Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
131. بَابُ الْفُتْيَا عَلَى الدَّابَّةِ عِنْدَ الْجَمْرَةِ:
باب: جمرہ کے پاس سوار رہ کر لوگوں کو مسئلہ بتانا۔
حدیث نمبر: 1736
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَجَعَلُوا يَسْأَلُونَهُ، فَقَالَ رَجُلٌ: لَمْ أَشْعُرْ فَحَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ؟ , قَالَ: اذْبَحْ وَلَا حَرَجَ، فَجَاءَ آخَرُ، فَقَالَ: لَمْ أَشْعُرْ فَنَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ؟ قَالَ: ارْمِ وَلَا حَرَجَ، فَمَا سُئِلَ يَوْمَئِذٍ عَنْ شَيْءٍ قُدِّمَ وَلَا أُخِّرَ، إِلَّا قَالَ: افْعَلْ وَلَا حَرَجَ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عیسیٰ بن طلحہ نے، انہیں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر (اپنی سواری) پر بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسائل معلوم کئے جا رہے تھے۔ ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ! مجھ کو معلوم نہ تھا اور میں نے قربانی کرنے سے پہلے ہی سر منڈا لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب قربانی کر لو کوئی حرج نہیں، دوسرا شخص آیا اور بولا: یا رسول اللہ! مجھے خیال نہ رہا اور رمی جمار سے پہلے ہی میں نے قربانی کر دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب رمی کر لو کوئی حرج نہیں، اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس چیز کے آگے پیچھے کرنے کے متعلق سوال ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا اب کر لو کوئی حرج نہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1736 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1736  
حدیث حاشیہ:
حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنی سواری پر تشریف فرما تھے اور مسائل بتلا رہے تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1736   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 124  
´رمی جمار کے وقت بھی مسائل دریافت کرنا جائز ہے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الْجَمْرَةِ وَهُوَ يُسْأَلُ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ، قَالَ: ارْمِ وَلَا حَرَجَ، قَالَ آخَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ، قَالَ: انْحَرْ وَلَا حَرَجَ، فَمَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ قُدِّمَ وَلَا أُخِّرَ إِلَّا قَالَ: افْعَلْ وَلَا حَرَجَ . . .»
. . . عبداللہ بن عمرو سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمی جمار کے وقت دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا جا رہا تھا تو ایک شخص نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں نے رمی سے قبل قربانی کر لی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اب) رمی کر لو کچھ حرج نہیں ہوا۔ دوسرے نے کہا، یا رسول اللہ! میں نے قربانی سے پہلے سر منڈا لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اب) قربانی کر لو کچھ حرج نہیں۔ (اس وقت) جس چیز کے بارے میں جو آگے پیچھے ہو گئی تھی، آپ سے پوچھا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہی جواب دیا (اب) کر لو کچھ حرج نہیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ السُّؤَالِ وَالْفُتْيَا عِنْدَ رَمْيِ الْجِمَارِ: 124]
تشریح:
(تعصب کی حد ہو گئی) امام بخاری قدس سرہ کا مقصد ظاہر ہے کہ رمی جمار کے وقت بھی مسائل دریافت کرنا جائز ہے۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بھی سوالات کئے گئے «الدين يسر» کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقدیم و تاخیر کو نظر انداز کرتے ہوئے فرما دیا کہ جو کام چھوٹ گئے ہیں ان کو اب کر لو، تو کوئی حرج نہیں ہے۔ بات بالکل سیدھی اور صاف ہے مگر تعصب کا برا ہو صاحب انوار الباری کو ہر جگہ یہی نظر آتا ہے کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ یہاں بھی محض احناف کی تردید کے لیے ایسا لکھ رہے ہیں۔ ان کے خیال ناقص میں گویا جامع صحیح از اول تا آخر محض احناف کی تردید کے لیے لکھی گئی ہے، آپ کے الفاظ یہ ہیں:
