Note: Copy Text and to word file

سنن ابي داود
كِتَاب اللِّبَاسِ
کتاب: لباس سے متعلق احکام و مسائل
40. باب فِي أُهُبِ الْمَيْتَةِ
باب: مردہ جانور کی کھال کا بیان۔
حدیث نمبر: 4126
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ فَرْقَدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكِ بْنِ حُذَافَةَ حَدَّثَهُ،عَنْ أُمِّهِ الْعَالِيَةِ بِنْتِ سُبَيْعٍ، أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ لِي غَنَمٌ بِأُحُدٍ فَوَقَعَ فِيهَا الْمَوْتُ، فَدَخَلْتُ عَلَى مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهَا، فَقَالَتْ لِي مَيْمُونَةُ: لَوَ أَخَذْتِ جُلُودَهَا فَانْتَفَعْتِ بِهَا، فَقَالَتْ: أَوَ يَحِلُّ ذَلِكَ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، مَرَّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رِجَالٌ مِنْ قُرَيْشٍ يَجُرُّونَ شَاةً لَهُمْ مِثْلَ الْحِمَارِ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ أَخَذْتُمْ إِهَابَهَا، قَالُوا: إِنَّهَا مَيْتَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُطَهِّرُهَا الْمَاءُ وَالْقَرَظُ".
عالیہ بنت سبیع کہتی ہیں کہ میری کچھ بکریاں احد پہاڑ پر تھیں وہ مرنے لگیں تو میں ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی اور ان سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے مجھ سے کہا: اگر تم ان کی کھالوں سے فائدہ اٹھاتیں! تو میں بولی: کیا یہ درست ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے قریش کے کچھ لوگ ایک مری ہوئی بکری کو گدھے کی طرح گھسیٹتے ہوئے گزرے، تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم نے اس کی کھال لے لی ہوتی لوگوں نے عرض کیا: وہ تو مری ہوئی ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانی اور بیر کی پتی اس کو پاک کر دے گی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الفرع والعتیرة 3 (4251، 4252)، (تحفة الأشراف: 18084)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/334) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (510)
أخرجه النسائي (4253 وسنده حسن) وللحديث شواھد
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4126 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4126  
فوائد ومسائل:
درج ذیل باب کے بعد والے باب میں درندوں کی کھالوں سے ممانعت کی احادیث سےثابت ہوتا ہے، صرف حلال جانوروں کی کھال ہی رنگنے سے پاک ہوتی ہے نہ کہ حرام جانوروں اور درندوں کھالیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4126   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 18  
´دباغت (رنگائی) کے بعد ہر قسم کا چمڑا پاک ہو جاتا ہے`
«. . . إنها ميتة،‏‏‏‏ فقال: ‏‏‏‏يطهرها الماء والقرظ . . .»
. . . وہ تو مری ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر فرمایا پھر کیا ہوا؟) اس کو پانی اور کیکر کی چھال پاک کر دیتی ہے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 18]
لغوی تشریح:
«اَلْقَرَظُ» قاف اور را کے فتحہ کے ساتھ ہے۔ کیکر کے پتے اور چھال۔ اس وقت عرب میں اس کے ساتھ چمڑے کی دباغت مشہور و معروف تھی۔

فائدہ:
یہ اور پہلی دونوں احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ مردار کے چمڑے دباغت سے پاک ہو جاتے ہیں۔ ان سے برتن بنانا اور ان برتنوں سے وضو وغیرہ کرنا جائز ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 18   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4253  
´مردار کی کھال کو دباغت دینے والی چیزوں کا بیان۔`
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے قریش کے کچھ لوگ گزرے، وہ اپنی ایک بکری کو گدھے کی طرح گھسیٹ رہے تھے، ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم لوگ اس کی کھال رکھ لیتے (تو بہتر ہوتا)، انہوں نے کہا: وہ مردار ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے پانی اور سلم درخت کا پتا (جس سے دباغت دی جاتی ہے) پاک کر دیتے ہیں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الفرع والعتيرة/حدیث: 4253]
اردو حاشہ:
یہ حدیث اس بات پر دلات کرتی ہے کہ مردار جانور کے کچے چمڑے کورنگنے کے لیے پانی اور کیکر کی چھال ضروری ہے یا اسی قسم کی صلاحیت رکھنے والا ایسا کیمیکل جو چمڑے کی بو اور رطوبت کو ختم کر دے، اس کا استعمال بھی جائز ہے۔ مقصود دباغت ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4253