلام کرنے، صلہ رحمی کا ثواب وغیرہ یہ جملہ نیکیاں تب ممکن ہیں جب آبادی میں رہائش ہوگی۔
عبد الرشید تونسی)
عزلت کے معنیٰ لوگوں سے الگ تھلگ تنہا دور رہنے کے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6495
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7088
7088. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ وقت قریب ہے کہ مسلمان کا بہترین مال وہ بکریاں ہوں گی جنہیں وہ لے کر پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش برسنے کی جگہوں پر چلا جائے گا۔ وہ فتنوں سے اپنے دین کو کو بچانے کے لیے (آبادی سے) بھاگ نکلے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7088]
حدیث حاشیہ:
فتنوں سے بچنے کی ترغیب ہے اس حد تک کہ اگر بستی چھوڑ کر پہاڑوں میں رہ کر بھی فتنہ سے انسان بچ سکے تب بھی بچنا بہتر ہے۔
یہ بھی بہت بڑی نیکی ہے کہ انسان اپنے دین کو بایں صورت بھی بچا سکے اور تنہائی میں اپنا وقت کاٹ لے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7088
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 551
´فتنوں سے بچاؤ ضروری ہے`
«. . . 393- وبه: عن أبى سعيد الخدري أنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”يوشك أن يكون خير مال المسلم غنما يتبع بها شعف الجبال ومواقع القطر، يفر بدينه من الفتن.“ . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب ہے کہ مسلمان کا بہترین مال وہ بکریاں ہو جنہیں لے کر وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش گرنے کی جگہ (وادیوں) میں پھرتے ہوئے فتنوں سے بھاگ کر اپنے دین کو بچاتا ہے۔“ . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 551]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 3300، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ ہر وقت اپنے آپ کو فتنوں اور برائیوں سے بچانا چاہئے۔
➋ موجودہ دور میں جتنے کاغذی گروہ اور تنظیمیں ہیں، ان سب سے علیحدگی ضروری ہے۔
➌ جس شخص کے لئے اپنا ایمان بچانا مشکل ہو تو اس کے لئے آبادی سے دوری اور بکریاں پالنا بہتر اور افضل ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 393
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5039
´دین بچانے کے لیے فتنوں سے بھاگنے اور دور رہنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ زمانہ قریب ہے جب مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہوں گی، جنہیں لے کر وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش ہونے کی جگہوں میں چلا جائے گا، وہ اس طرح فتنوں سے اپنے دین کو بچائے گا۔“ [سنن نسائي/كتاب الإيمان وشرائعه/حدیث: 5039]
اردو حاشہ:
(1) اپنے دین وایمان کی حفاطت کے لیے فتنوں سے بھاگ جانا بھی شعبہ ہائے ایمان میں سے ایک عظیم شعبہ ہے، اس لیے بوقت ضرورت ایک ایمان دار شخص کو فتنوں کی آماجگاہ اور فتنہ پرور لوگوں سے اپنا دین وایمان بچانے کے لیے راہ فرار اختیار کر لینی چاہیئے، شرعا اس میں کوئی حرج نہیں۔
(2) یہ حدیث مبارکہ بکریاں پالنے اور چرانے وغیرہ کی فضیلت پر بھی دلالت کرتی ہے، نیز اپنا دین محفوظ کرنے کے لیے الگ تھلگ حتیٰ کہ پہاڑ کی چوٹی کو اپنا مسکن بنا لینے کی فضیلت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
(3) یہ حدیث مبارکہ دلائل نبوت میں سے آپ کی نبوت پر ایک عظیم دلیل ہے کہ جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانے میں فتنوں کی خبر دی تھی بعینہٖ اسی طرح فتنے گاہے گاہے سر اٹھاے رہتے ہیں حتی کہ بسااوفات ایک ذہین وفہیم مومن بھی حیران وششدر ہوتا ہے کہ ان حالات میں اسے کیا کرنا چا ہئیے اور اپنا دین ان فتنوں سے کس طرح بچانا چاہیئے۔
(4) اسلام میں رہبانیت اور گوشہ نشینی نہیں، خواہ وہ عبادت کے لیے ہی ہوبلکہ لوگوں میں رہ کر عبادات بجا لانا اسلامی طریقہ ہے تاکہ اپنے ساتھ ساتھ لوگوں کو بھی دین پر قائم کرنے کی کوشش کر سکے۔ البتہ جب حالات اتنے سنگین ہو جائیں کہ لوگوں میں رہ کر دین پر قائم رہنا ممکن نہ ہو اور اس کے رہنے سے لوگوں کو بھی کوئی شرعی فائدہ نہ ہوتو پھر گوشہ نشینی جائز ہےجیسا کہ حدیث میں بیان ہے۔
(5) بارشی علاقے سے مراد وادیاں ہیں جہاں بارش کاپانی جمع ہو تا ہے۔ یا وہ جگہیں ہیں جہاں بارشیں زیادہ برستی ہیٔں، پھراس سے مراد بھی پہاڑی علاقے ہی ہوں گے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5039
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3980
´(فتنہ کے زمانہ میں) سب سے الگ تھلگ رہنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ اس وقت مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہوں گی جنہیں وہ لے کر پہاڑ کی چوٹیوں یا بارش کے مقامات میں چلا جائے گا، وہ اپنا دین فتنوں سے بچاتا پھر رہا ہو گا۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3980]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جب عام لوگوں کے ساتھ رہنے میں ایمان کو خطرہ ہوتو گوشہ نشینی اختیار کرنا جائز ہے۔
(2)
جو شخص فتنوں میں غلط کار لوگوں کی غلطیاں واضح کرنے کے لیے اپنی زبان استعمال کرسکتا ہو اس کے لیے وعظ ونصیحت اور بحث و مناظرہ کے لیے آبادی میں رہنا اور یہ خدمت انجام دینا افضل ہے.
