سنن ابي داود
كِتَاب اللِّبَاسِ
کتاب: لباس سے متعلق احکام و مسائل
44. باب فِي الْفُرُشِ
باب: بستر اور بچھونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4142
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدٍ الْهَمْدَانِيُّ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ أَبِي هَانِئٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفُرُشَ، فَقَالَ:" فِرَاشٌ لِلرَّجُلِ وَفِرَاشٌ لِلْمَرْأَةِ وَفِرَاشٌ لِلضَّيْفِ وَالرَّابِعُ لِلشَّيْطَانِ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بستروں اور بچھونوں کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”ایک بستر تو آدمی کو چاہیئے، ایک اس کی بیوی کو چاہیئے اور ایک مہمان کے لیے اور چوتھا بستر شیطان کے لیے ہوتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/اللباس 8 (2084)، سنن النسائی/النکاح 82 (3387)، (تحفة الأشراف: 2377)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/293، 324) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (2084)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4142 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4142
فوائد ومسائل:
گھر کے افراد اور مہمانوں کی آمد کے لحاظ سے بستروں کا اہتمام کرنا حق ہے۔
اس سے زیادہ اسراف، فخرومباہات اور زینت محض ہے جو باعث وبال ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4142
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3387
´فرش اور بچھونے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک بچھونا مرد کے لیے ہو، ایک بیوی کے لیے ہو اور تیسرا مہمان کے لیے اور (اگر چوتھا ہو گا تو) چوتھا شیطان کے لیے ہو گا“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3387]
اردو حاشہ:
(1) رخصتی کے موقع پر دیا جانے والا سامان مناسب ہونا چاہیے بشرطیکہ دینے کی استطاعت ہو‘ فالتو سامان جو ان کے استعمال میں بھی نہ آئے‘ نہیں دینا چاہیے۔ غلو کسی بھی چیز میں نقصان دہ ہے۔ مروجہ رسم جہیز بہت سی معاشرتی خرابیوں کا سبب بنتی ہے۔ انسان مقروض ہوجاتا ہے‘ رشتے نہیں ہوتے‘ غریب لوگ بے بس ہوجاتے ہیں‘ عورتیں گھروں میں بیٹھی بوڑھی ہوجاتی ہیں‘ بعد میں دنگا فساد بھی ہوتا ہے۔
(2) ”شیطان کے لیے“ یعنی جو چیز استعمال میں نہیں آتی‘ وہ رکھنا حرام ہے۔ شیطانی کام ہے۔ اگر بچے ہوں یا دوسرے افراد بھی ہوں تو ان کے لیے خواہ بس بستر ہوں‘ جائز ہیں کیونکہ وہ تو استعمال ہوتہے ہیں۔ ”چوتھے“ سے مراد غیر ضروری ہیں جو استعمال نہیں ہوتے۔ واللہ أعلم۔
(3) ممکن ہے اس باب کا مقصود یہ ہو کہ گھر میں ایک سے زائد بستر رکھے جا سکتے ہیں بشرطیکہ وہ گھریلو افراد یا مہمانوں کے استعمال کے لیے ہوں‘ ورنہ ناجائز ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3387
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5452
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: ”ایک بستر خاوند کے لیے اور ایک بستر اس کی بیوی کے لیے اور تیسرا مہمان کے لیے اور چوتھا شیطان کے لیے ہے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5452]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
ظروف اور حالات کے مطابق بستر بنانا صحیح ہے،
لیکن محض فخر و مباہات اور اپنی دولت مندی کے اظہار کے لیے بستروں کی بھرمار کرنا،
حالانکہ کبھی ان کی ضرورت پیش نہیں آ سکتی،
یہ اسراف اور تبذیر ہے،
جس پر شیطان خوش ہوتا ہے اور آمادہ کرتا ہے اور بقول بعض ایسے بستروں پر شیطان ہی رات گزارتا ہے اور قیلولہ کرتا ہے،
جیسا کہ اس انسان کے گھر میں رات گزارتا ہے،
جو رات کو گھر داخل ہوتے وقت اللہ کو یاد نہیں کرتا اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے،
حالات کے پیش نظر خاوند بیوی الگ الگ بھی سو سکتے ہیں،
ہر حالت میں اکٹھے سونا لازم نہیں ہے،
حالات اجازت دیں تو پھر اکٹھے سونا افضل ہے،
جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5452