احقر (صاحب انوار الباری) کی رائے ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ حسب عادت جس رائے کو اختیار کرتے ہیں چونکہ بقول حضرت شاہ صاحب اسی کے مطابق احادیث لاتے ہیں اور دوسری جانب کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اسی لیے ترتیب افعال حج کے سلسلہ میں چونکہ وہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی رائے سے مخالف ہیں اس لیے اپنے خیال کی تائید میں جگہ جگہ حدیث «الباب افعل ولاحرج» کو بھی لائے ہیں۔ [انوار الباري،جلد4،ص: 104]
معلوم ہوتا ہے کہ صاحب انوارالباری کو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے دل کا پورا حال معلو ہے، اسی لیے تووہ ان کے ضمیر پر یہ فتویٰ لگا رہے ہیں۔ اسلام کی تعلیم تھی کہ مسلمان آپس میں حسن ظن سے کام لیا کریں، یہاں یہ سوء ظن ہے۔ استغفراللہ۔

آگے صاحب انوارالباری مزید وضاحت فرماتے ہیں:
آج اس ہی قسم کے تشدّد سے ہمارے غیرمقلد بھائی اور حرمین شریفین کے نجدی علماء ائمہ حنفیہ کے خلاف محاذ بناتے ہیں، حنفیہ کو چڑانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی یک طرفہ احادیث پیش کیا کرتے ہیں۔ [حواله مذكور]
صاحب انوارالباری کے اس الزام پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے قاعدہ ہے «المرء يقيس على نفسه» (انسان دوسروں کو بھی اپنے نفس پر قیاس کیا کرتا ہے) چونکہ اس تشدد اور چڑانے کا منظر کتاب انوار الباری کے بیشتر مقامات پر ظاہر و باہر ہے اس لیے وہ دوسروں کو بھی اسی عینک سے دیکھتے ہیں، حالانکہ واقعات بالکل اس کے خلاف ہیں۔ مقام صد شکر ہے کہ یہاں آپ نے اپنی سب سے معتوب جماعت اہل حدیث کو لفظ غیرمقلد بھائی سے تو یاد فرمایا۔ اللہ کرے کہ غیرمقلدوں کو یہ بھائی بنانا برادران یوسف کی نقل نہ ہو اور ہمارا تو یقین ہے کہ ایسا ہرگز نہ ہو گا۔ اللہ پاک ہم سب کو ناموس اسلام کی حفاظت کے لیے اتفاق باہمی عطا فرمائے۔ سہواً ایسے موقع پر اتنی تقدیم و تاخیر معاف ہے۔ حدیث کا یہی منشا ہے، حنفیہ کو چڑانا حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا منشاء نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 124   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6665  
6665. حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ قربانی کی دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ایک صحابی کھڑے ہوئے اور کہا: اللہ کے رسول! میں فلاں فلاں ارکان سے پہلے خیال کرتا تھا پھر ایک دوسرا کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! میں فلاں فلاں ارکان کے متعلق یونہی خیال کرتا تھا اس کا اشارہ (حلق، رمی اور نحر) تینوں کی طرف تھا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: یونہی کر لو (ان میں سے کسی کام کے پہلے یا بعد کرنے میں) کوئی حرج نہیں چنانچہ اس دن آپ ﷺ سے جس کام کے متعلق بھی دریافت کیا گیا تو آپ نے یہی فرمایا: یونہی کر لو، کوئی حرج نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6665]
حدیث حاشیہ:
یہ آپ نے محض بھول چوک کی بنا پر فرمایا تھا ورنہ قصداً ایسا کرنا درست نہیں ہے۔
حضرت امام بخاری  نےاس سے یہ نکالا کہ حج کے کاموں میں بھول چوک پرآنحضرت ﷺ نے کسی کفارہ کا حکم نہیں دیا نہ فدیہ کا تو اسی طرح قسم بھی اگر چوک سے سے توڑ ڈالے تو کفارہ لازم نہ ہوگا (وحیدی)
سند میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سہمی قریشی مذکور ہوئے ہیں تو بڑے زبردست عابد عالم حافظ اورقاری قرآن تھے۔
انہوں نے آنحضرت ﷺ سے آپ کی احادیث لکھنے کی اجازت مانگی تھی اور ان کو اجازت دی گئی۔
چنانچہ یہ احادیث نبوی کے اولین جامع ہیں۔
رات کو چراغ بجھا کر نماز میں کھڑے ہوتے اور بہت ہی زیادہ روتے۔
چنانچہ ان کی آنکھیں خراب ہوگئی تھیں۔
جنگ حرہ کےدنوں میں بماہ ذی الحجہ 63ھ میں وفات پائی رضي اللہ عنه و أرضاہ آمین۔
اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے مشکل ہے۔
مگر شاید امام بخاری نے یہ روایت لا کر اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے۔
اس میں یوں ہےکہ تیسری بار وہ شخص کہنے لگا قسم اس پروردگار کی جس نے سچائی کے ساتھ آپ کو بھیجا میں تو اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا ایسی قسم بھی آیت ﴿لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ﴾ میں داخل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6665   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 329  
´حج میں لازمی عمل بھول جائے یا ترک کر دے تو دم ضروری ہے`
«. . . قال: فما سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن شيء قدم ولا اخر إلا قال: افعل ولا حرج . . .»
