صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
131. بَابُ الْفُتْيَا عَلَى الدَّابَّةِ عِنْدَ الْجَمْرَةِ:
باب: جمرہ کے پاس سوار رہ کر لوگوں کو مسئلہ بتانا۔
حدیث نمبر: 1738
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي عِيسَى بْنُ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَاقَتِهِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ , تَابَعَهُ مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ.
ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں یعقوب بن ابراہیم نے خبر دی، ان سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے عیسیٰ بن طلحہ بن عبیداللہ نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے سنا انہوں نے بتلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سواری پر سوا رہو کر ٹھہرے رہے پھر پوری حدیث بیان کی۔ اس کی متابعت معمر نے زہری سے روایت کر کے کی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1738 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1738
حدیث حاشیہ:
شریعت کی اس سادگی اور آسانی کا اظہار مقصود ہے جو اس نے تعلیم، تعلم، افتاء و ارشاد کے سلسلہ میں سامنے رکھی ہے۔
بعض روایتوں میں ایسا بھی ہے کہ آپ ﷺ اس وقت سواری پر نہ تھے بلکہ بیٹھے ہوئے تھے اور لوگوں کے مسائل بتلا رہے تھے۔
سو تطبیق یہ ہے کہ کچھ وقت سواری پر بیٹھ کر ہی آپ ﷺ نے مسائل بتلائے ہوں، بعد میں آپ ﷺ اتر کر نیچے بیٹھ گئے ہوں۔
جس راوی نے آپ ﷺ کو جس حال میں دیکھا بیان کر دیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1738
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1738
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒنے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے مروی اس حدیث پر قبل ازیں اسی قسم کے دو عنوان قائم کیے ہیں جن کے الفاظ حسب ذیل ہیں:
٭ چوپائے پر بیٹھ کر سوالوں کے جواب دینا۔
٭ رمی جمار کے وقت سوال و جواب کرنا۔
بظاہر تکرار معلوم ہوتا ہے لیکن شاز و نادر ہی ایسا ہوا ہے۔
(فتح الباري: 718/3)
واللہ أعلم۔
(2)
واضح رہے کہ ان احادیث میں "وَقَفَ" کے معنی کھڑا ہونا نہیں بلکہ سواری پر بیٹھے بیٹھے ٹھہرنا یا رک جانا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کی اس حدیث میں چار معاملات کے متعلق تقدیم و تاخیر کو بیان کیا گیا ہے:
٭ قربانی ذبح کرنے سے پہلے سر منڈوا لینا۔
٭ رمی کرنے سے پہلے حلق کرنا۔
٭ رمی سے پہلے قربانی کرنا۔
٭ رمی سے پہلے طواف افاضہ کرنا۔
حضرت علی ؓ سے مروی حدیث میں حلق سے پہلے طواف افاضہ کرنے کا ذکر ہے جبکہ حضرت جابر ؓ سے مروی حدیث میں ذبح کرنے سے پہلے طواف افاضہ کرنا ہے۔
حضرت اسامہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے طواف سے پہلے سعی کرنے کا سوال ہوا۔
(سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 2015)
بہرحال بھول کر یا لاعلمی میں اگر کوئی کام آگے پیچھے ہو جائے تو اس میں کوئی دم واجب نہیں۔
(3)
معمر بن راشد کی متابعت کو امام مسلم نے بایں الفاظ بیان کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منیٰ میں اپنی اونٹنی پر سوار ہوتے دیکھا جبکہ آپ کے پاس ایک آدمی آیا۔
۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3162(1306) (4)
امام بخاری ؒ کا مقصود شریعت کی سادگی اور آسانی کو بیان کرنا ہے جو اس نے تعلیم و تعلم اور دعوت و افتا کے سلسلے میں سامنے رکھی ہے۔
بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس وقت بیٹھے ہوئے تھے اور لوگوں کو دینی مسائل سے آگاہ فرما رہے تھے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ سواری پر بیٹھ کر مسائل بیان کر رہے تھے۔
(فتح الباري: 719/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1738