صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
132. بَابُ الْخُطْبَةِ أَيَّامَ مِنًى:
باب: منیٰ کے دنوں میں خطبہ سنانا۔
حدیث نمبر: 1740
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ زَيْدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ بِعَرَفَاتٍ" تَابَعَهُ ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو.
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عمرو نے خبر دی، کہا کہ میں نے جابر بن زید سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، آپ رضی اللہ عنہما نے بتلایا کہ میدان عرفات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ میں نے خود سنا تھا۔ اس کی متابعت ابن عیینہ نے عمرو سے کی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1740 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1740
حدیث حاشیہ:
یہ یوم عرفہ کا خطبہ ہے اور منیٰ کا خطبہ بعد والا ہے، جو دسویں تاریخ کو دیا تھا اس میں صاف یوم النحر کی وضاحت موجود ہے۔
فهذا الحدیث الذي وقع في الصحیح أنه صلی اللہ علیه وسلم خطب به یوم النحر و قد ثبت أنه خطب به قبل ذلك یوم عرفة۔
(فتح الباري)
یعنی صحیح بخاری کی حدیث میں صاف مذکور ہے کہ آپ ﷺ نے یوم النحر میں خطبہ دیا اور یہ بھی ثابت ہے کہ اس سے پہلے آپ ﷺ نے یہی خطبہ یوم عرفا ت میں بھی پیش فرمایا تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1740
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1740
حدیث حاشیہ:
(1)
عام طور پر حج کے چھ دن ہیں جو آٹھ ذوالحجہ سے شروع ہو کر تیرہ ذوالحجہ تک رہتے ہیں۔
پہلے دن کو یوم الترویہ، دوسرے کو یوم عرفہ، تیسرے کو یوم النحر، چوتھے کو یوم القر، پانچویں کو یوم نفر اول اور چھٹے کو یوم نفر ثانی کہا جاتا ہے۔
(2)
ان دنوں موقع محل کی مناسبت سے لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنے کے لیے امام کو چاہیے کہ وہ خطبہ دینے کا اہتمام کرے۔
پہلا خطبہ جو نویں ذوالحجہ کو دیا جاتا ہے وہ نماز سے پہلے اور باقی تین خطبے اس کے بعد ہیں۔
ان میں سے ایک خطبہ قربانی کے دن ہے۔
کچھ لوگ اس دن خطبہ کے مسنون ہونے کا انکار کرتے ہیں۔
ان کے نزدیک یہ وصایا ہیں جو نبی ﷺ نے امت کو ارشاد فرمائی ہیں، اس میں حج سے متعلقہ احکام و مسائل نہیں ہیں۔
امام بخاری ؒ نے ان کی تردید کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ راوی کے نزدیک یہ خطبہ ہے جیسا کہ عرفات کے دن خطبہ دیا تھا۔
اس بنا پر قربانی کے دن خطبہ دینا بھی سنت نبوی ہے، یہ عام وعظ و ارشاد نہیں۔
چونکہ حج کا ایک مقصد عالم اسلام کو اتحاد و اتفاق کی دعوت دینا ہے، اس مقصد کے لیے بہترین ذریعہ یہ خطبات ہیں، اس لیے خطیب کو چاہیے کہ وہ مسائل حج کے ساتھ ساتھ عالمی مسائل پر بھی روشنی ڈالے، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی پیروی، نیز باہمی اتفاق و اتحاد کی دعوت دے، حج بیت اللہ کا یہی مقصود اعظم ہے۔
(3)
حضرت ابن عباس ؓ سے دوسری روایت میں میدان عرفات میں خطبہ دینے کا ذکر ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس حدیث کا حوالہ اس لیے دیا ہے کہ راوی حدیث ابن عباس ؓ عرفہ کے دن وعظ و ارشاد کو خطبہ سے تعبیر کرتے ہیں اور اس دن خطبہ کے مسنون ہونے پر کسی کو اختلاف نہیں تو وہی راوی قربانی کے دن وعظ و نصیحت کو بھی خطبہ کا نام دیتے ہیں تو اسے اختلاف کی بھینٹ چڑھانے کی کیا ضرورت ہے۔
بہرحال دس تاریخ کو خطبہ دینا بھی مسنون ہے۔
(4)
حدیث کے آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک متابعت بھی بیان کی ہے جسے امام احمد بن حنبل ؒ نے متصل سند سے بیان کیا ہے، اس میں اگرچہ محل خطبہ کی تعیین نہیں ہے۔
(فتح الباري: 726/3)
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1740