. . . اس دن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس چیز کے بارے میں پوچھا گیاجس میں تقدیم و تاخیر ہو گئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جواب دیا کہ کر لو اور کوئی حرج نہیں ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 329]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 83، 1736، ومسلم 1306، من حديث مالك به]

تفقه
➊ اگر لاعلمی کی وجہ سے کنکریاں مارنے یا قربانی کرنے میں کوئی تقدیم و تاخیر ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے اور کوئی دم (بکری ذبح کرنا) واجب نہیں ہے۔
➋ علم ہونے کے بعد اگر کوئی لازمی عمل ترک ہو گیا تو دم دینا پڑے گا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ارشاد ہے:
«من نسي من نسكه شيئًا أو تركه فليهرق دمًا»
جو شخص اپنے حج و عمرہ سے کوئی (لازمی) عمل بھول جائے یا ترک کر دے تو اس شخص پر دم ہے یعنی اسے بکری ذبح کر کے مساکین حرم میں تقسیم کرنی پڑے گی۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 5/30 وسنده صحيح، الموطأ للامام مالك 1/419 ح968 وسنده صحيح]
➌ ایک حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی حاجی قربانی والے دن (10 ذوالحجہ) شام سے پہلے طواف نہ کر سکے تو اس پر (احرام کی) ساری پابندیاں دوبارہ لوٹ آئیں گی یعنی اسے طواف زیارت تک دوبارہ احرام باندھنا پڑے گا۔ دیکھئے: [سنن ابي داؤد 1999 وسنده حسن وصححه ابن خزيمه 2958]
➍ اہل علم کو چاہئے کہ ایام حج (اور اس سے پہلے اور بعد) میں لوگوں کو کتاب و سنت اور دلائل شرعیہ کے مطابق علمی باتیں بتائیں۔
➎ اس پر اجماع ہے کہ حاجی اور عمرہ کرنے والا حالت احرام میں اپنے بال نہیں کاٹے گا اور نہ کٹوائے گا۔ اگر کسی شرعی عذر کی وجہ سے بال کٹوانے پڑے تو دم دینا پڑے گا۔
➏ جمرۂ عقبہ کو کنکریاں مارنے کے بعد سر کے بالوں کا حلق کرنا (منڈوانا) افضل ہے اور بال کترانا جائز ہے۔
➐ حج و عمرے کے تفصیلی مسائل کے لئے میری (مترجَم ومحقَق) کتاب حاجی کے شب وروز دیکھیں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 66   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 631  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں ایک مقام پر کھڑے ہو گئے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنے شروع کیے۔ کسی نے کہا کہ مجھے علم نہیں تھا اور میں نے قربانی سے پہلے حجامت بنوا لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا قربانی کرو، کوئی حرج نہیں اور ایک آدمی نے عرض کیا مجھے معلوم نہیں تھا اور میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کر لی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا اب کنکریاں مار لے، کوئی حرج نہیں اس روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی عمل کے مقدم و مؤخر کرنے کے متعلق استفسار پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اب کر لو، کوئی حرج نہیں۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 631]
631لغوی تشریح:
«وقف فى حجة الوداع» دسویں ذی الحجہ کو زوال آفتاب کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر جمرہ کے پاس خطاب فرمانے کے لیے کھڑے ہوئے۔
«لم اشعر» «اشعر» میں عین پر ضمہ ہے۔ یعنی مجھے اس کا علم نہیں ہوا۔ میں سمجھ نہ سکا۔