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3980
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:19
19. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ زمانہ قریب ہے جب مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہوں گی جن کو لے کر وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش کے مقامات کی طرف نکل جائے گا اور فتنوں سے راہ فرار اختیار کر کے اپنے دین کو بچا لے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:19]
حدیث حاشیہ:
1۔
فتنے سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے انسان گمراہ ہوکر اللہ کے ذکر اور اس کی اطاعت سے غافل ہو جائے۔
ہمارے اس دور میں ایسے فتنوں کا ہجوم ہے جو گمراہی اور دین سے بے زاری کا سبب بنتے ہیں ایسے حالات میں گوشہ تنہائی اختیار کرنا بہتر ہے اگرانسان میں ایسے دجالی فتنوں کا مقابلہ کرنے کی علمی، عملی اور اخلاقی ہمت ہو تو معاشرے میں رہتے ہوئے ان کی روک تھام میں کوشاں رہنا افضل ہے۔
کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے پرُفتن دور میں مکہ مکرمہ، اس کے بعد مدینہ منورہ میں اقامت اختیار فرمائی۔
واضح رہے کہ فرار کے تین مرتبے ہیں۔
(1)
فرار من دارالکفر۔
(2)
فرار من دارالفسق۔
(3)
فرار من مجلس المعاصی۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اپنے دین کو بچانے کے لیے تمام لوگوں سے علیحدگی اختیار کرنا اچھا عمل ہے اور ایساکرنا ایمان کاحصہ ہے۔
جولوگ اس طرح کے اعمال صالحہ کو ایمان سے جدا قراردیتے ہیں ان کا موقف صحیح نہیں ہے۔
3۔
اس حدیث میں بکریوں کو بہترین مال قراردیا گیا ہے کیونکہ ان کی پرورش بہت آسان ہوتی ہے لیکن ان سے نفع بہت ہوتا ہے ان کا دودھ حفظان صحت کے لیے بہت مفید ہے، اس کے استعمال سے گرانی پیدا نہیں ہوتی۔
بکری کی نسل بہت بڑھتی ہے، جنگلات میں خوراک کے لیے انتظام کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اپنا پیٹ خود بھر لیتی ہے باآسانی پہاڑوں پر چڑھ جاتی ہے، اس بنا پر پُرفتن دور میں پہاڑوں اور جنگلات میں تنہائی اختیار کر کے اس مفید ترین جانور کی پرورش سے گزر اوقات کرنا مناسب ہے۔
(شرح الکرماني: 110/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 19
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3300
3300. حضرت ابو سعید خدری ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عنقریب مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہوں گی جن کو وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش کی وادیوں میں لے کر چلا جائے گا، اس طرح وہ اپنے دین کو فتنوں سے بچائے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3300]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒکے قائم کردہ عنوان دوطرح کے ہیں:
ایک تو بنیادی ہیں جو اصل مقصود ہیں اور دعویٰ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
دوسرے اضافی ہیں جو اصل مقصود نہیں بلکہ حدیث میں کسی اضافی فائدے کے پیش نظر قائم کیے جاتے ہیں، چنانچہ اس مقام پر بنیادی عنوان کا مقصد یہ ہے کہ ان آیات واحادیث کاذکر کیاجائے جن میں مختلف حیوانات کاذکرآیا ہے، البتہ بعض احادیث میں اس قدر سے زائد فائدہ تھا تو اس پر آپ نے عنوان قائم کرکے متنبہ فرمایا ہے۔
مذکورہ عنوان بھی اسی قبیل سے ہے۔
کہ اصل مقصد تو بکریوں کا ذکر تھا لیکن بکریاں رکھنے میں خیر و برکت کا پہلو بیان کرنے کے لیے مذکورہ اضافی عنوان قائم کیا گیا ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3300
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3600
3600. حضر ت ابوصعصعہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کی مجھے ابو سعید خدری ؓ نے فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تمھیں بکریوں سے بہت محبت ہے اور تم انھیں پالتے ہوتو ان کی نگہداشت اچھی طرح کیا کرو اور ان کی بیماری کا بھی خیال رکھو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”لوگوں پر ایک ایسا دورآئے گا کہ مسلمان کا سب سے عمدہ مال اس ک بکریاں ہوں گی جنھیں لے کر وہ پہاڑ کی چوٹیوں پر چڑھ جائے گا یا وہ بارش برسنے کے مقامات میں چلاجائےگا، الغرض اپنے دین کو فتنوں سے بچانے کے لیے بھاگ نکلے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3600]
