سنن ابي داود
كِتَاب التَّرَجُّلِ
کتاب: بالوں اور کنگھی چوٹی کے احکام و مسائل
7. باب مَا جَاءَ فِي الْمَرْأَةِ تَتَطَيَّبُ لِلْخُرُوجِ
باب: عورت باہر جانے کے لیے خوشبو لگائے تو کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 4175
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، وَسَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ أَبُو عَلْقَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَصَابَتْ بَخُورًا فَلَا تَشْهَدَنَّ مَعَنَا الْعِشَاءَ"، قَالَ ابْنُ نُفَيْلٍ: عِشَاءَ الْآخِرَةِ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس عورت نے خوشبو کی دھونی لے رکھی ہو تو وہ ہمارے ساتھ عشاء کے لیے (مسجد میں) نہ آئے“ (بلکہ وہ گھر ہی میں پڑھ لے)۔ ابن نفیل کی روایت میں «العشاء» کے بجائے «عشاء الآخرة» ہے (یعنی عشاء کی صلاۃ)۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 30 (444)، سنن النسائی/الزینة 37 (5131)، (تحفة الأشراف: 12207)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/304) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (444)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4175 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4175
فوائد ومسائل:
عود و لوبان کی خوشبو کا ایک انداز عرب میں یہ ہے کہ وہ لوگ اس کی دھونی لیتے ہیں۔
اس سے اس کی خوشبو ان کے جسم اور کپڑوں میں بس جاتی ہے۔
جو بہت ہلکی ہوتی ہے اور بھلی لگتی ہے جب ہلکی خوشبو حرام ہے تو تیز خوشبو اور بھی زیادہ قبیح ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4175
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5130
´مسجد جانے سے پہلے عورت نہا دھو کر اپنے جسم سے خوشبو زائل کرے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب عورت مسجد کے لیے نکلے تو خوشبو مٹانے کے لیے اس طرح غسل کرے جیسے غسل جنابت کرتی ہے“، یہ حدیث مختصر ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5130]
اردو حاشہ:
(1) ”مسجد کو“ مراد گھر سے باہر جانا ہے۔ مسجد کو جائے یا کسی دوسرے کے گھر میں یا کھیت میں۔ مسجد کا ذکر خصوصاً اس لیے کیا کہ مسجد پاکیزگی کی جگہ ہے۔ وہاں خوشبوافضل ہے مگر عورت مسجد کو جاتے وقت بھی خوشبو استعمال نہیں کرسکتی چہ جائیکہ کسی اور جگہ خوشبو لگا کر جائے۔
(2) ”اچھی طرح غسل کرے“ کیونکہ خوشبو تو ایک عضو سے دوسرے عضو کو لگ جاتی ہے، لہٰذا نہائے بغیر خوشبو کا اثر ختم نہ ہوگا۔ مقصد تو خوشبو کو ختم کرنا ہے۔
(3) ”جیسے غسل جنابت کرتی ہے“ یعنی خوب اچھی طرح، یہ مطلب نہیں کہ خوشبو لگانے سے غسل فرض ہو جاتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5130
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5131
´عورت خوشبو لگا کر نماز پڑھنے کے لیے مسجد نہ جائے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب عورت خوشبو لگائے ہو تو ہمارے ساتھ عشاء کی جماعت میں نہ آئے۔“ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ کسی نے یزید بن خصیفہ کی بسر بن سعید سے روایت کرتے ہوئے «عن ابی ھریرہ» کہنے میں متابعت کی ہو۔ اس کے برعکس یعقوب بن عبداللہ بن اشج نے اسے روایت کرنے میں «عن زینب الثقفیۃ» کہا ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5131]
اردو حاشہ:
(1) امام نسائیؒ کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ روایت یزید بن خصیفہ نے بسر بن سعید سے بیان کی ہے اوراسے حضرت ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مسند بنایا ہے جب کہ ان کے علاوہ کسی نے بھی اسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مسند نہیں بنایا کہ بلکہ یعقوب بن عبداللہ بن اشج نے یزید کی مخالفت کی ہے اوراس روایت کو بسر بن سعید سے بیان کرتے ہوئے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بجائے حضرت زینب ثقفیہ رضی اللہ عنہا (حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ) کی مسند بنایا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ امام نسائیؒ کے نزدیک یعقوب بن عبداللہ بن اشج کی روایت راجح ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یزید بن عبداللہ بن خصیفہ ثقہ راوی ہے اور ثقہ راوی کی حدیث میں زیادتی، جبکہ وہ اوثق کی روایت کے منافی یا اس کے مخالف نہ ہو، تو قابل قبول ہوتی ہے، لہٰذا یعقوب بن عبداللہ بن اشج کی مخالفت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ واللہ أعلم۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ عورتیں نماز پڑھنے کی خاطر مسجد جا سکتی ہیں۔
(3) ”بخور“ ایک قسم کی خوشبو ہے۔ جب اسے آگ سے سلگایا جاتا ہے تو خوشبو محسوس ہوتی ہے، جیسے آج کل اگربتی وغیرہ۔ لیکن یہاں عام خوشبو مراد ہے کیونکہ کسی قسم کی خوشبو لگا کر بھی گھر سے باہر جانا عورت کے لیے جائز نہیں، خواہ مسجد کو جائے یا کہیں اور۔ عشاء کی نماز کا خصوصی ذکر اس لیے کہ اندھیرے میں عورتوں کے لیے خطرہ زیادہ ہوتا ہے یا اس لیے کہ عورتیں اپنے خاوندوں کے لیے عموماً رات کو خوشبو لگاتی ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5131
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5265
´خوشبو کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو عورت (خوشبو کی) دھونی لے تو وہ ہمارے ساتھ عشاء کے لیے نہ آئے۔“ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5265]
اردو حاشہ:
تفصیل کےلیے دیکھیے حدیث: 5131۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5265
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 998
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس عورت نے خوشبو لگائی ہو وہ ہمارے ساتھ عشاء کی نماز میں شریک نہ ہو۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:998]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
عورت چراغ خانہ ہے شمع محفل نہیں ہے اس لیے وہ اجازت کے بغیر اپنے گھر سے نہیں نکل سکتی،
اور اس نے مسجد میں بھی جانا ہو تو اجازت سے جائے گی اور کوئی ایسی چیز استعمال نہیں کر سکے گی،
جس سے مہک پھوٹتی ہو۔
لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج عورت خوب میک اپ کر کے یا بیوٹی پارلروں سے کروا کے ہر جگہ بے پردہ ہو کر آ جا رہی ہے اور اس کو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے لیکن مساجد سے روکنے والے موجود ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 998