«قدم ولا اخر» یہ دونوں باب تفعیل سے مجہول کے صیغے ہیں۔ یاد رہے کہ قربانی کے روز حجاج کرام کے ذمے چار کام بالترتیب انجام دینے ہوتے ہیں۔ پہلا کام جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنا، دوسرا قربانی کرنا، تیسرا سر منڈانا یا بال کٹوانا اور چوتھا طواف افاضہ۔ علماء کا اس پر تو اتفاق و اجماع ہے کہ یہ ترتیب شرعی طور پر مطلوب و مقصود ہے لیکن ان کے درمیان بعض معمولات کے آگے پیچھے ہونے کے جواز میں اختلاف ہے۔ اسے طرح یہ ترتیب آگے پیچھے ہونے پر وجوب دم میں بھی اختلاف ہے اور اس حدیث سے ان حضرات کی تائید ہوتی ہے جو تقدیم و تاخیر کے جواز کے قائل ہیں اور دم کے بھی قائل نہیں ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 631   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:591  
591- سیدنا عبد اللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔ اس نے عرض کی: یارسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)! میں نے رمی کرنے سے پہلے قربانی کر لی ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اب رمی کرلو۔کوئی حرج نہیں ہے۔ ایک اور صاحب آئے انہوں نے عرض کی۔میں نے قربانی سے پہلے سر منڈوالیاہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اب قربانی کرلو۔کوئی حرج نہیں ہے۔ سفیان سے یہ کہاگیا:آپ نےزہری کی زبانی یہ روایت یاد کی ہے؟انہوں نے جواب دیا: جی ہاں! گویاکہ وہ اس وقت بھی اسے سن رہےتھے۔ تاہم یہ روایت طویل ہے۔ میں نے اس میں سے صرف اس حصے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:591]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حاجی حضرات دس ذوالحجہ کے دن ان چار کاموں کو ترتیب سے کریں گے۔
اس دن تمام حاجیوں نے یہ چار کام کرنے ہیں، رمی، جانور ذبح کرنا، طواف کرنا، اور حلق کرنا (سرمنڈوانا) ان کی ترتیب کا خیال رکھنا ضروری ہے لیکن اگر بھول کر یا لاعلمی میں کوئی کام آگے پیچھے ہو جائے تو اس میں کوئی دم واجب نہیں۔ ثابت ہوا کہ شریعت آسان ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 591   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3156  
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں منیٰ میں لوگوں کے لیے ٹھہرے تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کر سکیں، ایک آدمی نے آ کر پوچھا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے لا علمی میں قربانی کرنے سے پہلے سر مونڈ لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: قربانی کر، کوئی حرج نہیں ہے۔ پھر دوسرے نے آ کر پوچھا، اے اللہ کے رسول مجھے پتہ نہیں تھا، میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3156]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اکثر فقہاء و محدثین کے نزدیک جن میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
اسحاق رحمۃ اللہ علیہ،
ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اور محمد شامل ہیں کا مؤقف یہ ہے کہ قربانی کےدن چاروں کاموں میں ترتیب سنت ہے،
فرض یا واجب نہیں ہے،
اگر کوئی شخص اس ترتیب کو بھول جائے جو کام پہلے کا ہے اسے بعد میں اور جو بعد کا ہے اسے پہلے کر لے خواہ جان بوجھ کر یا بھول کر یا نہ جاننے کی وجہ سے اس پر کوئی گناہ یا قربانی نہیں ہے،
جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان:
کسی قسم کا حرج نہیں ہے۔
سے ثابت ہو رہا ہے،
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی ترتیب سنت ہے اگر کوئی شخص بھول کر یا نا واقفیت کی بنا پر اسے الٹ دے تو اس کے ذمہ کوئی قربانی نہیں ہے،
لیکن اگر وہ جان بوجھ کر الٹے تو پھر امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے دوقول منقول ہیں ایک کی رو سے اس کے ذمے قربانی ہے اور دوسرے کی روسے قربانی نہیں ہے،