حدیث حاشیہ:
1۔
عہد نبوت کے بعد مسلمانوں میں جو خانگی فتنے پیدا ہوئے اس حدیث میں ان کی طرف اشارہ ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی مذکورہ پیش گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی۔
2۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاں تک ہو سکے انسان کو چاہیے کہ وہ فتنوں سے محفوظ رہنے کے لیے بھاگ نکلے کیونکہ ان فتنوں کا شر تعلق کے اعتبار سے ہو گا جس قدر جس کا تعلق ہو گا اسی قدر فتنے اور آزمائش میں مبتلا ہو گا لہٰذا ان سے بے تعلق رہنے کا واحد حل یہ ہے کہ ان سے دور رہنے کے لیے کنارہ کشی کرے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3600
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6495
6495. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جس میں مسلمان آدمی کا بہترین مال بکریاں ہوں گی۔ وہ انہیں لے کر پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش کے مقامات پر لے جائے گا۔ وہ اس زمانے میں برپا فتنوں سے اپنے دین کو بچا کر بھاگ نکلے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6495]
حدیث حاشیہ:
(1)
دور حاضر میں ایسی آزادانہ پہاڑوں کی چوٹیاں ناپید ہیں۔
اب تو ہر جگہ خطرہ ہی خطرہ ہے، تاہم اپنے دین اسلام کو بچانے کے لیے علیحدہ گھر ہی اس انسان کے لیے بہتر ہے جو شہرت اور نمودونمائش کا طالب نہ ہو، بلکہ صرف گناہوں سے محفوظ رہنا مقصود ہو، نیز جمعہ، جماعت اور دیگر فرائض اسلام بھی ترک نہ کرے۔
(2)
واضح رہے کہ فتنوں سے مراد ایسے حالات ہیں کہ لوگوں سے ملنے کی صورت میں انسان کے دین کو خطرہ ہو، بصورت دیگر اپنے ماحول اور معاشرے میں رہنا ہی بہتر ہے جیسا کہ حدیث میں ہے:
”جو مومن لوگوں سے ملتا جلتا ہے اور ان سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے وہ اس مومن سے زیادہ ثواب حاصل کر لیتا ہے جو لوگوں سے ملتا جلتا نہیں اور نہ ان سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر ہی کرتا ہے۔
“ (سنن ابن ماجة، الفتن، حدیث: 4032) (3)
لوگوں سے میل جول میں اچھے برے ہر قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔
معاشرے میں برائی زیادہ ہو جائے تب بھی الگ تھلگ ہو جانا اچھا نہیں بلکہ معاشرے میں رہ کر اصلاح کی کوشش کرنا ضروری ہے۔
اس کے علاوہ تیمارداری کا ثواب، سلام کرنے اور صلہ رحمی کا اجر اسی صورت میں ممکن ہے جب انسان معاشرے میں رہے گا۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6495
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7088
7088. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ وقت قریب ہے کہ مسلمان کا بہترین مال وہ بکریاں ہوں گی جنہیں وہ لے کر پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش برسنے کی جگہوں پر چلا جائے گا۔ وہ فتنوں سے اپنے دین کو کو بچانے کے لیے (آبادی سے) بھاگ نکلے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7088]
حدیث حاشیہ:
انسان کے لیے اس کا دین سب سے قیمتی چیز ہے، اگر آبادی میں رہتے ہوئے اسے نقصان کا خطرہ ہو تو ایسی آبادی کو ترک کر دینا ضروری ہے۔
جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ فتنوں کے دور میں لوگوں کی اصلاح کرنے کے لیے آبادی میں رہنا زیادہ فضیلت کا باعث ہے کیونکہ وہاں نیکی کے بہت سے کام کرنے کا موقع ملتا ہے، تاہم فتنوں کے دور میں اگرایمان کو خطرہ ہوتو علیحدگی اختیار کرنے ہی میں عافیت ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”لوگوں میں بہتر وہ ہے جو اپنے مال وجان سے جہاد کرتا ہے اور وہ بھی جو کسی گھاٹی میں رہ کر اللہ کی عبادت کرتا ہے اور دوسرے لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھتا ہے۔
“ (صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 2786 و فتح الباري: 55/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7088