حضرت حسن بصری،
ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ،
نخعی رحمۃ اللہ علیہ،
اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مفرد کے لیے ان تمام کاموں میں ترتیب سنت ہے،
لیکن متمتع اور قارن کے لیے رمی،
قربانی اور حلق یا تقصیر کے درمیان ترتیب واجب ہے اس کے الٹ جانے کی صورت میں متمتع پر ایک اور قارن پر دو جانوروں کی قربانی ضروری ہے اور زفرکے نزدیک تین جانوروں کی قربانی کرنا ہو گی،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اگر قربانی سے پہلے حجامت کرا لے تواس کے ذمہ قربانی نہیں ہے،
لیکن اگر رمی سے پہلے حجامت کرا لے تو اس کے ذمہ قربانی ہے،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اگر کوئی شخص کنکریاں مارنے سے پہلے طواف افاضہ کر لے تو ایک قول کی روسے طواف ہو جائے گا مگر اس کے ذمہ قربانی ہوگی۔
دوسرے قول کی روسے طواف افاضہ کا اپنے وقت پر اعادہ کرنا ہوگا۔
باقی آئمہ کے نزدیک طواف افاضہ ہو جائے گا قربانی یا اعادہ کی ضرورت نہیں ہے اصل بات یہ ہے جو کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسے کیا ہے ہمیں ویسے ہی کرنا چاہیے اپنی یا کسی کی رائے کو اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3156   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:83  
83. حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر منیٰ میں ان لوگوں کے لیے کھڑے تھے جو آپ سے مسائل پوچھ رہے تھے۔ ایک شخص آیا اور کہنے لگا: مجھے خیال نہیں رہا، میں نے قربانی سے پہلے اپنا سر منڈوا لیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اب ذبح کر لو کچھ مضائقہ نہیں۔ پھر ایک شخص آیا اور عرض کیا: لاعلمی سے میں نے رمی سے پہلے قربانی کر لی ہے؟ آپ نے فرمایا: اب رمی کر لو، کوئی حرج نہیں۔ (عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں:) اس دن آپ سے جس بات کی بابت بھی پوچھا گیا جو کسی نے پہلے کر لی یا بعد میں، تو آپ نے فرمایا: اب کر لو کچھ حرج نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:83]
حدیث حاشیہ:

ایک حدیث میں ہے کہ جانوروں کی پشت سےمنبر کا کام نہ لو۔
(سنن ابي داؤد، الجھاد، حدیث: 2567)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بحالت سواری وعظ کہنا، فتویٰ دینادرست نہیں۔
دونوں روایات میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ اسے عادت نہیں بنانا چاہیے کہ خواہ مخواہ جانوروں کی پیٹھ پر بیٹھ کر تقریر کی جائے، اس سے بچنا افضل ہے، تاہم ضرورت کے وقت اس کاجواز ہے۔
اگرچہ فتویٰ دینے کے لیے مفتی کا کسی مقام پر اطمینان کے ساتھ بیٹھنا بہتر ہے اور احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے لیکن کھڑے کھڑے یا چلتے پھرتے کسی سائل کومسئلہ بتا دینا بھی جائز ہے، البتہ چلتے پھرتے یا سواری پر بیٹھے ہوئے درس وتدریس کا جواز کشید نہیں کیا جاسکتا کیونکہ تعلیم و تدریس کی شان فتویٰ وغیرہ سے بالکل الگ ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان ثابت کرنے کے لیے جو حدیث پیش کی ہے اس میں دابة(جانور)
کا ذکر نہیں ہے۔
البتہ اس عنوان کی دوسری روایات میں یہ لفظ موجود ہے۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1738)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بکثرت ایسا کرتے ہیں کہ غیر مذکور الفاظ کومدنظر رکھتے ہوئے اس سے مسائل کا استخراج کرتے ہیں۔

یوم نحر میں چار اعمال ہیں:
رمی، ذبح، حلق اور طواف زیارت، خلاف ترتیب عمل کی صورت میں نہ کفارہ دینا ضروری ہے اور نہ اخروی نقصان اور گناہ ہی ہے۔
آخرحدیث میں راوی کا بیان ہے کہ تقدیم وتاخیر کے متعلق جس قدر بھی سوالات ہوئے سب کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جواب دیا کہ جوعمل رہ گیا ہے، اسے اب بجا لاؤ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مکمل بحث کتاب الحج میں آئے گی۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کے د و اجزاء ہیں۔
(الف)
۔
وقوف علی الدابة۔
(ب)
۔
وقوف علی غیر دابة۔
اس حدیث سے دوسرا جز ثابت ہوگیا۔
اس سے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے مؤقف کا اثبات ہوتا ہے کہ علم کو وقار اور اطمینان سے پڑھانا چاہیے۔
اسی طرح راستہ چلتے ہوئے فتویٰ نہیں دینا چاہیے، لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مؤقف ہے کہ اتنی شرائط نہ لگائی جائیں کہ کوئی سائل ہنگامی مسئلہ دریافت ہی نہ کرسکے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 83   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:124  
124. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو جمرے کے قریب بایں حالت دیکھا کہ آپ سے سوالات کیے جا رہے ہیں، چنانچہ ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ! میں نے رمی سے پہلے قربانی کر لی ہے؟ آپ نے فرمایا: اب رمی کر لو، کوئی حرج نہیں۔ دوسرے نے دریافت کیا: یا رسول اللہ! میں نے قربانی سے پہلے سر منڈوا لیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اب قربانی کر لو، کوئی حرج نہیں۔ الغرض کسی بھی چیز کی تقدیم و تاخیر کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے اس کا جواب دیا: اب کر لو، کوئی حرج نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:124]
حدیث حاشیہ:

حدیث میں ہے کہ بیت اللہ کا طواف، صفا مروہ کی سعی اور رمی جمار ذکر اللہ کی اقامت کے لیے ہیں۔
(سنن ابی داؤد، المناسك، حدیث: 1888)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ اس حدیث کے پیش نظر رمی جمار کے وقت ایک آدمی اللہ کے ذکر میں مصروف ہے ایسی حالت میں سوال و جواب کی اجازت ہے یا نہیں؟ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ حدیث سے اس کا جواز ثابت فرمایا ہے دراصل ذکر کی دو قسمیں ہیں:
ایک یہ کہ اس میں مشغولیت کے وقت دوسری کسی چیز کی طرف توجہ دینا جائز نہیں جیسا کہ نماز وغیرہ اور دوسری قسم ایسی ہے کہ اس میں مصروفیت کے دوران میں نہ گفتگو کی ممانعت ہے اور نہ دوسری طرف توجہ دینا ہی ناجائز ہے جیسے رمی جمار اور طواف وغیرہ۔
اس مقام پر حج کے مسائل بیان کرنا مقصود نہیں کیونکہ وہ کتاب الحج میں بیان ہوں گے۔
اسے کتاب العلم میں اس غرض سے بیان کیا گیا ہے تاکہ علم کا مقام اور مرتبہ واضح کیا جائے۔
یعنی علم کی اتنی اہمیت ہے کہ اللہ کا ذکر قطع کرکے علمی سوالات کا جواب دیا جا سکتا ہے، لیکن حدیث میں راوی کا بیان بایں الفاظ ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جمرے کے پاس دیکھا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت رمی جمار کر رہے تھے اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جمرے کے پاس تشریف فرماہونا دو صورتوں میں ممکن ہے:
یا تو آپ رمی فرما رہے ہوں گے یا رمی کے بعد دعا میں مشغول ہوں گےاور دعا بھی عبادت ہے، اس لیے آپ سے سوال کسی بھی صورت میں کیا گیا ہو، دوران عبادت میں کیا گیا ہے اور آپ نے سوال کرنے والوں سے یہ نہیں فرمایا کہ میں اس وقت عبادت میں مصروف ہوں بلکہ آپ نے ان کے جوابات دیے ہیں۔
لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ جن عبادات میں گفتگو کی اجازت ہے اگر اس دوران میں عالم سے سوال کیا جائے تو اسے جواب دینے کی اجازت ہے۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علم میں کس قدر گیرائی اور گہرائی ہے اور ثقاہت و فقاہت میں آپ کا مقام کس قدر اونچا ہے! لیکن حسد و بغض کا ستیاناس ہو، یہ انسان کو بالکل اندھا کردیتا ہے چنانچہ امین احسن اصلاحی نے تدبر حدیث کی آڑ میں اپنے خبث باطن کا اظہار بایں الفاظ کیا ہے۔
یہ باب ایسا ہے کہ جس پر ہمارے محدثین حضرات نے بھی سر پیٹا ہے کہ یہ باب بالکل فضول باندھا گیا ہے۔
(تدبر حدیث: 1/223)
البتہ علامہ اسماعیلی نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراض کیا ہے کہ اگر اتنی اتنی بات پر عنوان قائم کرنا ہے تو پھر اس حدیث پر تین عنوان ہونے چاہیے تھے۔

باب السوال عندرمی الجمار۔

باب السوال والمسئول علی الراحلة 3۔
باب السوال یوم النحر-
اس اعتراض کا جواب حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے دیا ہے کہ ان تین تراجم میں سے ایک عنوان تو پہلے آچکا ہے یعنی سواری وغیرہ پر سوار رہ کرفتوی دینا۔
(باب رقم23)
وہاں بھی یہی حدیث پیش فرمائی تھی۔
پھر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مکان سے صرف نظر کرتے ہوئے زمان ووقت کا لحاظ رکھا اور عنوان قائم کردیا۔
اس خصوصیت کی وجہ یہ ہے کہ عیدکا دن ہے۔
اس مناسبت سے کسی شخص کے دل میں یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ شاید عید کے دن لہو ولهب کی وجہ سے علمی سوال کرنے کی اجازت نہ ہو۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ اس دن بھی سوالات و جوابات کا سلسلہ قائم کیا جا سکتا۔
(فتح الباری: 1/297)
ہماری وضاحت کے بعد بھی اگر کسی نے سرپیٹنا ہے تو اپنا پیٹے، اپنی عقل و دانش کا ماتم کرے، محدثین کرام پر الزام تراشی یا تہمت زنی کی کیا ضرورت ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 124   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6665  
6665. حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ قربانی کی دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ایک صحابی کھڑے ہوئے اور کہا: اللہ کے رسول! میں فلاں فلاں ارکان سے پہلے خیال کرتا تھا پھر ایک دوسرا کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! میں فلاں فلاں ارکان کے متعلق یونہی خیال کرتا تھا اس کا اشارہ (حلق، رمی اور نحر) تینوں کی طرف تھا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: یونہی کر لو (ان میں سے کسی کام کے پہلے یا بعد کرنے میں) کوئی حرج نہیں چنانچہ اس دن آپ ﷺ سے جس کام کے متعلق بھی دریافت کیا گیا تو آپ نے یہی فرمایا: یونہی کر لو، کوئی حرج نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6665]
حدیث حاشیہ:
(1)
حج کے تین ارکان ذبح، حلق اور رمی کے متعلق فرمایا کہ بھول کر تقدیم و تاخیر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
آپ نے بھول چوک کی بنا پر یہ قاعدہ جاری فرمایا کیونکہ جان بوجھ کر تقدیم و تاخیر کرنا جائز نہیں۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ جب ارکان حج کے متعلق تقدیم و تاخیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی قسم کے کفارے کا حکم نہیں دیا اور نہ فدیے ہی کو لازم کہا ہے تو قسم کے متعلق بھی یہی ضابطہ ہے کہ اگر اسے بھی بھول چوک اور سہو و نسیان سے توڑ دیا جائے تو اس پر کفارہ لازم نہیں ہو گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6665